اگر آپ کو اطلاع ملے کہ ایمازون کے جنگل میں ایک وحشی نے اپنا گوشت چرانے والے دوسرے جنگلی کو ڈنڈے مار کر ہلاک کر دیا تو حیرت کیسی ۔ حیرت تو یہ ہے کہ جب ان وحشیوں کو شہر لایا جائے، پڑھایا لکھایا جائے ، اچھی طرح تعلیم یافتہ ہو کر ریاضی اور فزکس پڑھنے کے بعد وہ میزائل بنا کر ایک دوسرے پر دے ماریں ۔ پاکستان اور بھارت میں جو ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کو فنا کر ڈالنے کے آرزومند ہیں ، ان سے پوچھا جائے کہ تمہارےسچے اور باقیوں کے جھوٹے ہونے کی کیا دلیل ہے ، وہ کوئی جواب نہ دے سکیں گے ۔بلھے شاہ نے کہا تھا:
جا جا وَڑدا مسجداں مندراں اندر
کدے مَن اپنے وچ وَڑیا ای نہیں
یہ دور ، جس میں ہم جی رہے ہیں ، بڑا خوفناک ہے ۔ شاعر نجانے کس اذیت سے گزرا ہوگا، جب اس نے یہ کہا :
اس دور میں زندگی بشر کی
بیمار کی رات ہو گئی ہے
نیا دور کیا ہے ؟ کبھی غزہ ، کبھی سوڈان۔ آدمی سوشل میڈیا کھولتا اور ننھے بچوں کو خون میں لت پت دیکھتا ہے ۔ ہر روز اس طرح کے مناظر دیکھنا شاید ہماری سزا ہے ۔ ساہیوال کی وہ قیامت آج بھی یاد ہے ۔ تین بچوں کو گاڑی سے اتار کر ان کے سامنے ان کے ماں باپ کو گولیوں سے بھون دیا گیا ۔وہ سکتے میں کھڑے تھے۔ چھوٹی بچی نے فیڈر مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا اور اس فیڈر پہ خون لگا تھا۔ ان بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ کو قتل کرنیوالے کس منہ سے اپنے بچوں کے پاس جاتے ہونگے ؟ کیا کوئی نارمل انسان ایسا کر سکتاہے ؟ نارمل اب کوئی ہے ہی نہیں ۔ جنگ زدہ شام کی ایک بچی نے کہا : میں بھوکی ہوں ۔ روز میں بھوکی سوتی ہوں اور ا سکی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے ۔انسان چیخ اٹھتا ہے ۔ امریکہ نے وحشیوں میں سے جیت جانے والے ، بھیڑیوں میں سب سے بڑے بھیڑیے کو ہار پہنائے۔ اس کی حکومت تسلیم کی، داڑھی ترشوائی ، سوٹ پہنایا اور تخت پہ بٹھا دیا۔
پاکستان میں ایسے بے شمار لوگ موجود ہیں ، جو اسرائیلیوں اور امریکیوں سے کم سفاک نہیں ۔ یہ ننھی ملازماؤں کو خریدتے اور ان پہ تشدد کرتے رہتے ہیں ؛حتیٰ کہ ان میں سے کئی جان سے گزر جاتی ہیں ۔ کئی ساری زندگی باقی رہنے والے صدمات کے زیرِ اثر جیتی ہیں ۔ یہ لوگ ان پڑھ نہیں ، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ۔ 2سال قبل لاہور میں ایک سول جج کے گھر میں تیرہ سالہ رضوانہ کو تقریبا قتل کر دیا گیا ۔جج صاحب کے طمطراق میں پھر بھی کوئی کمی نہیں آئی۔
نیا دور کیسا ہے ؟ شام، لیبیا، افغانستان ، ایران، ہر جگہ طاقتور اقوام کمزوروں پہ ٹوٹ پڑتی ہیں ۔ ساری دنیا کے طاقتور ملک مظلوم ملک کے خلاف جارح کا ساتھ دیتے ہیں ۔
نئے دور کا طرزِ زندگی کیسا ہے ؟ آج ہم پلاسٹک کے ڈبوں میں گرم خوراک منگواتے اور کھاتے ہیں ۔ بے شمار مائیکرو پلاسٹک ذرات روز ہم نگلتے ہیں ۔ ہر سو میں سے کچھ افراد کو کینسر ہو کر رہنا ہے ۔ آپ ایک کیلا بھی خریدیں تو وہ بھی آپ کو ایک پلاسٹک بیگ میں ڈال کر دیا جاتا ہے ۔ یہ سب اس وقت ہو رہا ہے ، جب عالمی سطح پر انسان اس نتیجے پر پہنچ چکا کہ پلاسٹک ایک بہت بڑی لعنت ہے اور اس نے کرہ ارض کو آلودہ کر ڈالا ہے ۔ خشکی اور پانی میں فساد ظاہر ہو گیا اور یہ انسان کے اپنے ہاتھ کی کمائی ہے ۔ الروم 30
