• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گھر میں سب چھوٹے بڑے اُنکو ’’ابو‘ کہہ کر بلاتے تھے۔ دُنیا اُنہیں عرفان صدیقی کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ ریشم جیسی ملائم طبیعت، گھنی چھاؤں جیسی شفقت اور محبت، دینی اور خاندانی روایات میں گندھی شرافت، پہاڑوں سے بلند اعلیٰ ظرفی اور جھیل کے پانیوں جیسا ٹھہراؤ، اُنکی شخصیت کا خاصہ تھا۔ چہرے پر ہر وقت ایک ایسی مسکراہٹ اور سکون کہ جس سے سارا گھر روشن، تروتازہ، کھِلا کھِلا اور مہکتا رہتا تھا۔ وہ صرف ہمارے ہی نہیں، اپنے بہن بھائیوں اور دیگر عزیز رشتہ داروں، سب کیلئے ایک ’’مرکز‘‘ تھے۔ 10 نومبر کی رات یہ مرکز بکھر گیا اور ہمارے ابو وہاں چلے گئے جہاں ایک دِن سب کو جانا ہے۔ سوچ رہا ہوں اُنکی کہانی کہاں سے شروع اور کہاں پر ختم کروں۔ ایسی کہانیاں شاید شروع تو ہوتی ہیں مگر ختم نہیں ہوتیں۔ نہ ایسے عہد ختم ہوتے ہیں جنکی روشنی سے آنیوالے زمانے بھی چمکتے رھیں اور نہ ایسے شخص ختم ہوتے ہیں۔ بقول احمد ندیم قاسمی

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاؤں گا

میں تو دریا ہوں، سمندر میں اتر جاؤں گا

اُنکی شخصیت کو الفاظ کے دامن میں سمیٹنا ممکن نہیں۔ تخلیقی صلاحیتوں اور قلم کی طاقت کا احاطہ کرنے کیلئے آج کوئی دوسرا قلم موجود نہیں۔ وفات سے ایک دِن قبل میں اُنکے سرہانے کھڑا اُنکا داہنا ہاتھ پکڑے سوچ رہا تھا کہ اِس ہاتھ سے کیسی کیسی شاہکار تحریریں رقم ہوئیں اور کِس طرح اِن تحریروں نے ایک جہاں کی ذہن سازی کی۔ انہوں نے جس حوالے سے جو بھی لکھا، وہی اَمر ہوا۔ ۔ یہ اُنکے فنِ تحریر کی معراج تھی کہ انہوں نے اپنا ایک اچھوتا، جداگانہ اسلوب متعارف کروایا، اُسکو منوایا اور پھر یہ معیار ہمیشہ کیلئے قائم رَکھا۔ ریڈیو ڈرامے لکھے تو صفِّ اوّل کے ڈرامہ نگاروں میں شمار ہوئے۔ کالم نگاری میں قدم رَکھا تو وہاں اپنا لوہا منوایا۔ سفرِ حجاز پر قلم اٹھایا تو پڑھنے والے کی اُنگلی تھام کر مکّہ مدینہ ہی میں چھوڑ آئے۔ ہماری تربیت انہوں نے کچھ اس طرح کی کہ مارپیٹ تو دور کی بات، کبھی اونچی آواز میں ڈانٹا تک نہیں۔ ہمیشہ ہمیں محنت، دیانت، شرافت اور شائستگی سے جینا سکھایا۔ انکی شخصیت سےہمیں اٹھنے بیٹھنے کا سلیقہ، بولنےکا قرینہ اور زندگی گزارنے ڈھنگ ملا۔ بچپن غربت میں گزرا۔ کم وسائل کے باعث مڈل تک ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کی اور پھر محنت اور لگن کا نہ رکنے والا ایسا سفر شروع ہوا جو انکی زندگی کے آخری ایام تک جاری رہا، اپنا آخری کالم انہوں نے اپنی وفات سے چند دِن قبل ICU کے بستر پر بیٹھے اپنے ہاتھوں سے لکھا اور ارشد ملک صاحب سے اس کی نوک پلک درست کرنے کیلئے فون پر بات بھی کی، بچپن سے محنت اور تگ ودَو نے اُن میں اپنا ہر کام خود کرنیکی عادت ڈال دی تھی۔ وہ اپنے کپڑے تک خود ’’پریس‘‘ کرتے اور اپنے جوتے بھی خود چمکاتے، انکا یہ عمل جب تک وہ فعال رہے، جاری رہا۔ جدوجہد سے بھری یہ ز ندگی آخر تک کسی پر منحصر نہی رہی۔ ابو ہی کا ایک شعر ہے۔

