جب انسان سوچ کے حق سے دستبردار ہوجائے تو افق پر آزادی کی آخری چنگاری بھی بجھ جاتی ہے : تھامس پائن ۔وقت کبھی جامد نہیں ہوتا۔ اس کی اہمیت اور مناسبت اس کی حرکت میں ہے جس میں عظمت اور عامیانہ پن، دونوں کے خدوخال کی جھلک ملتی ہے ۔ اس میں شہنشاہوں اوران کی قوت و ہیبت کے خود ساختہ قصے بھی رقم ہیں اور ان کا اقتدار کی پرشکوہ چوٹی سے گر کرفراموشی کی خاک میں مل جانا بھی ثبت ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ اگرچہ وقت کے دیے ہوئے اسباق بہت واضح ہیں لیکن بہت کم انھیں جادہ منزل کی مشعل راہ بناپاتے ہیں ۔ اس کی بجائے وہ وقت کے فرمان سے سرتابی کرتے ہوئے فراموشی کی مزید گہری ریت میں دفن ہوجاتے ہیں۔ہم صدیوں سے اسی منظر کا اعادہ دیکھتے آئے ہیں ۔ نہ تو وقت نے اپنی عادت بدلی ہے ، نہ غاصب قوتوں کے بے ہنگم خبط میں کمی آئی ہے ۔ پاکستان کا سیاسی منظر نامہ بھی ایسی ہی تصویر پیش کرتا ہے جس میں آمر حکمران اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے وقتاً فوقتاً مچلتے رہتے ہیں۔ آغاز میں قومی مفاد کا تصور پیش کیا جاتا ہے اور تیز رفتار ترقی کیلئےبلند بانگ وعدے کیے جاتے ہیں۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ غبار بیٹھتے ہی انھیں توہین آمیز طریقے سے اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے ۔ صرف یہی نہیں، ایسی مداخلتیں نمو پذیر سیاسی نظام کو شدید نقصان پہنچاتی ہیں۔ نتیجتاً، یہ نظام اتنا راسخ نہیں ہوپاتا کہ عوام کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دے سکے ۔ بار بار پٹڑی سے اترنے کی وجہ سے ملک کو بے شمار نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پچھلے 76 برسوں میں ہم صرف اتنا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ ایک مفاد پرست طبقہ پیدا ہوا ہے جس نے ریاست کے وسائل کو کھوکھلا کر دیاہے۔عام لوگوں کے فائدے کیلئے تبدیلی لانے کی ہر کوشش کو ریاست کی پوری طاقت استعمال کرتے ہوئے ناکام بنا دیا گیا ہے۔لیکن اس سے مصیبت زدہ ملک میں امن نہیں آیا۔ لوگوں کے خواب کچلے جانے کی وجہ سے مزاحمت کا جنون جڑ پکڑ رہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس میں شدت آتی جارہی ہے۔ اس کے جراثیم اسی طرح قوی رہتے ہیں جس طرح ملک کو غیر جمہوری قوتوں نے بار بار یرغمال بنایا ہے جو ریاست کی سیاست میں اپنا بیانیہ داخل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہونے کے باوجود انہوں نے عوام پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کی کوشش جاری رکھی۔ مفاد پرست حکمران طبقے، جنہیں غیر جمہوری طریقے سے اقتدار پر بیٹھایا گیا، کیلئے نفرت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔اس کی وجہ سے ریاست میں واضح طور پر تقسیم اور تفرقے کی لکیریں گہری ہوتی جارہی ہیں ۔ گھمبیر جال میں پھنسے ملک کو ہر آن کڑی ہوتی جارہی زہریلی گرفت سے نکالنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ نہ تو اس خوفناک صورتحال کی کسی کو فہم ہے ، نہ کوئی اس جال کو توڑنے کی ضرورت محسوس کررہا ہے ۔جنکے ہاتھ میں طاقت ہے ، وہ اسے اپوزیشن کو دبانےکیلئے استعمال کررہے ہیں ۔ لیکن ریاستی مشینری کے جبر کا نشانہ بننے والے ان غیر جمہوری ہتھکنڈوں کو توڑنے کیلئے مزید مشتعل ہوتے جارہے ہیں ۔ اس منظر نامے کا سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ریاست کے بنیادی ڈھانچے کی طاقت کی مثلث کو مسمار کرکےاختیارات کا ارتکاز ایک ہاتھ میں دے دیا گیا ہے۔ طاقت کا پورا ڈھانچہ ایگزیکٹو کے زیر کنٹرول ہے جسے نام نہاد آئینی تحفظ حاصل ہو گا تاکہ وہ ریاست کے دیگر دو ستونوں ، عدلیہ اور مقننہ کو دبا سکے جنھیںپہلے ہی مطیع کیا جا چکا ہے ۔ درحقیقت 26 ویں اور 27 ویں آئینی ترامیم نے ان دونوں اداروںکی رسمی تدفین کردی ہے ۔ یہ ترامیم ایسی اسمبلیوں نے منظور کیں جنکے پاس اس کا مینڈیٹ نہ تھا ۔ اس عمل نے ملک کے آئینی چہرے کو بری طرح مسخ کردیا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی بحالی کی امید کا چراغ گل ہو گیا ہے ۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ ہم اس مقام تک کیوں پہنچے ہیں۔ ملک کی آئینی عمارت مقدس ہے، اور اس کے مندرجات کو صرف جمہوری طور پر منتخب اراکین ہی ایسے ماحول میں تبدیل کر سکتے ہیں جو مکمل طور پر خوف سے پاک ہوں۔ اسے غیر منتخب قانون سازوں کے ذریعے پامال نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ایسا ہونا چاہیے تھا۔اس نے عوام کے اس اعتماد کو زک پہنچائی ہے کہ وہ غلامی کی زنجیریں توڑ دیں گے اور اچھے مستقبل کی خوش خبری انکے سامنے ہوگی ۔ سب کچھ برباد ہو کر رہ گیا ہے ، جیسا کہ فیض صاحب نے ان اشعار میں تیکھے انداز میں کہا تھا : یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر / وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں/ یہ وہ سحر تو نہیں، جس کہ آرزو لے کر / چلے تھے کہ یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں / فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل / کہیں تو ہو گا شب سست موج کا ساحل / کہیں تو جا کے رکے گا سفینہء غم دل ۔
ہم جس نہج تک پہنچ چکے ہیں ، نہ تو اس میں اُس خواب کی جھلک ملتی ہے کہ پاکستان کو کیا ہونا چاہیے ، اور نہ ہی اس سے امید کی کوئی کرن ہویدا ہے جس سے اُس بحران کی تاریکی چھٹ جائے جو ہمیںدرپیش ہے ۔ جب انسان وقت کی پیہم حرکت ، اس کے اتار چڑھاؤ سے سبق سیکھنے سے انکاری ہو تو پھر وہ ایسے گھن چکر میںپھنس جاتا ہے جس میں ہم نے پوری سعی کرتے ہوئے خود کو پھنسا لیاہے ۔ آگے بڑھنے کا راستہ تراشنے کیلئے بہترین انسانی صلاحیت اور وابستگی کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے ، لیکن مجھے ملک میں پیش آنے والے واقعات کے تناظر میں ایسا جذبہ کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا ۔
درحقیقت ہر گزرتے دن کے ساتھ صورت حال مزید گھمبیر ہوتی جارہی ہے ۔ مفاہمت کا امکان پیچھے دھکیلا جارہا ہے اور تصادم اور محاذ آرائی کے بادل گہرے ہوتے جارہے ہیں ۔ کسی قوم کی طاقت کا اظہار ہتھیاروں کی نمائش سے نہیں بلکہ اس کے عوام کے اتحاد سے ہوتا ہے ۔ چند دن پہلے اڈیالہ کے مناظر سے حکمران اشرافیہ کی خطرناک حد تک مایوسی کا اظہار ہوتا ہے ۔تمام معقول لوگ متفق ہیں کہ اس زخم کا مداوا تقسیم کی لکیر مزید گہری کرنے سے نہیں بلکہ اس پر مرہم رکھنے سے ہوگا، اور اس کاوش میں تمام اسٹیک ہولڈر شامل ہوں ۔ لیکن مایوسی دلیروں کا چلن نہیں ۔ انکے دلوں میں یقین اور لگن کی تڑپ امید کی ابدی شمع فروزاں رکھتی ہے۔ وقت آگیا ہےاشتعال انگیز نعرہ بازی کی بجائے معقول آوازوںکو موقع دیا جائے تاکہ تبدیلی کا سفرشروع ہوسکے۔
(صاحب تحریر پی ٹی آئی کے رہنما ہیں )