ہوریشیو، زمین و آسمان میں اس سے کہیں زیادہ عجائب ہیں جن کا تمہارا فلسفہ خواب دیکھ سکتا۔ شیکسپیئر ( ہیملٹ) درد کا مظہر انتہائی اذیت ناک اورپریشان کن ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے فوری اثرات سے آگے دیکھیں تو یہ زندگی کی اُن حقیقتوں کو بے نقاب کرتا ہے جو عدم اطمینان اور بے چینی کا سبب بنتی ہیں ۔ یہ بھی سچ ہے کہ صدیوں سے انسانی کوششیں متعدد چیلنجوں کا حل تلاش کرنے میں مصروف ہیںجن کا اسے دائمی سامنا ہے۔ جہدمسلسل کے ناقابل پیمائش نتائج برآمد ہوئے ہیں ۔ ان میں سے کچھ کامیابیاں عظمت کی حدودسے بھی ماورا ہوتی ہیں جن سے انسانی جذبے کی معراج دکھائی دیتی ہے ۔ اگرچہ ہم نے ان شعبوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جو ذہانت، مہارت، ہمت اور عزم کے متقاضی ہیں، لیکن بظاہر آسان چیلنجوں سے نمٹنے میں ہم انسانیت کے اجتماعی فائدے کیلئے کوئی پائیدار بنیاد بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ ذاتی مفادات کی وجہ سے انسانی نجات کی جدوجہد مکمل طور پر بار آور ثابت نہیں ہو پائی ہے ۔
ستائیسویں آئینی ترمیم کے نفاذ کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا اور بہت کچھ لکھا جائے گا۔ یہ قانون سازی کے متعدد معیارات کااحاطہ کرتی ہے جس میں ایک سوال مشترک ہے:اس افراتفری کی غرض وغایت کیا تھی اور اس سے ملک کے عام لوگوں کو مختصر اور طویل مدت میں کیا فائدہ پہنچے گا؟قوموں کی ترقی اور خوشحالی اس کے اداروں کی مضبوطی سے جڑی ہوتی ہے۔ ان میں انصاف کی فراہمی سب سے اہم ہے۔ دنیا کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ جو ریاستیں انصاف کو یقینی نہ بنا سکیں وہ فنا ہو گئیں جب کہ جہاں انصاف کی موثر فراہمی ہوئی وہ پوری توانائی سے ترقی کرتی گئیں ۔
بدقسمتی سے آمریت کے طویل ادوار ،ا ور اس کے منڈلاتے ہوئے سایوں ، جنھیں غیر مستحکم نیم جمہوری ادوار قرار دیا جا سکتا ہے، کے دوران پاکستان دو انتہائوں کے درمیان سرگرداں رہا ہے ۔ اس دوران ابہام کی دھند گہری رہی کہ کس طرح کی حکمرانی چاہیے، کس چیز کی حمایت کرنی چاہیے اور اسے کس چیز سے دور رہنا چاہیے۔ ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے امکانات کو نقصان پہنچانے کے علاوہ ملک ایک یرغمالی ریاست بن کر رہ گیا جس کے ایک ہاتھ میںکشکول ہے،اور وہ مالی وسائل کیلئے دوستوں اور قرض دینے والوں کے دروازے کھٹکھٹا رہا ہے۔ اس نے اس کی نفسیات پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں اور اس کے وقار اور عزت نفس کو زک پہنچائی ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سوچ راسخ ہو چکی ہے کہ پاکستان کو چند لوگوں کے حکم کے مطابق چلایا جانا چاہیے۔ اداروں کو کنٹرول کرتے ہوئے اس سوچ کو عملی جامہ پہنایا جارہا ہے، خاص طور پر عدلیہ کو جو کہ طے کردہ احکامات کی پیروی پر مجبور ہے ۔ اس صورت میں عدلیہ آئین اور قانون کے مطابق انصاف فراہم کرنے سے قاصرہے ۔ پاکستان کے عدالتی نظام پر طویل عرصے سے ایسے فیصلوں کا بوجھ ہے جس کی وجہ سے اس کا دامن داغدار ہے۔ اب ادارے کے اندر سے آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے اور اس راستے پر چلنا مکمل تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ درحقیقت، ہم پہلے ہی سرخ لکیر عبور کر چکے ہیں۔چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھے گئے خط میں عدالت عظمیٰ کے ایک حاضر سروس جج نے عوامی اعتماد کے کھو جانے پر افسوس کا اظہار کیا ہے: ’’سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے یہ قوم ناانصافی، مایوسی اور حقائق سے اوجھل رکھے جانے کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ ایسی سچائیاں جو ہمارے لوگوں کا مقدر بناتیں، اداروں کی نام نہاد تقدیس کی آڑ میں چھپادی گئی ہے۔ عوام کو اس عدالت پر بھروسہ ہے جس کی قانونی حیثیت کو یہ جاننے کا حق ہے کہ انصاف کیسے ہوتا ہے اور کب اس سے محروم رکھا جاتا ہے ۔ اس عدالت کی اخلاقی طاقت کا اندازہ اس کے بے خطا ہونے سے نہیں بلکہ اس کی دیانت اور خامیوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت سے کیا جائے گا‘‘۔
پہلے 26 ویں اور پھر 27 ویں آئینی ترمیم نے ملک میں عدالتی ڈھانچے کے بنیادی اصولوں پر حملہ کیا ہے۔ یہ ریاست کے تین ستونوں، مقننہ، ایگزیکٹو اور عدلیہ کے بارے میں آئین میں درج طاقت کی تکون کے تصور کو مؤثر طریقے سے منہدم کرتی ہے، جو ایک دوسرے سے آزاد اپنی اپنی حدود میں کام کرتے ہیں۔ ان ترامیم نے عدلیہ کو طاقتور اشرافیہ کے زیر نگین کرتے ہوئے اسے مقدمے کے مواد اور میرٹ کی بنیاد پر پاکستان کے عوام کیلئے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے حق اور ذمہ داری سے محروم کر دیا گیا ہے۔ عدلیہ کے اندر سے آنیوالی آوازوں نے ادارے کو درپیش چیلنجوں اور ان سے نمٹنے اور خود احتسابی کے لیے عدالتی کنونشن بلانے کا مطالبہ کیا ہے: ’’عدالتی کنونشن کے انعقاد سے سامنے آنے والی سچائی سے ہمیں یہ موقع ملے گا کہ ہم اپنی اجتماعی کوتاہیوں کو تسلیم کر سکیں ۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آنے والی نسلوں کے لیے ایسی عدلیہ چھوڑ کر جائیں جو آئین ، عوام اور انصا ف کی فراہمی کے وعدے کے ساتھ مضبوطی سےکھڑی ہے۔
میں طویل عرصے سے اسٹیک ہولڈرز کے درمیان مکالمے کی درخواست کرتا رہا ہوں۔ یہ اداروں کے اندر اور اداروں کے درمیان جائزہ لینے کا وقت ہے تاکہ دیکھ سکیں کہ ہم تاریخ کی دہلیز پر کہاں کھڑے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ بہت کچھ غلط ہو گیا ہے۔ لیکن چیزیں اس طرح نہیں رہ سکتیں کیونکہ یہ جمود ہمیں گہری کھائی میں دھکیل دے گا۔ یہ خامیوں کے اظہار اور ان کے ازالے کیلئے ضروری ہے جو ہمارے سیاسی جسد میں دھیرے دھیرے سرایت کر چکی ہیں۔ اس کی پیدا کردہ خرابیوں کی وجہ سے نظام غیر فعال ہونے کی دہلیز پر ہے ۔ ہم بے اطمینانی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ لیکن پھرہم ایک آزاد ملک کے طور پر اپنی قومی زندگی کے تمام مراحل چاہےفوجی ہوں یا غیر فوجی ، میں ایسے دور سے ہی گزرے ہیں۔ ایک قسم کی حکومت سے دوسری تک، ایک تجربے سے دوسرے تک، ایک آقا کے انتخاب سے لے کر دوسرے تک، قدرتی یا انسان کے پیدا کردہ بحران کا سامنا کرنے سے لے کر دوسرے تک، یہ بے یقینی کا نہ ختم ہونے والا چکر ہے جس نے ملک کے غریبوں اور پسماندہ لوگوں کو ناقابل بیان مصائب سے دوچار کر رکھا ہے ۔چیلنج تو ان گنت ہیں۔ دہشت گردی کی لہر بدستور ملک میں فوجی اور سویلین تنصیبات کو نشانہ بنا رہی ہے۔ ہمیں اپنی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کا سامنا ہے۔ معاشی حالات پر تو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے گہری اور نقصان دہ بے چینی جنم لیتی ہے۔ اس طرح کے عدم استحکام کے ہوتے ہوئے کوئی ریاست ترقی نہیں کر سکتی۔
(کالم نگار پی ٹی آئی کے رہنما ہیں)