یہ میرےخدائے کریم ہی کا کرم ہے عرفاں کہ عمر بھر

نہ کسی کا دستِ نگرہوا نہ کسی پہ بارِ گراں رہا

ایک دنیا اُن کے کالم اور تحریروں کی مداح ہے۔ اِن تحریروں میں ادب کی چاشنی بھی تھی، شائستگی اور نرمی میں پروئے ہوئے الفاظ کے ساتھ دلائل کی وہ قوت تھی کہ دوسرے کو پاش پاش کر دے۔ اعلیٰ معیار کی یہ تحریریں اور کالم پڑھ کر تو لگتا ہے کہ جیسے یہ کسی الگ تھلگ جگہ بیٹھ کر لکھا گیا ہوگا، جہاں سکون ہوگا، مگر ایسا ہرگز نہ تھا۔ چاہے کالم ہو یا کوئی بھی تحریر، وہ اپنے بستر پر نیم دراز ہوکر اِس حالت میں لکھتے تھے کہ آس پاس ہم سب کا آنا جانا بھی لگا ہے، ہم باتیں بھی کر رہے ہیں، ٹی۔وی بھی لگاہے، بچے شور بھی کررہے ہیں اور ابو خود بھی بات چیت میں حصہ لے رہے ہیں۔ مگر تعجب ہے کہ تحریر کے معیار، الفاظ کے چناؤ اوران کے بہاؤ پر اس ماحول کا ذرا سا بھی اثر نہیں ہوتا تھا۔ یہ اُن کی خداد داد صلاحیتوں کی ایک جھلک ہے۔عملی سیاست میں پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے انہوں نے اپناکردار بڑی حق گوئی اور اخلاص کے ساتھ نبھایا۔ سیاست سے انہوں نے اپنے یا اپنے خاندان کیلئے نہ تو کچھ لیا نہ کبھی مانگا مگر اپنے عمل سے سیاست کو بہت کچھ دے گئے۔ ایوان میں اُن کے آنے سے برداشت، رواداری، کشادہ دِلی اور رَکھ رکھاؤ کے ایک باب کا اضافہ ہوا۔ سیاست سے ہٹ کر میاں محمد نوازشریف صاحب سے اُنکا ایک ذاتی عزت،احترام اور محبت کا رشتہ تھا۔ بیماری کے دوران میاں نوازشریف اُنکی عیادت کرنے ہسپتال تشریف لائے۔ انہوں نے میاں صاحب کے نام ایک خط تحریر کرنے کا فیصلہ کیا۔ پوچھنے پرکہنے لگے کہ میاں نوازشریف اپنی خرابیِ صحت کے باوجود مجھے ملنے ہسپتال آئے تو میں تحریری طور پر اُنکا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے وہ خط تحریر کرنا شروع کیا لیکن محض تین سطریں لکھ سکے۔ یہ تین سطریں میاں محمد نوازشریف کی امانت تھیں جو ہم نے اُنکے سپرد کردیں۔ ہماری والدہ اور ابو کی 56 برس طویل اور کامیاب رفاقت رہی۔ ابو کی گرتی صحت کو دیکھتے ہوئے وفات سے کچھ دِن قبل ہم امی کو ہسپتال لیکر گئے۔ یہ اُن دونوں کی آخری ملاقات تھی۔ جاتے جاتے ابو نے ہاتھ لہرا کر انہیں الوداع کہہ دیا، ہمیشہ کیلئے۔ وہ چلے گئے مگر اپنے پیچھے تحریروں کا قیمتی خزانہ چھوڑ گئے۔ یہ تحریریں کالم، مضمون، خاکے، شعروشاعری یا کسی بھی شکل میں ہوں، ایک اثاثہ ہیں۔ اچھی اور معیاری اردو سیکھنے یا لکھنے کی آرزو ہو تو ان کے مضامین، دینی اور نظریاتی بنیادوں کو پہچاننا ہو تو انکی تحریریں، سیاسی اور قومی تاریخ سے آگاہی لینی ہو تو انکی تصانیف، ادب کی چاشنی کا لطف لینا ہو تو ان کی شعروشاعری ،دِلوں میں سوز و گداز پیدا کرنا ہو تو مکہ مدینہ کے سفر نامے۔

اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت سے سرشار تھے۔ انکی لکھی ہوئی نعت کا ایک شعر ہے ۔

کرن کرن نور، آبشارِ بہار، ٹھنڈی ہوا کے جھونکے

کہ میرے گھر کا ہر اک دریچہ سُوئے مدینہ کھلا ہوا ہے

تمام احباب سے التماس ہے کہ اللہ کریم سے دعا فرمائیں کہ انکی قبر کا ہر دریچہ بھی سوئے مدینہ کھل جائے جہاں سے اُن کو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آتے رہیں۔ آمین

(ڈاکٹر نعمان صدیقی، عرفان صدیقی کے چھوٹے صاحبزادےہیں)۔

تازہ ترین