میرے دوست پوچھتے ہیں کہ ان دنوں تم بہت”سمارٹ“ لگ رہے ہو۔ تمہارا حجم ایک بہت بڑے علامہ کے برابر ہوگیا ہے۔ اس سمارٹنس کا راز کیا ہے؟ میں شرما کر جواب دیتا ہوں ”یہ سب شادیوں کی دین ہے۔“ وہ تجسس کے مارے سوال کرتے ہیں ”کیا ایک سے زیادہ شادیوں سے وزن بڑھ جاتا ہے؟“ میں گڑبڑا کر وضاحت کرتے ہوئے انھیں بتاتا ہوں کہ میں نے کوئی نئی شادی نہیں کی، میں تو دوسروں کی شادی کی تقریبات میں شرکت کی بات کررہا ہوں، چنانچہ مرغن کھانوں سے یہ تبدیلی تو آنا ہی تھی۔ دوست احباب اپنی شادی کے بجائے دوسروںکی شادیوں میں شرکت کے عمل کو گناہِ بے لذت قرار دیتے ہوئے ایک بار پھر پوچھتے ہیں تمھیں ان شادیوں کی اطلاع کون دیتا ہے؟“ مگر میں انھیں اپنا Source نہیں بتاتا کہ اس صورت میں گھڑمس پڑنے کا امکان ہے اور یوں جو ہم جیسے سفید پوش عزت کی روٹی کھارہے ہیں ، وہ بھی اس سے محروم ہوسکتے ہیں۔تاہم میرا اور علامہ صاحب کا معاملہ ایک دوسرے سے قدرے مختلف بھی ہے۔ علامہ صاحب محض عزت کی روٹی کے دلدادہ ہیں، خواہ اس عزت کی روٹی کیلئے انھیں کتنی ہی ذلت کیوں نہ برداشت کرنا پڑے جبکہ شادی کی تقریبات میں میری دلچسپی کی وجوہات اسکے علاوہ بھی ہیں۔ خصوصاً روایتی قسم کی شادیوں میں شرکت کا اپنا ہی مزا ہے۔ ان میں دولہا گھوڑے پر سوار ہوتا ہے، اس نے چہرے کو سہرے سے ڈھانپا ہوتا ہے اور جب وہ چہرے سے سہرا ہٹاتا ہے تو منہ اور ناک پر رومال رکھ کر کم از کم آدھے چہرے کو ناظرین سے چھپانے میں ایک بار پھر کامیاب ہو جاتا ہے۔ دولہے کی طرح گھوڑے کا منہ بھی مختلف قسم کی آرائشوں اور آلائشوں سے ڈھانپا ہوا ہوتا ہے۔ اسکی وجہ شاید یہ ہے کہ بیشتر صورتوں میں گھوڑے اور دولہے کی شکل میں مماثلت پائی جاتی ہے اور یوں خود کو حاسدین کی نظرِ بد سے بچانےکیلئے دونوں اپنے حسن کو ان سے مخفی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گھوڑوں کی عمر کا بیشتر حصہ تجرد کی زندگی بسر کرنے میں گزرا ہوتا ہے، چنانچہ وہ دل پر پتھر رکھ کر دوسروں کی شادیوں میں شرکت کرتے ہیں۔ شاید اسی لیے باراتی ان دل زدگان سے احتیاطاً ایک دولتی کے فاصلے پر رہتے ہیں۔ دولہا کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ شادی سے پہلے اس کی غیر نصابی سرگرمیاں کیا تھیں لیکن اسکے منہ چھپانے سے یہ شک ضرور ہوتا ہے کہ وہ خود کو منہ دکھانے کے قابل نہیں سمجھتا۔ تاہم ایک دولہے نے اس کی وجہ مختلف بتائی۔ میں نے اس سے پوچھا ”تم نے یہ رومال ناک پر کیوں رکھا ہوا ہے؟“ اس نے سامنے کی قطار میں بیٹھے ہوئے چند نوجوانوں کی طرف اشارہ کرکے پوچھا ”انھیں دیکھ رہے ہو؟“ میں نے کہا ”ہاں“ بولا ”یہ کنوارے ہیں اور میرے قریبی دوست ہیں۔ ان کے فاسد خیالات کی بو مجھ تک پہنچ رہی ہے۔ ناک پر یہ رومال میں نے انکے فاسد خیالات کی وجہ سے رکھا ہوا ہے۔“ ایک دفعہ یہی بات میں نے احساسِ محرومی کے مارے ہوئے ایک کنوارے گھوڑے سے بھی پوچھی تھی۔ میں نے پوچھا ”تم نے آنکھوں پر کھوپے کیوں چڑھائے ہوئے ہیں!“ اس نے کہا ”یہ کھوپے میرے مالک نے چڑھائے ہوئے ہیں تاکہ مجھے پتہ نہ چلے کہ میں شادی کی کسی تقریب میں موجود ہوں۔ مگر مَیں بہرا تو نہیں ہوں، قریب سے گزرنے والوں کی پازیب کی جھنکاریں اور شہنائی کی آوازیں تو بہرحال مجھے سنائی دیتی ہیں۔