• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دسمبر بانی پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناح کی پیدائش کا مہینہ ہے، اسی ماہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں موجود اقلیتی برادری بھی اپنا تہوار کرسمس مناتی ہے۔ ملک میں موسم اس وقت انتہائی سرد ہوچکا ہے مگر سیاسی درجہ حرارت خاصا گرم ہے، کے پی کے میں گورنر راج کی باتیں گونج رہی ہیں،پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی کیلئے احتجاجی تحریک کی جانب بڑھ رہی ہے،بلوچستان میں بھی اضطراب بدستور جاری ہے،ملک بھر میں نئے انتظامی یونٹس کے قیام کےحوالے سے خاصی گرما گرمی ہے، سندھ کی حکمراں جماعت اور اپوزیشن اس بارے میں ایک دوسرے کیخلاف صف آرا دکھائی دے رہی ہیں،معاشی صورت حال میں بہتری کے باوجود حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن)مہنگائی اور گرانی کے جن کو قابو کرنے میں اپنی گڈ گورنس دکھانے میں ناکام ہے، جس سے ا س کی سیاسی ساکھ پر سوالیہ نشان لگ رہا ہے، بھارت اور افغانستان کی جانب سے ملک کو درپیش خطرات میں بھی کمی نہیں آئی ،معاملہ وقتی طور پر رکا ہوا ضرور ہے مگر دونوں پاکستان مخالف ملک ایک ہی صف میں کھڑے نظر آرہے ہیں۔ ایسے میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے پاکستان میں ہونیوالی حالیہ27ویں آئینی ترمیم پر تشویش کا اظہار کر کے انسانی حقوق کے سلسلے میں پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی کوشش کی، یہ حرکت براہ راست پاکستان کی پارلیمان کے خودمختار فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے جس میں پاکستان کے مؤقف اور زمینی حقائق کی عکاسی نہیں کی گئی۔ یہ بات قابل افسوس ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں جب حکومت میں ہوتی ہیں تو وہ ملک سے محبت کا راگ الاپتی ہیں مگر اقتدار سے محرومی کے بعد وہ ریاست کیخلاف زہر اگلنا شروع کردیتی ہیں۔ ان کی یہ روش ہی قومی سطح پر عدم استحکام اور عالمی افق پرہماری بدنامی کا سبب بن جاتی ہے، ماہ دسمبر میں قائداعظم حکمرانوں سے سوال کررہے ہیں کہ 77  سال بعد بھی ہم اپنی ریاست کو ان نظریات کے مطابق نہیں ڈھال سکے جس کا خواب تحریک پاکستان کے اکابر نے دیکھا، کیا، ملک کو اسلامی اور جمہوری انداز کے مطابق چلاسکے، قوم کو وہ سب کچھ دے سکے جس کا وعدہ کیا گیا تھا، قائداعظم پاکستان کو جدید اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بنانے کے خواہاں تھے۔ وہ عوام کو اقتدار کا سرچشمہ قرار دیتے تھے، انکا کہنا تھا کہ قومی آزادی اور ملکی سلامتی کیلئے افواج پاکستان کی قوت پر بھروسا کیا جائے۔ وسائل دولت کی منصفانہ تقسیم ہو۔ ہر شہری کو بلالحاظ مذہب و ملت بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوں۔ عوام کو اپنے حکمران منتخب یا معزول کرنے کا اختیار ہو۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان سے پہلے اسلامی ریاست کا تصور پیش کرتے ہوئے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی مکمل یقین دہائی کرائی تھی، قائداعظم نے قیام پاکستان سے قبل ہی معاشرے کو مستحکم بنانے کے تمام اصول بتا دیئے تھے، مگر ہم آج بھی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے اسی مقام پر کھڑے ہیں جہاںکل آزاد ہونےکے وقت تھے،پاکستان میں سماجی مسائل بھی سنگین نوعیت کے ہیں، تعلیم، صحت، خواتین کے حقوق، مذہبی آزادی اور غربت جیسے مسائل عوام لی روزمرہ زندگی پر اثرانداز ہو رہے ہیں،نسلی، لسانی اورعلاقائی تعصبات نے ملکی اتحاد کو پارہ پارہ کردیا اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا عظیم سانحہ رونما ہوا۔ ایسے میں نہ تو مضبوط قومی ادارے تشکیل پاسکے اور نہ مضبوط قومی جمہوری جماعتیں تشکیل پاسکیں، جسکے باعث جمہوریت کے ثمرات عام آدمی تک منتقل نہ ہوسکے بلکہ ہر سال لاکھوں پاکستانی خطِ غربت سے نیچے جانے پر مجبور ہیں۔ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے مگر قائد کے ویژن کے مطابق نہ تو یہ جدید اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بن سکی اور نہ یہاں آج سے تیرہ سو سال پہلے والی اسلامی جمہوریت کے نظام کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکا۔عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے پاکستان میں کرپشن اور گورننس پر دھماکہ خیز رپورٹ جاری کر کے ہمیں بے نقاب کردیا ہے۔ ٹیکس چوری عام ،اشرافیہ کسی کے کنٹرول میں نہیں، سرکاری خزانے کو لوٹنے کا عمل جاری ، بانی پاکستان نے کبھی سرکاری خزانے کو اپنی ذات کیلئے استعمال نہیں کیا، کفایت شعاری کا جو انداز اپنایا وہ ہمارے حکمرانوں کیلئے مثال ہونا چاہئے مگر وہ صرف بیان بازی تک محدود ہیں ان کا عمل اور کردار ان باتوں کی نفی کرتا ہے۔

پاکستان کی سیاست میں بے شمار چیلنجز ہیں، ملک کی سیاسی جماعتیں آپس میں دست و گریباں ہیں، پاکستان میں سیاسی کشمکش کے شدید اثرات ملکی ترقی پر پڑ رہے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کا شمار دنیا کی کمزور ترین معیشتوں میں ہوتا ہے، ہمیں بیرونی قرضوں، مہنگائی، اور بیروزگاری جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی اور توانائی کا بحران کاروباری شعبے کو تباہی کے دہانے تک لے آیا ہے۔حکومت اپنے مالی استحکام کیلئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے عالمی اداروں سے قرضے لینے پر مجبور ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے واقعات بھی سیکورٹی کے حوالے سے ایک بڑا چیلنج ہیں، اگرچہ سکیورٹی فورسز نے دہشت گردی کیخلاف کئی کامیاب آپریشن کئے ، مگر یہ مسئلہ ابھی تک پوری طرح سے حل نہیں ہوسکا۔ سرحدی علاقوں میں کشیدگی اور بین الاقوامی تعلقات میں تناؤ بھی پاکستان کی سکیورٹی صورتحال کو متاثر کرتے ہیں۔ہمیں مستحکم جمہوریت، بہتر معاشی حکمت عملی اور سماجی انصاف کے حصول کیلئے گہری اصلاحات کی ضرورت ہے۔ سیاست میں استحکام، اداروں کی مضبوطی اور عوامی شراکت داری کو فروغ دینا ضروری ہے تاکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ سیاسی جماعتوں کو اپنی ترجیحات میں عوام کے مسائل کو شامل کرتے ہوئے اصلاحات لانی چاہئیں تاکہ ملک کے سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل حل کئے جا سکیں۔ چند دن بعد نئے سال کا آغاز ہوجائیگا، قوم ایک بار پھر اسی امید اور آس کیساتھ نئے سال کا خیر مقدم کرے گی ، جشن منائے گی کہ نیا سال انکے بہتر مستقبل کی نوید لے کر آئے گا۔مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا واقعی ہندسے بدلنے سے حالات بھی بدل جاتے ہیں۔

تازہ ترین