طبی ماہرین کے مطابق موسیقی ناصرف ذہنی سکون کا ذریعہ ہے بلکہ یہ ڈیمنشیا (یادداشت کی کمزوری) کے اثرات کو کم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ جب لوگ اپنے پسندیدہ گیت سنتے ہیں تو دماغ کے مختلف حصے بیک وقت متحرک ہو جاتے ہیں، جس سے یادداشت، توجہ اور جذباتی توازن میں بہتری آتی ہے۔
ڈیمنشیا ایک اعصابی بیماری ہے جو یادداشت، بات چیت اور رویے کو متاثر کرتی ہے، اگرچہ اس کا ابھی تک کوئی مستقل علاج موجود نہیں، مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ میوزک تھراپی کے ذریعے اس کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے اور ذہنی کمزوری کے عمل کو سست کیا جا سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق پرانے گانے سننا دماغ کے ان حصوں کو فعال کرتا ہے جو یادداشت، زبان، توجہ اور جذبات کو کنٹرول کرتے ہیں، یہ عمل دماغ کے لیے ایک طرح کی ورزش کے مترادف ہے، جو دماغی کارکردگی کو طویل عرصے تک برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے۔
دماغی اسکینز سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب افراد پسندیدہ دھنیں سنتے ہیں تو نیورل کنکشنز مضبوط ہوتے ہیں، خاص طور پر وہ حصے جو یادداشت اور توجہ سے تعلق رکھتے ہیں، یہ مضبوط روابط ڈیمنشیا کے مریضوں میں ذہنی اور جذباتی استحکام برقرار رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ موسیقی کے جذباتی اور تخیلاتی پہلو دماغ کو پرسکون کرتے ہیں اور اضطراب یا بے چینی کو کم کرتے ہیں، جو ڈیمنشیا کے مریضوں میں عام علامات ہیں۔
پرانے گیت اکثر ماضی کے تجربات اور یادوں سے جڑے ہوتے ہیں، جنہیں سن کر مریض ماضی کے خوشگوار لمحات سے دوبارہ جڑ سکتے ہیں، اس سے ناصرف ان میں شناخت اور مانوسیت کا احساس بحال ہوتا ہے بلکہ ان کی سماجی میل جول اور بات چیت کی صلاحیت میں بھی بہتری آتی ہے۔
ماہرین کے مطابق موسیقی دماغ کے لیے صرف تفریح نہیں بلکہ علاج کا ایک مؤثر ذریعہ بن سکتی ہے، جو ناصرف یادداشت بلکہ انسان کے جذباتی اور سماجی توازن کو بھی مضبوط کرتی ہے۔