ہر کچھ دن بعد موبائل کمپنی کوئی نئی ’خدمت‘پیش کرتے ہوئے آپ سے رابطہ کرتی ہے ۔ اشیا بیچنے والے دن رات آپ کو فون کرتے ہیں ۔ شہر منڈیاں بن چکے ۔انسان پراڈکٹس خریدنے کرنیوالا ایک روبوٹ بن چکا،اسے یقین دلادیاجاتاہے کہ اس پروڈکٹ کی اسے ضرورت ہے ۔ جب ایک شخص آپ سے بات کر رہا ہوتا ہے تو آپ بے اختیار گردن جھکائے ٹچ موبائل پہ ہاتھ مارتے رہتے ہیں ۔ آپ دنیا کی کسی شے کے بارے میں ایک دفعہ سرچ کر کے دیکھ لیں ، آپ کو اگلا ایک مہینہ اس کے اشتہار موصول ہوتے رہیں گے ۔انسانی عقل کا عالم یہ ہے کہ اعلیٰ زرخیز زمینوں پہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنتی ہیں ۔ صحراؤں کو گلنار کرنے کے خواب دیکھے جاتے ہیں ۔
آپ سوشل میڈیا کی کسی افسوسناک پوسٹ کو چند سیکنڈ رک کر دیکھ لیں ، آپ پر اسی طرح کی پوسٹس نازل ہونا شروع ہو جائیں گی ۔ آپ گاڑی چلا تے ہوئے موبائل پہ ہاتھ مار رہے ہیں ۔ آپ کا بچہ آپ سے کھیلنا چاہتا ہے ، آپ موبائل پہ ہاتھ مار رہے ہیں ۔ آپ اپنی طرف سے بڑی علم و حکمت پہ مبنی پوسٹ شیئر کرتے ہیں ۔نیچے آپ کو سنہرے حروف میں ایسا خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے کہ کانوں سے دھواں نکل جاتا ہے ۔ایک دفعہ ایک شخص مجھ سے کہنے لگا: یہ تو ایسا ہی ہے ، جیسے بندہ کھیر پکا کے کتے کے سامنے رکھ دے ۔ ہر دوسرے دن سوشل میڈیا پہ کسی نہ کسی کا نروس بریک ڈاؤن ہو رہا ہے ۔
لوگ مسلسل حالتِ جنگ میں ہیں ۔ ایک جنگ تو ایسی ہوتی ہے کہ اس کے اختتام پہ آ پ کی خدمات کا اعتراف کیا جائے۔ یہ وہ جنگ ہے ، جس میں آپ کو صرف ذلالت حاصل ہونی ہے ۔ اگر آپ روزانہ دو آیات یاد کرنا شروع کر دیں ، دس سال بعد حافظ ہوں گے ۔ آپ گاڑی کے پرزوں پہ غور کریں ، شاعری پڑھنا شروع کر دیں ، کچھ عرصے بعد لازماً آپ کے ہاتھ میں کوئی مہارت ہوگی ۔ واحد یہ ایک سوشل میڈیا ہے ، جسے آپ روزانہ دس دس گھنٹے صرف کرنے کے بعد آخر میں کچھ بھی حاصل نہیں کرتے ۔ لوگ کئی کئی سال سے ایک دوسرے کے لیڈر کی تذلیل میں مصروف ہیں ۔ دوسری طرف سے بھی ان کو اسی زبان میں جواب مل رہا ہوتا ہے ۔
انسانوں کی اجتماعی دانش کا حال یہ ہے کہ جب کسی ملک میں کوئی طاقتور شخص آتا ہے ، وہ آئین اور قانون کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتاہے ۔ میڈیا سمیت سارے طبقات اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں ۔ بڑے بڑے قانون اور آئین کے ماہر اسے چور راستہ دکھاتے ہیں ؛تاآنکہ وہ شخص پرویز مشرف کی طرح مایوس اور نامراد اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے ۔اپنے خالق کے حضور جوابدہی کے لیے ۔
بُلھے شاہ پتہ تَد لگ سی
جدوں چِڑی پَھسی ہتھ بازاں
ہے کوئی عبرت حاصل کرنے والا؟