• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنے والد سیّد علمدار حسین گیلانی کی یاد میں! ...سید یوسف رضا گیلانی۔۔۔۔۔سابق وزیراعظم پاکستان

SMS: #NRC (space) message & send to 8001
اپنے والدِ محترم سیّد علمدار حسین گیلانی کی زندگی پر جب قلم اٹھاتا ہوں تو ذہن میں طرح طرح کے خیالات آتے ہیں کہ میرے والد مرحوم نے کتنے ناساز حالات میں پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لئے کام کئے۔ ان کی یادوں کا سلسلہ میرے نگارخانے میں یوں سجا ہوا ہے جیسے کسی بچے کے کمرے میں رنگ برنگے کھلونے سجے ہوتے ہیں۔ کبھی میں تصورات میں خود کو ان کی گود میں پاتا ہوں تو کبھی یوں لگتا ہے جیسے میں ان کی انگلی تھام کے عید کی نماز پڑھنے جا رہا ہوں۔ زمانے کے حوادث اپنی جگہ پر ہیں لیکن آج بھی میں جب کبھی سکون کا متلاشی ہوتا ہوں تو اپنے والدین کی قبروں پر جا کر ہاتھ بلند کر لیتا ہوں کہ میں آج جو کچھ بھی ہوں انہی کی دعاؤں کی بدولت ہوں۔ میرے والد 12؍دسمبر 1919ء بمطابق آٹھ محرم الحرام اپنے آبائی گھر واقع پاک دروازہ ملتان میں پیدا ہوئے۔ پیدائش کے وقت اُن کا نام سیّد ابوالحسن شاہ رکھا گیا لیکن آٹھ محرم الحرام کی نسبت سے بعد میں علمدار حسین رکھ دیا گیا اور یہی نام معروف ہوا۔ والد نے ابتدائی تعلیم ملتان اور مظفرگڑھ میں حاصل کی کیونکہ دادا اُن دنوں سب ڈویژنل مجسٹریٹ علی پور، مظفرگڑھ تعینات تھے۔ نوابزادہ نصرﷲ خان والد کے کلاس فیلو تھے۔ والد نے 1941ء میں ایمرسن کالج ملتان سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ وہ خاندان کے دوسرے فرد تھے جنہوں نے بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ والد نے اپنے زمانۂ طالب علمی ہی سے سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا اور مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ جب وہ ایف اے کے طالب علم تھے تو انہوں نے اپنے بزرگ سیّد زین العابدین شاہ اور مسلم لیگ ضلع ملتان کے صدر چچا مخدوم غلام نبی شاہ کے ساتھ مل کر مسلم لیگ کے لئے کام کیا۔ایک مرتبہ پردادا پیر صدرالدین شاہ گیلانی 1946ء میں چچا سیّد رحمت حسین کی منگنی کے سلسلے میں مخدوم الملک سیّد غلام میراں شاہ گیلانی کے ہاں جمال الدین والی، ضلع رحیم یار خان گئے۔ جب وہ وہاں پہنچے تو مخدوم الملک نے خواہش ظاہر کی کہ ان کی والدہ اور دو بیٹیوں سے بیعت لیں۔ اس طرح یہ خواتین پردادا کے ہاتھ پر بیعت ہوئیں اور بعد میں اُن کی بیٹیوں میں سے ایک کی شادی 1948ء میں میرے والد اور دوسری کی شادی اُسی روز چچا رحمت حسین سے ہوئی، یوں اُن کی یہ دونوں بیٹیاں میری والدہ اور خالہ بنیں۔ اُن کی تیسری بیٹی اُس وقت نو عمر تھیں۔ بعد میں اُن کی شادی پیر صاحب پگاڑو سے ہوئی۔ والدہ کو شادی کے بعد آبائی گھر واقع پاک دروازہ میں لایا گیا۔ بڑی پھوپھی (جو بڑی بی بی کے نام سے موسوم تھیں، زُہد و تقویٰ اور پرہیزگاری میں اتنی مشہور تھیں کہ ملتان میں شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جس نے ان سے فیض نہ پایا ہو، ساتھ ہی وہ صاحبِ ثروت بھی تھیں) نے والد اور چچا رحمت حسین کو قائل کیا کہ آپ دونوں کی دُلہنیں بڑے گھرانوں سے ہیں اور انہوں نے محلات میں پرورش پائی ہے لہٰذا انہیں الجیلان روڈ پر واقع گھر ’الجیلان‘ لے جائیں اور وہیں رہائش پذیر ہوں۔
