کراچی( منہاج الرّب) ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ عالمی فیشن برانڈز کی ترقی دراصل لاکھوں غیر ادا شدہ یا کم اجرت پر کام کرنے والی خواتین ورکرز کے استحصال کا نتیجہ ہے، جنہیں خاموش رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے فیشن برانڈز، فیکٹری مالکان اور حکومتوں کے ’’ناپاک گٹھ جوڑ‘‘ نے استحصال پر چلنے والی صنعت کھڑی کردی ہے اور پاکستان میں حکومت عدم نگرانی کی وجہ سے کم اجرت وبا کی طرح پھیلی ہوئی ہے، یونین سازی تقریباً ناممکن ہے۔ رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان اور سری لنکا میں گارمنٹ ورکرز کے بنیادی حقوق کی پامالی، ٹریڈ یونین مخالف اقدامات اور حکومتی دباؤ معمول بن چکے ہیں۔ایمنسٹی نے اپنی دو تازہ رپورٹس ایک بہ عنوان —"بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان اور سری لنکا کے گارمنٹ ورکرز کو انجمن سازی کے حق سے محروم کرنا" اور دوسری ""فیشن کی بے اعتنائی: مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے فیشن برانڈز کے کردار کی فوری ضرورت"میں وسیع پیمانے پر ہونے والی خلاف ورزیوں کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ایمنسٹی کی سیکریٹری جنرل اگنس کالامارڈ نے کہا کہ فیشن برانڈز، فیکٹریوں کے مالکان اور علاقائی حکومتوں کے درمیان ایک ’’ناپاک گٹھ جوڑ‘‘ نے ایسی صنعت کھڑی کی ہے جو دہائیوں سے انتہائی کم اجرت اور بدترین حالات میں کام کرنے والی خواتین ورکرز کے استحصال پر چل رہی ہے۔انہوں نے کہا“یہ پورے گارمنٹ انڈسٹری ماڈل پر الزام ہے، جو منافع کے لالچ میں ورکرز کے حقوق کو قربان کرتا ہے—خاص طور پر بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان اور سری لنکا کی خواتین کو۔یہ رپورٹیں ستمبر 2023 سے اگست 2024 تک ہونے والی تحقیق پر مبنی ہیں جس میں 20 فیکٹریوں کے بارے میں 88 انٹرویوز شامل ہیں۔ ایمنسٹی نے دنیا بھر کے 21 بڑے برانڈز کو بھی انسانی حقوق، مزدوروں کے حقوق اور مانیٹرنگ سے متعلق معلومات فراہم کرنے کی درخواست کی۔جن برانڈز نے مکمل جواب دیا ان میں شامل ہیں:Adidas، ASOS، Fast Retailing، Inditex، Otto Group، Primark۔جزوی جواب دینے والوں میں مارکس اینڈ اسپنسر (M&S) اور Walmart شامل ہیں، جبکہ Boohoo، H&M، Desigual، Next، Gap نے کوئی قابلِ ذکر معلومات فراہم نہیں کیں۔