اب مجھے یوں لگنے لگا ہے جیسے چین میں میرا سُسرال ہو۔ میں تین مرتبہ چین آ چکا ہوں اور اب یہ چوتھا موقع ہے۔ ہر مرتبہ ایک نیا اور اچھوتا تجربہ ہوتا ہے۔ سسرال میں بندے کی آؤ بھگت بھی خوب کی جاتی ہے اور نظر بھی رکھی جاتی ہے۔ سب سے پہلے تو جہاز میں داخل ہونے سے پہلے چینیوں نے کوئی سیال نما چیز میری کلائی پر لگائی اور پھر اسے ایک مشین پر لگا کر غور سے دیکھنے لگے، میں نے سوچا کہیں یہ مشین میرا کچا چٹھا نکال کر نہ رکھ دے لیکن پھر فضائی میزبان نے مسکرا کر جہاز میں داخل ہونے کا اشارہ کیا اور میں نے گہری سانس لی۔ جہاز اُرمچی میں رکا تو ایک نئی بات معلوم ہوئی کہ یہاں سامان حاصل کرکے دوبارہ چیک اِن کرنا پڑے گا۔ ابھی ادھر ادھر دیکھ ہی رہا تھا کہ ہوائی اڈے پر مامور ایک عفیفہ نے اشارے سے بلایا، ہاتھ سے پاسپورٹ لے کر اسکین کیا اور پھر ایک کمرے میں بھیج دیا۔ یہاں کووڈ کے نمونے لیے جا رہے تھے۔ اِس مرحلے سے فارغ ہوئے تو امیگریشن کی منزل آئی، لگ بھگ دس منٹ تک امیگریشن افسر مجھے اور میرے پاسپورٹ کو غور سے دیکھتا رہا مگر پھر بالآخر مہر لگا کر پاسپورٹ میرے حوالے کر دیا۔ قطار میں دو تین پاکستانی بھی تھے، انہیں ایک علیحدہ کمرے میں لے جا کر پوچھ گچھ کی گئی، جس نے انہیں چین سے دعوت نامہ بھیجا تھا اُسے فون کرکے تصدیق کی پھر اُن غریبوں کی جان چھوٹی۔ لیکن ابھی عشق کے امتحان اور بھی تھے۔ سامان چیک اِن کرواتے ہوئے دوبارہ پڑتال کی گئی اور میرا پاور بینک قبضے میں لے لیا اور وجہ یہ بتائی کہ اُس پر ccc نہیں لکھا۔ بعض اوقات اِن ترقی یافتہ ممالک کے اہلکاروں کو دیکھ کر مجھے یوں لگتا ہے جیسے یہ انسان نہیں روبوٹ ہوں جن کے دماغوں میں قواعد و ضوابط کی چِپ لگا دی جاتی ہے اور پھر یہ اُن سے ایک اِنچ بھی اِدھر اُدھر نہیں ہوتے۔ اِس کا فائدہ تو یقیناً ہوتا ہے کہ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے، کسی کیلئے کوئی رعایت نہیں برتی جاتی اور ریاست اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں کامیاب رہتی ہے مگر انسان اور روبوٹ میں بہرحال فرق رہنا چاہیے۔ اگر آپ چین جائیں اور اپنے فون میں وی پی این انسