کچھ دن قبل سرگنگا رام ہسپتال کے گیٹ کے سامنے سڑک کی دوسری جانب مَیں رات کے 12:00 بجے فٹ پاتھ پر چلتا جارہا تھا کہ اچانک 2 آوارہ کتوں نے مجھ پر حملہ کر دیا۔ ان سے بچنے کی کوشش میں انجانے میں میرا پاؤں اونچے فٹ پاتھ سے نیچے سڑک پر ایسا پڑا اور میں اس طرح نیچے گرا کہ میرا سارا وزن بائیں ہاتھ پر آگیا۔ اور چونکہ سڑک بھی ناہموار تھی اس لیے سڑک پر ہتھیلی لگنے کی بجائے بائیں ہاتھ کی بائیں سائیڈ لگی جو زخمی ہوگئی اور کلائی کے جوڑ کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی ۔ اب میرا سارا بازو کُہنی سمیتڈیڑھ ماہ کے لیے پلاسٹر (PoP)میں ہے۔ میں نے اس حادثے کو پیشہ ورانہ کاموں میں تو ذرہ برابر رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ تاہم نجی کام اتنے ہی دشوار ہوگئے ہیں جتنے آسمان سے تارے توڑ لانا! اگر گنگارام ہسپتال جیسی مرکزی جگہ کے سامنے اور کشادہ سڑک پر ایسا ہو سکتا ہے تو پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ لاہور کی تنگ گلیوں والے علاقوں میں کیا ہو رہا ہے۔ اگر لاہور کے آوارہ کتے ایک جوان ،صحت مند مرد کے ساتھ یہ کر سکتے ہیں تو ہمیں سمجھ آگئی ہے کہ لاہور میں بسنے والے بچے، بزرگ اور خواتین کس حال میں ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ جب بھی ضلعی انتظامیہ لاہور ، آوارہ کتوں کا مسئلہ حل کرنے لگتی ہے تو کوئی محترمہ جنہوں نے کوئی NGO بنارکھی ہے وہ عدالتوں میں جا پہنچتی ہیں ۔ اور ہمارے جج صاحبان جو شوفر ڈرِوَن گاڑیوں میں سفر کرنے کے عادی ہونے کی وجہ سے زمینی حقائق سے نابلد ہیں ، Stayدے دیتے ہیں ۔ تاہم میں اپنے وکلاء سے مشاورت کر رہا ہوں کہ کتوں کا مجھے ہراساں کرنا اور حملے کے نتیجے میں ٹُوٹے بازو کا مقدمہ مقامی حکومت (مقامی انتظامیہ ) ،صوبائی حکومت یااین جی او والی محترمہ کیخلاف کروں!
ہم پاکستانیوں کے پاس کچھ پیسے آجائیں اور معاشرے میں کچھ مقام بن جائے تو غلامی ختم ہوئے 78 سال ہو جانے کے باوجود لندن کی یاترا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور واپس آ کر وہاں کی تعریفیں کرنا واجب جانتے ہیں۔ مگر اس پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ لاہور ، لندن جیسا کیوں نہیں بن پایا۔ بنیادی فرق لندن کی سہولتیں ، انفراسٹرکچر اور اس کے بعد ملکی معیشت ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ لندن میں طویل قیام کے دوران مجھے گھر اور دفتر سے باہر ہوتے ہوئے اگر کبھی واش روم جانے کی ضرورت محسوس ہوتی تو پریشانی نہیں ہوتی تھی ۔وہاں سڑک سے ذرا ہٹ کر پبلک جگہوں پر پبلک ٹوائلٹس بنے ہوتے ہیں۔ صرف 10پینس کا سکہ ڈالیے اور ایک مہذب انسان کی طرح فارغ ہو جائیے۔ لاہور میں مسجد شہداء کے پچھواڑے ،باغ جناح ،ریس کورس پارک اورعلامہ اقبال پارک کے اندر پبلک ٹوائلٹس ہونے کے علاوہ اور کہاں پر ہیں؟ مثلاً ہال روڈ پر اَن گنت دکانیں ، اَن گنت دکاندار اور اَن گنت گاہک ہوتے ہیں اگر انہیں ضرورت محسوس ہو تو کہاں جائیں؟ ۔ جنرل مشرف کے زمانے میں مقامی حکومتوں کا بہت شور و غوغا ہوا ۔ مگر اس زمانے میں بھی یہ مسئلہ جوں کا توں رہا۔ اُس زمانے کا ایک پراجیکٹ بھی ایسا نہیںجس کی طرف اب اشارہ کیا جاسکے۔ وجہ یہ ہے کہ جنرل مشرف کے زمانے میں عوام کو سہولتیں دینا تو مقصد تھا ہی نہیں ۔صرف اقتدار کے مزے لوٹنا مقصد تھا ۔ مثلاً شالیمار باغ اور دروغہ والا سے آگے (جی ٹی روڈ پر) سلامت پورہ اسٹاپ سے احمد ٹاؤن اور شریف پورہ تک تقریباً 2 کلومیٹر مشرف کے زمانے میں نئی مقامی سڑک بنائی گئی جو صرف اور صرف ایک سال قائم رہی۔ اب اس جگہ سڑک کی پختگی کا تو نام و نشان نہیں اور زمین میں فُٹ فُٹ گہرے گڑھے ہیں۔
