• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایفل ٹاور پوری دنیا میں فرانس کی پہچان ہے لیکن ایفل ٹاور کے بالکل سامنے ملٹری اسکول پیرس واقع ہے ۔ یہ اسکول ایفل ٹاور سے زیادہ پرانا ہے ۔ آجکل یہ ملٹری اسکول انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانس اسٹڈیز ان نیشنل ڈیفنس کہلاتا ہے ۔ یہ دراصل فرانس کا جی ایچ کیو ہے جس نے نپولین بونا پارٹ جیسا عظیم جرنیل پیدا کیا ۔ نپولین نے 1785 ء میں اس ملٹری اسکول سے تربیت حاصل کی اور جب وہ فرانس کا حکمران بنا تو اُس نے اپنا ہیڈ کوارٹر اسی ملٹری اسکول میں قائم کر لیا ۔ اس ملٹری اسکول کی دوسری منزل پر اسکا دفتر تھا جہاں سے ایفل ٹاور نظر آتا ہے ۔ 21 نومبر 2025 کو نپولین کے دفتر میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں انٹرنیشنل سیشن فار دی انڈو پیسفک کے مندوبین کو ملٹری اسکول کی طرف سے خصوصی اسناد جاری کی گئیں ۔ ان اسناد کو فرنچ زبان میں ڈپلومہ کہا جاتا ہے اور ڈپلومہ حاصل کرنیوالوں میں یہ بندہ ناچیز بھی شامل تھا ۔ یہ کالم پڑھنے والے سوچیںگے کہ فرانس کے ایک ملٹری اسکول سے کسی صحافی کو ڈپلومہ کیسے جاری کیا جا سکتا ہے ؟ سوال بالکل جائز ہے لیکن جواب دینے سےپہلے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اس ملٹری اسکول میں صرف فوجی افسران کی نہیں بلکہ سویلین ایگزیکٹوز کی بھی تربیت ہوتی ہے ۔ اس وسیع و عریض ملٹری اسکول میں پچاس سے زائد ادارے قائم ہیںجن میں کچھ تھنک ٹینکس بھی ہیں ۔ انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانس اسٹڈیزان نیشنل ڈیفنس نے کچھ تھنک ٹینکس کے تعاون سے بحر ہند کےممالک کو درپیش بڑے چیلنجز کے بارے میں ایک چار روزہ کانفرنس کا اہتمام کیا تھا جس میں 32 ممالک کے 55 مندوبین شامل تھے ۔ مندوبین کی اکثریت کا تعلق بحری ، بری اور فضائی افواج سے تھا تاہم کچھ انٹیلی جینس ایجنسیز کے افسران ، دفاعی ماہرین اور تین صحافی بھی کانفرنس میں مدعو تھے ۔ نپولین بونا پارٹ کے دفتر میں اسناد جاری کرنے کی تقریب ختم ہونے کے بعد الوداعی ظہرانے کا اہتمام کیا گیاتھا ۔ نپولین کے اس دفتر میں ابھی تک اُسکی میز اور کرسی اصلی حالت میں موجود ہے ۔ دفتر کی دیواروں پر اُسکی تصاویر اور وہ اسناد آویزاں ہیں جو اسی ملٹری اسکول سے جاری کی گئیں ۔ مندوبین نپولین کی میز اور کرسی کیساتھ کھڑے ہو کر تصاویر بنوا رہے تھے ۔ فرنچ آرمی کے ایک باوردی افسر نے مجھے بتایا کہ دوسری جنگ عظیم میں جرمن فوج نے اس اسکول پر قبضہ کر لیا تھا لیکن نپولین کے دفتر کو زیادہ نقصان نہیں پہنچایا تاہم دفتر کی دیوار پر گولی کا ایک نشان موجود تھا جسے مٹایا نہیں گیا ۔ گولی کا یہ نشان ملٹری اسکول کی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے ۔