والد اس گھر ’الجیلان‘ کو خوش بختی اور ملتان کی سیاست کا محور سمجھتے تھے کہ اس گھر میں گورنر جنرل غلام محمد، خواجہ ناظم الدین، وزرائے اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان، حسین شہید سہروردی، آئی آئی چندریگر اور ملک فیروز خان نون کے علاوہ محترمہ فاطمہ جناح اور سردار عبدالرب نشتر اور راجہ غضنفر علی جیسی نامور شخصیات تشریف لا چکی تھیں۔ علاوہ ازیں پیر صاحب اجمیر شریف بھی اس گھر میں تشریف لا چکے تھے۔والد کی یادداشت کمال کی تھی۔ اُنہیں ہزاروں لوگوں کے نام زبانی یاد تھے اور جب کبھی کسی تقریب میں لوگوں کو مدعو کرنا ہوتا تو بہت ہی کم وقت میں اپنی یادداشت سے لوگوں کے نام تحریر کروا دیتے تھے۔والد نے اپنے وزیر بننے کا واقعہ یوں سنایا کہ ایک مرتبہ میں وزیراعلیٰ پنجاب فیروز خان نون سے ملنے اُن کے گھر گیا کہ تمہارے نانا مخدوم الملک سیّد غلام میراں شاہ سے اچانک ملاقات ہو گئی۔ میں نے اُن سے دریافت کیا کہ آپ کیسے تشریف لائے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ میں سردار محمد خان لغاری (سردار فاروق احمد خان لغاری کے والد) کو صوبائی وزیر بنوانے آیا ہوں۔ مجھے یہ سن کر افسوس ہوا کہ انہیں لغاری صاحب کے علاوہ میری بھی سفارش کرنی چاہئے تھی۔ جب میری ملاقات نون صاحب سے ہوئی تو انہوں نے کہا کہ تم وزیر اعلیٰ پنجاب ہو اور مجھے اپنی کابینہ بنا کر دو۔ میں نے کہا کہ میں وزیراعلیٰ نہیں ہوں، آپ ہی ہیں اور یہ استحقاق بھی آپ ہی کا ہے مگر وہ بضد تھے کہ کابینہ مجھے ہی بنانی ہے۔ میں نے کابینہ کے لئے پانچ نام تجویز کئے جب کابینہ کا اعلان ہوا تو ایک نام کا اضافہ تھا اور وہ نام میرا تھا۔ والد نے 1953ء میں فیروز خان نون کی کابینہ میں بطور وزیر صحت و بلدیات حلف اٹھایا۔ والد نے وزیر صحت کی حیثیت سے گرانقدر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے کئی اضلاع میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال (ڈی ایچ کیو) بنوائے جن میں ملتان، میانوالی، مظفرگڑھ اور ڈیرہ غازی خان کے اسپتال قابلِ ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ نشتر اسپتال و میڈیکل کالج ملتان کے قیام میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ میو اسپتال لاہور اور ساملی سینی ٹوریم (ٹی بی اسپتال) مری کی توسیع بھی انہی کے دور میں ہوئی۔اس دور میں ڈاکٹروں کی بے حد کمی تھی اور دیہی علاقوں میں طبی سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ اس اہم انسانی مسئلے کے فوری حل کے لئے والد نے وکٹوریہ اسپتال، بہاولپور میں ایل ایس ایم ایف میڈیکل اسکول کی بنیاد رکھی۔ میٹرک کے بعد اس اسکول میں تین برس کا میڈیکل کورس کرایا جاتا تھا جس کے بعد دو برس تک دیہی علاقے میں خدمات انجام دینے کی لازمی شرط پوری کرنے پر متعلقہ اُمیدوار ایم بی بی ایس کا امتحان دینے کا اہل قرار پاتا تھا۔والد نے اپنے دورِ اقتدار میں عوام الناس کو روزگار فراہم کرنے کے لئے بھی دوڑ دھوپ کی۔ بطور وزیرِ صحت انہوں نے ایم بی بی ایس میں غریب لوگوں کے بچوں کو بھی داخلہ دلوا کر ڈاکٹر بنوایا کیونکہ اس وقت میڈیکل کالج کی نامزدگی گورنر نہیں بلکہ وزیرِ صحت خود کیا کرتا تھا۔ والد کو اس حیثیت سے بھی یاد رکھا جاتا ہے کہ صوبائی وزیر صحت و بلدیات بننے پر 1954ء میں انہوں نے قیامِ پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کرائے۔