کیا اُبلتے گٹر اور بجھی خراب اسٹریٹ لائٹس حکومتی توجہ کی حقدار نہیں ؟ جب مریم نواز شریف چیف منسٹر پنجاب بنیں تو ابتدائی ایام میں لاہور کے مختلف چوکوںمیں پبلک وائی فائی لگائےگئے ۔ جو دو ڈھائی ماہ بعد خراب ہو کر آج تک بند ہیں۔ بیوروکریسی نے اس خرابی کی طرف توجہ دی ہی نہیں ۔کیونکہ بیوروکریسی نئے میگا پراجیکٹس لگواتی تو ہے ہی بڑے کک بیکس کے لیے ۔عوام کا فائدہ اُن کے مدنظر نہیں ہوتا۔ اسی لیے مرمت نہیں کرواتے۔
دُھواں چھوڑتی گاڑیاں ، روڈ ایکسیڈنٹس اور بے وجہ ہارن بجاتی گاڑیوں سے Noise Pollution : یہ لاہور ہے۔ مگر صبح 8 بجے آپ لندن میں داخل ہوتے ہوئے موٹر وے پر کھڑے ہو جائیں ۔ اپنے اپنے دفاتر جاتے لوگوں کی کاروں کی 10کلومیٹر طویل قطار ہوگی جو آرام سے اپنی باری پر گزرتی جائیں گی۔کوئی ایک کار بھی ہارن نہیں بجائے گی۔ جبکہ ہمارے ہاں صرف 3کاریں اکٹھی ہو جائیں تو ہارن بجانے کا شوق دل کھول کر پورا کیا جاتا ہے ۔ٹریفک کے جتنے بھی مسائل ہیںوہ اس لیے ہیں کہ ڈرائیونگ لائسنس ، ڈرائیونگ ٹیسٹ پاس کرنے پر نہیں بلکہ رشوت لے کر دیا جاتا ہے۔ اس لیے ہر لائسنس ہولڈر ٹریفک کے قوانین اور ڈرائیونگ کے حوالے سے غیر تربیت یافتہ ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ تمام چھوٹی سڑکوں کے فٹ پاتھوں پر دکانداروں کا ناجائز قبضہ شہریوں کی زندگیاں اجیرن کیے ہوئے ہے۔ پھر سڑک کے دونوں اطراف آدھی آدھی سڑک دکانداروں نے کار پارکنگ کے طور پر استعمال کی ہوتی ہے۔ درمیان میں گزرنے کا راستہ ہی نہیں بچتا۔
گیس چند گھنٹے صبح اور چند گھنٹے شام کو آتی ہے ۔ جبکہ LESCO کے افسرہر جگہ جا کر غلط بیانی کرتے ہیں کہ لاہور میں بجلی کی لوڈشیڈنگ زیرو ہے۔ سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں اساتذہ جان بوجھ کر نہیں پڑھاتے تاکہ طلباء ان کی پرائیویٹ اکیڈمیوں میں پڑھنے پر مجبور ہو جائیں۔ مثلاً GC کے علاوہ کسی ایک سرکاری تعلیمی ادارے کا بتا دیں جہاں یہ حال نہیں!! ہمارے سامنے تھوڑے عرصے میں لاہور کی آبادی دُگنی ہوگئی ہے۔ اس کا حل لاہور سے باہر ہے۔ بڑے شہر میں لوگ تین چیزوں کے لیے آتے ہیں ۔ تعلیم ، جاب اور میڈیکل کی سہولتیں ۔ یہ تینوں چیزیں دیہات اور چھوٹے شہروں میں مہیا کریں تاکہ وہاں سے آبادی کی امیگریشن بند ہو۔ وگرنہ ہر 10سال بعد لاہور کی تمام سڑکوں کو وسیع کرنا پڑے گا۔
پچھلے چند سال سے لاہور پولیس انتہائی بدتمیز ہو چکی ہے ۔ 2024 ء میں مَیں اپنا فون کان سے لگائے شام 9 بجے کی خبریں سنتے ہوئے فٹ پاتھ پر چلتا جارہاتھا کہ موٹرسائیکل پر سوار ایک بد تمیز ASI اور سپاہی میرے پاس آ کر رُکے اور بولے ’’اوئے ! یہ کیا کر رہے ہو ؟ ‘‘ ۔ اعتراض خبریں سننے پر تھا یا کہ فٹ پاتھ پر چلنے پر ؟
جو کچھ ہنڈیا کے ڈھکنے کے قریب تھا اسے میں نے Show کر دیا ہے ۔اب آپ ڈھکن اُٹھا کر خود دیکھ لیں کہ’’لاہور کے مسائل کی ہنڈیا‘‘ میں کتنے مسائل پک رہے ہیں۔