اس اسکول کی لائبریری میں اہم موضوعات پر ہزاروں کتابیں موجود ہیں۔مجھے بتایا گیا کہ لائبریری میں تاریخ اسلام اور سیرت النبیﷺ سمیت تمام مذاہب کے بارے میں کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے اور اس ذخیرے کو اکٹھا کرنے کا کام بھی نپولین نے شروع کیا تھا جو مذاہب کے تقابل میں بڑی دلچسپی رکھتا تھا۔نپولین نے 1812 ء میں ماسکو پر قبضہ کر لیا تھا لیکن روسی فوج نے شہر سے بھاگتے ہوئے ماسکو کو جلا کر راکھ کر دیا تا کہ نپولین کو شہر کے وسائل سے فائدہ حاصل کرنے کا موقع نہ ملے ۔ شدید سردی اور برفباری نے نپولین کی فوج کو چند ہفتوں کے بعد ماسکو سے بھاگنے پر مجبور کر دیا ۔ دو سال کے بعد روسی فوج نے آسٹریا اور جرمنی کی مدد سے پیرس پر قبضہ کر لیا تھا اور یوں نپولین کا زوال شروع ہوا لیکن وہ آج بھی فرانس کا ہیرو ہے ۔ فرانس آج بھی روس کو صرف اپنے لئے نہیں بلکہ یورپ کیلئے ایک خطرہ سمجھتا ہے اور اس سال 13 نومبر کو فرانس نے فضا سے سمندر میں ایک نیوکلیئر میزائل کا کامیاب تجربہ کرکے روس کو پیغام دیا ہےکہ اگر اُس نے یوکرائن کے بعد کسی اور پورپی ملک کیخلاف جارحیت کی تو اسے سخت جواب دیا جائیگا۔ فرانس یورپ کا واحد ملک ہے جو بحر ہند کےممالک کا حصہ ہے ۔ بحر ہند کے کچھ جزائر آج بھی فرانس کا حصہ ہیں اور وہاں آٹھ ہزار فرنچ فوجی تعینات ہیں ۔ بحر ہندکے ممالک جنوبی افریقہ سے شروع ہوتے ہیں ان میں کینیا، صومالیہ، سوڈان، مصر ، عراق ، ایران ، پاکستان، بھارت ،سری لنکا، مالدیپ ، بنگلہ دیش ، تھائی لینڈ ، ملائشیا، انڈونیشیا ، سنگا پور ، ویت نام، جاپان، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ سمیت دیگر ممالک شامل ہیں ۔ روس اور چین بھی بحرہند میں متحرک ہیں لیکن ان دونوں کو انڈو پیسفک کانفرنس میں مدعو نہیں کیا گیا تھا ۔ اس کا نفرنس میں میری ٹائم سکیورٹی ، موسمیاتی تبدیلیوں ، دہشت گردی اور ڈس انفارمیشن جیسے موضوعات زیر بحث رہے ۔ یہ کانفرنس کوئی پبلک فورم نہیں تھا اور کمرہ بند کانفرنس میں کچھ ممالک کے خفیہ اداروں کے ذمہ داران بھی بطور مندوب شرکت کر رہے تھے اس لئے کانفرنس کی تمام کارروائی آف دی ریکارڈ تھی ۔میں اس کانفرنس میں مختلف مندوبین کی طرف سے کہی گئی اہم باتوں کا ذکر نہیں کر سکتا ۔ میں تو صرف کانفرنس میں زیر بحث آنیوالے موضوعات کی اہمیت کو واضح کر رہا ہوں اور نپولین کے اسکول کی تاریخ بیان کر رہا ہوں۔ اس پوری کانفرنس میں صرف ایک معاملہ ایسا تھا جسے میڈیا میںآن دی ریکارڈ لانے کی مجھے اجازت ملی ۔ جب ہم پیرس سے ٹرین کے ذریعہ شمال مغربی فرانس میں لینڈو ویزو نیول ائر بیس پر پہنچے تو یہاں ہمیں رافیل جنگی جہازوں کے ایک ماہرپائلٹ کیپٹن لونائے نے بریفنگ دی ۔ کیپٹن لونائے لینڈو ویزو کے بیس کمانڈر بھی ہیں ۔ وہ ہمیں اپنے بیس پر موجود افرادی قوت اور اسکی اہمیت بتا رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ سمندر کے کنارے واقع اس بیس پر 94 بحری جنگی جہاز ہیں جن پر 9800 فوجی ہیں ، دس نیو کلیئر سب میرینز میں 3200 فوجی ہیں اور 190 فضائی جنگی جہازوں کیلئے 4100 افراد تعینات ہیں۔ پھر انہوں نے بتایا 190 جنگی جہازوں میں 40 رافیل شامل ہیں اور انہی میں سے ایک رافیل سے 13 نومبر کو نیوکلیئر میزائل فائر کیا گیا جس کیساتھ وار ہیڈ نہیں تھا۔ لیکن فرنچ فورسز کا تجربہ کامیاب رہا ۔ پھر انہوں نے بتایا کہ فرنچ نیوی دنیا کی واحد نیوی ہے جو سمندر میں ائر کرافٹ کیرئر سے نیو کلیئر میزائل فائر کر سکتی ہے اور ائر کرافٹ کیرئر پر لینڈ کرنے والے رافیل جہاز عام رافیل جہازوں سے ذرا مختلف ہوتے ہیں ۔ انکے بقول اب بھارت یہ والے رافیل بھی خریدنے میں دلچسپی ظاہر کر رہا ہے ۔ یہ وہ موقع تھا جب میں نے کیپٹن لونائے سےپوچھا کہ مئی 2025 ء کی پاک بھارت جنگ میں رافیل جہازوں کا راڈار سسٹم کیسے جام ہو گیا اور تاریخ میں پہلی دفعہ پاکستان کے ہاتھوں رافیل کیسے تباہ ہو گئے ؟ کیپٹن لونائے نے جواب دیا کہ رافیل کے تباہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان ائر فورس کی تیاری بہت بہترتھی ۔ جب ایک ہی وقت میں دونوں اطراف سے 140 جنگی جہاز فضا میں بلند ہوئے تو کسی بھی جہاز کو نشانہ بنانا آسان تھا اس مشکل صورتحال میں پاکستان ائر فورس نے زیادہ مستعدی اور قابلیت دکھائی۔ انکا خیال تھا کہ رافیل کو گرائے جانے میں ٹیکنالوجی کا کوئی قصور نہیں تھا رافیل کی ٹیکنالوجی آج بھی چین کے جے ٹین سی سمیت دنیا کے کسی بھی فائٹر جیٹ پر غالب آ سکتی ہے لیکن فائٹر جیٹ کو چلانے والا بھی تو مستعد اور قابل ہونا چاہئے۔ یہ ریمارکس وہاں موجود ایک بھارتی مندوب کو بڑے ناگوار گزرے ۔ بھارتی مندوب نے بوکھلائے ہوئے لہجے میں دعوی کیا کہ بھارت کا کوئی رافیل تباہ نہیں ہوا یہ سب چین کی ڈس انفارمشن تھی ۔ کیپٹن لونائےنے اس بوکھلاہٹ کو نظر انداز کر دیااور پاکستان ائر فورس کی تعریف جاری رکھی ۔ جب اُنکا سیشن ختم ہوا تو میں نے اُن سےدرخواست کی کہ کیا میں آپکی گفتگو کو رپورٹ کر سکتا ہوں ؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے اجازت طلب کرنے پر پہلے شکریہ ادا کیا اور پھر مجھے اجازت دیدی ۔ میں نے پوچھا کیا میں آپکی تصویر لے سکتا ہوں ؟ انہوں نے تصویر لینے کی بھی اجازت دیدی ۔ نپولین کے دیس کا یہ افسر واقعی بہت بہادر تھا جسے سچائی سامنے لانے پر کوئی خوف نہ تھا ۔ ذرا سوچیے ! اس کانفرنس کی باقی آف دی ریکارڈ کارروائی کتنی اہم ہوگی ؟۔

تازہ ترین