انہوں نے کوشش کی کہ ہر ضلع میں ایک لائبریری ہو تاکہ عوام کی کتابوں تک رسائی ممکن بنائی جا سکے۔ اس سلسلے میں قلعہ کہنہ قاسم باغ ملتان میں ایک وسیع میونسپل لائبریری کا افتتاح کیا جو ملتان کے لئے ایک عظیم علمی خزانہ ہے۔ والد کچھ عرصہ امپروومنٹ ٹرسٹ (موجودہ وزارتِ ہاؤسنگ) کے صوبائی وزیر بھی رہے۔ اس وقت انہوں نے گلبرگ، لاہور اور مری کو ترقی دلانے کے لئے خصوصی طور پر دلچسپی لی جس کی وجہ سے پورے ملک سے لوگوں نے سرمایہ کاری کی اور کچھ ہی عرصے میں وہ سب سے زیادہ پُر رونق آبادیاں بن گئیں۔ میرے والد نے اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر ’انجمن اسلامیہ‘ ملتان کے بھرپور کام کیا۔ جس کے تحت ان کی زندگی ہی میں کئی اسکولوں اور کالجوں کا قیام عمل میں آیا۔
والد کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ 1956ء کا آئین بنانے والوں میں شامل تھے۔ آئین پاس ہونے پر انہوں نے تمام اراکین کے ساتھ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے ننگے پاؤں اُن کے مزار پر حاضری دی۔اکتوبر 1958ء میں جنرل ایوب خان نے ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ کیا اور 1956ء کا آئین معطل کر دیا۔ ’تحریک پاکستان‘ کے کارکنوں اور چوٹی کے سیاستدانوں کو اَیبڈو کے ذریعے نااہل کر دیا گیا۔ اس بدنامِ زمانہ قانون کی زد میں آنے والوں میں حسین شہید سہروردی، خواجہ ناظم الدین اور کئی دیگر رہنماؤں کے علاوہ میرے والد بھی شامل تھے۔میں نے ہمیشہ والد کو اپنے بھائیوں کے ہمراہ عیدمیلادالنبیﷺ کے مرکزی جلوس، دس محرم الحرام اور ہر جمعرات کو دربار حضرت پیر پیراں موسیٰ پاک شہیدؒ پر حاضری دیتے دیکھا۔ وہ جمعرات کو بڑی ہمشیرہ کے پاس جاتے اور رات کا کھانا خاندان کے افراد کے ساتھ مل کر کھاتے، یہیں پر خاندان کے اکثر معاملات اور مسائل پر گفتگو ہوتی۔ یہ سلسلہ خاندان میں اتفاق قائم رکھنے کا موجب تھا۔والد کو لاہور بہت پسند تھا۔ وہ جب بھی لاہور جاتے تو داتا دربار حاضری ضرور دیتے تھے۔ کبھی کبھار دربار میاں میرؒ پر بھی حاضری کے لئے جاتے تھے،کئی مرتبہ میں بھی ان کے ہمراہ گیا۔والد ہمیشہ تین رمضان المبارک کو اپنے ہاتھ سے کھانا تیار کرتے اور کہتے کہ یہ بی بی فاطمہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کی ولادت کا دن ہے۔ اُس دن اپنے دوستوں کو مدعو کرتے اور اُن کی خوب تواضع کرتے تھے۔ زندگی بھر انہوں نے اس روایت کو نہایت محبت و شوق سے نبھایا۔ اتفاق ہے کہ وہ اسی دن یعنی تین رمضان المبارک مورخہ 9؍ اگست 1978ء کو نشتر اسپتال، ملتان میں انتقال کر گئے۔ اِنّا لِلّٰہِ و اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون۔والد باقاعدگی سے ڈائری لکھا کرتے تھے۔ اپنی وفات سے ایک روز قبل انہوں نے ڈائری میں یہ شعر لکھا:
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہلِ وطن
یہ الگ بات ہے دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
آج ان کو ہم سے بچھڑے چار عشروں سے زیادہ ہو گئے لیکن مجھے یوں لگتا ہے جیسے اُن کی دعاؤں کا حصار میرے اردگرد ہے۔ کاش ان کی اور قوم کی دعائیں رنگ لائیں اور میرا علی حیدر گیلانی بخیریت واپس آجائے اور میرا گھر پھر سے سکون کا گہوارہ بن جائے۔
تازہ ترین