خطے کی سیاست اس وقت ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں ہر قوت اپنی بساط بچھا کر اگلی چال سوچ رہی ہے۔ جنوبی ایشیا میں ہونیوالی سیاسی سرگرمیاں اور خطے کی بڑی طاقت بھارت کی عالمی طاقتوں کے ساتھ بنتی بگڑتی قربتیں نہ صرف بھارتی عوام بلکہ پورے خطے کے مستقبل پر براہِ راست اثر ڈال رہی ہیں۔ بِہار کے انتخابات ہوں یا واشنگٹن کے ساتھ دائوپیچ افغانستان کے معاملات ہوں یا مقبوضہ کشمیر میں غیر یقینی صورتحال ،بھارت کے سیاسی منظرنامے میں ہر قدم کے پیچھے مکاری اور شرارت کارفرما ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ اس حکمتِ عملی کا اصل فائدہ کس کو مل رہا ہے، اور اسکے نتائج کس نے بھگتنے ہیں؟ بھارت کی ریاست بہار میں حالیہ انتخابات کے نتائج نے ایک بار پھر نریندر مودی اور انکی جماعت کی حکمتِ عملی اور فریب کو واضح کیا ہے اور اب بھارت کا سیاسی میدان مکمل طور پر ایک نئے ماڈل کے تحت چل رہا ہے۔یہ محض ایک انتخابی کامیابی نہیں بلکہ ایک منظم، طویل المدتی اور ذہانت سے ترتیب دی گئی چال تھی، جس کا مقصد نہ صرف اکثریت حاصل کرنا تھا بلکہ داخلی و خارجی سطح پر اپنے بیانیے کو پختہ بنانا بھی تھا۔ مودی نے اس مہم میں مذہبی ،سماجی جذبات اور معاشی ترغیبات کو منظم طریقے سے استعمال کیااور اقلیتوں کے بارے میں غیر محسوس مگر مسلسل دباؤ نے انتخابی فضا کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔بہار میں پولنگ سے پہلے خواتین کیلئے دس ہزار روپے فی کس کے حساب سے 75 بلین روپے کی براہِ راست مالی امداد اس حکمتِ عملی کا حصہ تھی، جس نے نچلے اور غریب طبقے کو بی جے پی اور این ڈی اے الائنس کے حق میں متحرک کیا۔ ساتھ ہی ’’ گھس بیٹھیوں‘‘ جیسے زہریلے بیانات، مسلمانوں کے سیاسی کردار کے بارے میں منفی تاثر پھیلانا اور انہیں دہشت گردی کا مرتکب ٹھہرانا ایک مربوط منصوبہ بندی کا حصہ تھا۔ یہ تمام عوامل مل کر وہ فضا بناتے ہیں جس میں بہار جیسےصوبے میں جہاں مسلمان اٹھارہ فیصد ہیں ، انکی اسمبلی میں نمائندگی محض چار فیصد رہ گئی ہے اور وہ سیاسی طور پر بہت پیچھے رہ گئے ہیں ۔یہ منظرنامہ صرف ایک ریاستی انتخاب کا معاملہ نہیں رہتا، بلکہ یہ اس بڑے سیاسی فریم ورک کی جھلک دکھاتا ہے جسکے تحت بھارت اپنے داخلی ڈی این اے کو بتدریج تبدیل کر رہا ہے۔ کشمیر سے لے کر دہلی تک ہونے والےخود ساختہ واقعات، دہشت گردی کے بیانیے کا انتخابی استعمال اور اقلیتوں کے خوف کو سیاسی مقاصد کیلئے ابھارنا، یہ سب ایک ایسی فضا بناتے ہیں جس میں بھارت اپنی نظریاتی سمت کو مزید سخت گیر بنا رہا ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کیلئے خارجہ پالیسی کے تناظر میں نئے چیلنج پیدا کرتی ہے، کیونکہ ایک سخت گیر ہندو قوم پرست بھارت ہمیشہ ایک جارحانہ علاقائی سیاست کو ترجیح دیتا ہے۔مودی حکومت کی حکمتِ عملی واضح ہے، ایک طرف امریکہ کے ساتھ اقتصادی ، دفاعی، ٹیکنالوجی اور سفارتی تعاون کو مضبوط کیا جا رہا ہے، اربوں ڈالر کے تیجس جنگی جہازوں کے انجن ، گولہ بارود اور ٹینک شکن میزائل خریدے جا رہے ہیں ، ملکی ضروریات کیلئے ایل پی جی گیس لی جا رہی ہے اور دوسری طرف روس سے تیل کیساتھ مزید S-400 بیٹریاں لی جا رہی ہیں اور جدید ففتھ جنریشن اسٹیلتھ ہوائی جہاز حاصل کرنے کیلئے بات چیت ہو رہی ہے ۔ بھارت ایک طرف کولمبو سیکورٹی کینکلیو اور دوسری طرف افغانستان اور وسطی ایشیا کے تناظر میں اپنا اثر بڑھانا چاہتا ہے۔ افغانستان میں 2011 کے اسٹرٹیجک شراکت داری معاہدے سے لے کر انفراسٹرکچر منصوبوں میں براہِ راست سرمایہ کاری تک اور اب طالبان حکومت کیساتھ نئے روابط اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ بھارت سرکار پاک افغان سرحد کو غیر محفوظ کر کے کشمیر اور ایسٹرن بارڈر پر پاکستان کے دباؤ کو کم کرنا چاہتی ہے ۔ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی مودی سرکار کی خواہش ، افغانستان کی معدنی دولت ، توانائی کے ذخائر ، وسطی ایشیا تک رسائی اور خطے کے تجارتی راستوں پر اثرو رسوخ ، وہ محرکات ہیں جو مودی سرکار کی دفاعی اور خارجہ پالیسی کو نئی سمت دیتے ہیں ۔ بھارت نے واضح پیغام دیا ہے کہ دنیا کی دوسری بڑی طاقتوں کی طرح وہ بھی اس خطے میں اپنا رول چاہتا ہے ۔ عالمی بساط پر بھارت کی کوشش ہے کہ وہ واشنگٹن میں اپنا اثر بڑھا کر چین کے اثر کو کمزور اور تجارتی والیم کو کم کرے، مگر اس کے ساتھ ساتھ روس اور وسطی ایشیا کے ساتھ بھی ایک متوازی راستہ کھلا رکھے تاکہ بھارت کی مجموعی سفارتی پوزیشن کسی ایک بلاک پر انحصار نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کیساتھ تعلقات میں اتار چڑھاؤ کے باوجود وہاں بھارت نواز لابی مضبوط رہی، اور اب ٹیرف کم کرنے اور قریبی اقتصادی و سیکورٹی معاملات استوار کرنے کی بات ہو رہی ہے ، دوسری طرف بھارت نے ماسکو اور تہران جیسے دارالحکومتوں میں بھی اپنی سفارتی موجودگی برقرار رکھی، جبکہ چین کیساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت دوستی اور تجارتی روابط بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے ۔اس تمام منظرنامے میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ پاکستان کیلئے فوری چیلنج یہ ہے کہ افغانستان میں بھارتی اثرورسوخ اسکی روایتی پوزیشن کیلئے خطرہ بن سکتا ہے۔ اگر بھارت افغانستان میں اپنی موجودگی کو مزید مضبوط کر لیتا ہے تو اس کے اثرات پاکستان کی سرحدی سلامتی، تجارتی راستوں اور علاقائی کردار پر براہِ راست پڑیں گے۔ پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی سیکورٹی پر کمپرومائز کیے بغیر افغانستان کیساتھ تعلقات کو دوبارہ استوار کرے ، اور طالبان حکومت کو باور کروائے کہ علاقے میں امن اور خوشحالی کیلئے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے ۔ ہمسایہ مسلم ممالک کیساتھ برادرانہ تعلقات اور اندرونی استحکام ریاست پاکستان کے شمالی فرنٹ کی سلامتی کیلئے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ خطے میں امن کے بعد پاکستان کو ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی راستے کھولنے ہوں گے، جس سے ان تمام ملکوں میں خوشحالی آ سکے گی ۔ بھارت اگر دنیا کی اقتصادی طاقت بننا اور اپنے ملک کے کروڑوں غریبوں کی زندگی میں بہتری چاہتا ہے، تو اسے انتہا پسندی اور غلبے کی خواہش پر قابو پانا ہو گا ۔ پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے وسائل ، سفارتی نیٹ ورک، تشہیر، میڈیا انگیج منٹ اور علاقائی و بین الاقوامی تعاون کو مؤثر انداز میں استعمال کرے۔ ہماری داخلی سیاست، معاشی ترغیبات، مذہبی و سماجی پولرائزیشن اور خارجی اسٹرٹیجک ایجنڈا ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ وہ صرف ردعمل کی سیاست نہ کرے بلکہ اپنے مفادات کے مطابق ایک فعال حکمتِ عملی اپنائے۔ سیاسی استحکام، اقتصادی بحالی، ادارہ جاتی اصلاحات اور موثر سفارت کاری وہ بنیادی عناصر ہیں جو پاکستان کو اس خطے اور دنیا میں ایک مضبوط اور باوقار کردار دے سکتے ہیں۔ اگر پاکستان نے بروقت، حقیقت پسند اور طویل المدتی حکمتِ عملی اختیار کی تو نہ صرف علاقے میں بلکہ عالمی سطح پر ایک مضبوط، آزاد اور خود مختار ملک کے طور پر اپنی شناخت کروا سکے گا۔( صاحبِ مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)