“اتفاق سے اس گھوڑے کا مالک بھی کنوارا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا ”شادی کی تقریب میں شرکت کرتے ہوئے تم کیا محسوس کرتے ہو؟“ اس نے روکھے پن سے جواب دیا ”محسوس کیا کرنا ہے جی، میری تو حس ہی ماری گئی ہے۔ آپ مٹھائی کی دکان پر بیٹھے ہوئے حلوائی سے پوچھ رہے ہیں کہ اسے مٹھائی سے کتنی رغبت ہے؟“ یہ عجیب اتفاق تھا کہ شادی کی اس تقریب کا نکاح خواں بھی کنوارا ہی تھا۔ میں نے اس سے بھی یہی سوال پوچھا تو بولا ”اس وقت میں مصروف ہوں، تم کسی فارغ وقت میرے حجرے میں آنا اور اکیلے آنا میں تمہاری تسلی کرا دوں گا۔“میں شادی کی تقریبات میں شرکت عزت کی روٹی اور متذکرہ امور کے علاوہ وہ تقریریں سننے کیلئے بھی کرتا ہوں جو نکاح خواں حضرات نکاح سے قبل کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ قبل از وقت بھی ہوتی ہیں۔ مثلاً ایک نکاح خواں نے نکاح سے پہلے طلاق کے موضوع پر تقریر شروع کردی اور پوری تفصیل سے بتایا کہ دولہا کن کن موقع پر اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے۔ بلکہ بعض حاضرین کی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے موصوف نے یہ چھوٹ بھی دی کہ طلاق بغیر کسی وجہ کے بھی دی جاسکتی ہے۔“ اس پر دلہن کے والد کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا اور اس نے نکاح خواں کو غصے سے مخاطب کرکے کہا ”بس کرو جی نکاح پڑھاؤ۔“ اس پر نکاح خواں نے طلاق کا موضوع تو چھوڑ دیا لیکن غالباً صورتحال کو بیلنس کرنے کیلئے اس نے شوہر کی وفات کی صورت میں عدّت کے مسائل بیان کرنا شروع کر دیئے۔ اس بار دولہا نے سخت غصے کے عالم میں انھیں کاندھوں سے جھنجھوڑتے ہوئے کہا ”مولوی صاحب آپ نکاح پڑھانے آئے ہیں، نماز جنازہ نہیں“۔ اسی طرح ایک بار ایک نکاح خواں نے نکاح سے پہلے اپنی پُرمغز تقریر میں دلہن کو کچھ نصیحتیں کرنا شروع کی اور بتایا کہ مرد کو خوش رکھنےکیلئے اس پر کیا کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، کیونکہ شرع میں شرم کی کوئی بات نہیں ہوتی۔ لیکن یہاں بھی ان کو ٹوک دیا گیا اور انھیں مجبوراً خود کو صرف نکاح خوانی تک محدود رکھنا پڑا۔مجھے اور علامہ کو ایک ہی دولہا کی متعدد شادیوں میں شرکت کاموقع بھی ملا ہے۔ اتفاق سے یہ صاحب ہمارے جاننے والے تھے۔ اس جواں مرد نے دس برسوں میں نو شادیاں کیں۔ ہم ہر شادی کے بعد ان سے پوچھ لیتے ہیں کہ اب کب حاضر ہوں، چنانچہ ان کی اگلی شادی کی خبر ہمیں اگر انکی طرف سے نہیں تو ادھر ادھر سے بہرحال مل ہی جاتی تھی۔ انھیں شادیاں کرنے کا کوئی شوق نہیں تھا، وہ دراصل ایک این جی او میں کام کرتے تھے جو ایک سے زیادہ شادیوں سے پیدا ہونے والے مسائل پر ریسرچ پیپر شائع کرتی تھی۔ ان صاحب کا کہنا تھا کہ سنی سنائی پر یقین کرنا تحقیق کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے، چنانچہ وہ خود اس تجربے سے گزرے۔ لیکن انھیں ریسرچ پیپر لکھنے کی مہلت نہ ملی۔ وہ اس ریسرچ کے دوران اتنے گوناگوں مسائل کا شکار ہوگئے کہ اپنی آخری شادی کا ولیمہ بھی نہ دیکھ سکے اور اللہ کو پیارے ہوگئے۔ انکی این جی او نے انکا شاندار مقبرہ تعمیر کیا اور قبر پہ یہ کتبہ لکھوایا ”دیکھو مجھے جو دیدہ ء عبرت نگاہ ہو“۔ متذکرہ این جی او کے ڈونرز پاکستان آمد پر باقاعدگی سے ان کے مزار پر حاضری دیتے ہیں۔