وفاقی وزیر صحت سید مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم کے تحت صحت اور تعلیم کے شعبے صوبائی حکومتوں کے پاس ہی رہنے چاہئیں۔
مصطفیٰ کمال نے پمز اسپتال کی نئی ایمرجنسی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب پمز بنا تو اس وقت 20 فیصد آبادی کم تھی، آج کئی گنا بڑھ گئی ہے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ آدھا خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے لوگ یہاں آتے ہیں، پرانی پمز ایمرجنسی میں 36 بیڈز تھے، اب 177 بیڈز اور 4 آپریشن تھیٹرز ہیں۔
مصطفیٰ کمال نے بتایا کہ ساڑھے 6 ارب روپے کی لاگت سے نئی ایمرجنسی بنی ہے، ہمیں بیمار پڑنے سے بچنا ہے، احتیاط علاج سے بہتر ہے، حکومت تنہا کچھ نہیں کر سکتی ہے، دنیا کے مہذب معاشروں میں لوگ بیماریوں سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں، یہ میرا اپنا آئیڈیا نہیں بلکہ ماہرین کی رائے ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے تحت صحت کے شعبے صوبوں کو چلے گئے، صحت اور تعلیم صوبوں کے پاس ہے اور صوبوں کے پاس ہی رہنے چاہئیں، پاپولشن کی وزارت اور قومی نصاب وفاق کے پاس لانے کی تجویز پر بات ہوئی۔
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ گلی محلے کی صفائی، صاف پانی دینا اور صحت کا نظام ٹھیک کرنا کونسلر کا کام ہے، ٹھوس بنیاد پر مقامی حکومتوں کا نظام بنانا ہوگا، وہ ایسا نظام بنائیں جو بیماریوں سے بچائے۔
اُنہوں نے کہا کہ آج ہم دیار غیر جانے کے لیے ویزوں کی لائن میں کھڑے ہوتے ہیں، وہ قومیں 500 سال پہلے وہ کام کرچکی ہیں جو ہم آج کر رہے ہیں، لندن، نیویارک، شنگھائی ایک دن بھی مئیر کے بغیر نہیں چل سکتے، یہاں ایسا فعال اور مؤثر نظام ہی نہیں اس پر بات ہونی چاہیے۔