• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غزہ: امتحانی نتائج کا اعلان، کئی کامیاب طلبہ شہید ہوچکے

فوٹو القدس نیوز نیٹ ورک
فوٹو القدس نیوز نیٹ ورک

غزہ میں انٹرمیڈیٹ میں کامیابی حاصل کرنے والے کئی طلبہ اور طالبات اسرائیلی فوج کی بم باری میں جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں۔

نصیرات کیمپ کی طالبہ دوحہ ناظمی ابو دلال نے بھی انٹرمیڈیٹ میں 96.7 فیصد نمبر حاصل کیے تھے، لیکن وہ یہ کامیابی دیکھنے کے لیے زندہ نہیں رہی۔

اکتوبر کے آخر میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کے بعد اسرائیلی فضائی حملے میں دوحہ اپنے خاندان کے 18 افراد کے ساتھ شہید ہوگئیں۔ دوحہ کو عزم و ہمت کی مثال سمجھا جاتا تھا، مگر ان کا خواب جنگ کی نذر ہوگیا۔

فلسطینی صحافی حسام المسری کی بیٹی، جو 25 اگست کو ناصر اسپتال پر اسرائیلی حملے میں شہید ہوئے، نے بھی نمایاں کارکردگی دکھاتے ہوئے 92.3 فیصد نمبر حاصل کیے۔

فلسطینی وزارتِ تعلیم نے گزشتہ روز 2007 میں پیدا ہونے والے تقریباً 30 ہزار طلبہ کے  انٹرمیڈیٹ امتحانات کے نتائج کا اعلان کیا، جو غزہ کی پٹی میں سالہا سال سے جاری تباہ کن جنگ کے ماحول میں ایک تاریخی مرحلہ ثابت ہوا، یہ اسرائیلی نسل کشی کے آغاز کے بعد دوسرا موقع ہے کہ انٹرمیڈیٹ کے نتائج جاری کیے گئے ہیں۔

2 برس کی شدید ذہنی و جسمانی اذیت، نیند کی محرومی، لگاتار بمباری، اور امدادی محاصرے کے باوجود فلسطینی طلبہ نے غیر معمولی کارکردگی دکھا کر سب کو حیران کردیا۔

27 اسکولوں کی تباہی، 16 ہزار سے زائد طلبہ اور 750 اساتذہ کی شہادت کے بعد امتحانات مکمل طور پر آن لائن لیے گئے تاکہ تباہ شدہ تعلیمی ڈھانچے کے باوجود تعلیمی سلسلہ جاری رکھا جاسکے۔

غزہ انٹرمیڈیٹ بورڈ کے امتحانات میں 11 فلسطینی لڑکیوں نے 99 فیصد سے زائد نمبر لے کر ٹاپ پوزیشن حاصل کرلی، نتائج کے اعلان کے ساتھ کامیاب طلبہ کے خاندانوں نے تباہ حال علاقوں میں جشن منایا۔

القدس نیوز نیٹ ورک کے مطابق محاصرہ زدہ غزہ کی رہائشی مَلَک عاشور اپنے گھر کے بیٹھک میں موبائل فون تھامے اپنے نتائج کی منتظر تھیں۔ گھر کے افراد بار بار اپنے فون ریفریش کرکے نتائج دیکھنے میں مصروف تھے۔


ملک عاشور : فوٹو القدس نیوز نیٹ ورک
ملک عاشور : فوٹو القدس نیوز نیٹ ورک 

جیسے ہی نتائج سامنے آئے، ملک کے 93 فیصد نمبروں نے پوری فیملی میں خوشی کی لہر دوڑا دی۔ جس کے بعد سب روایتی فلسطینی گیت گاتے ہوئے اس کی کامیابی کا جشن منانے لگے۔

کامیاب طالبہ نے کہا کہ گزشتہ دو سالوں میں مستقل بمباری، بے گھری، بھوک اور خوف کے ماحول میں پڑھنا تقریباً ناممکن تھا۔ وہ کم از کم آٹھ مرتبہ بے گھر ہوئیں اور پورے عرصے میں جنوبی غزہ کے ایک خیمے میں رہتی رہیں۔

طالبہ کا کہنا تھا کہ ’ہم نے موت کا خوف، مزید نقل مکانی کا خوف، بھوک، اور مستقبل کے اندیشے جھیلے۔ پڑھنے کے لیے نہ کتابیں تھیں، نہ ہی توانائی۔ مگر اللّٰہ نے ہمت دی۔‘

جنگ بندی کے 10 اکتوبر کے اعلان کے بعد ملک عاشور  کا خاندان پوری طرح  تباہ ہونے والے اپنے گھر لوٹا، جہاں ملک نے ملبے کے درمیان کھڑے ہو کر اپنی کامیابی کا جشن منایا۔

نور ایاد نے اپنے کم سن بھائی کی شہادت کے بعد شدید صدموں میں رہ کر امتحانات دیے۔

کامیاب طالبہ کا کہنا ہے کہ ’میں نے کھنڈرات کے درمیان، ایک خیمے میں، بغیر کھانے، بغیر بجلی، اور بغیر انٹرنیٹ کے پڑھائی کی۔ بھائی کی شہادت نے سب کچھ اجیرن بنا دیا تھا۔

نور نے اپنی کامیابی شہید بھائی  کے نام کر دی۔

رفح کی طالبہ  آیا حنیف نے 95.3 فیصد نمبر حاصل کیے مگر کہا کہ ان کی خوشی ادھوری ہے، کیونکہ رفح اب بھی اسرائیلی قبضے میں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ  ہمارا گھر تباہ ہوچکا ہے۔ میرا کزن بستر پر بیٹھے بیٹھے شہید کیا گیا۔ یہ خوشی مکمل نہیں ہو سکتی۔

غزہ کے یہ زندہ دل، باہمت اور ثابت قدم طلبہ دنیا کو دکھا رہے ہیں کہ تعلیم کی شمع ملبوں کے بیچ بھی روشن رہ سکتی ہے۔

خیال رہے کہ غزہ پر اسرائیل کی دو سالہ جنگ میں 69 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوئے، غزہ کی 81 فیصد عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں، تقریباً پوری آبادی بے گھر ہوگئی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل، بی تسلیم، ہیومن رائٹس واچ سمیت متعدد بین الاقوامی ادارے اسرائیل کو نسل کشی کا مرتکب قرار دے چکے ہیں۔

ستمبر میں اقوامِ متحدہ کے آزاد تحقیقاتی کمیشن نے بھی اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

بین الاقوامی خبریں سے مزید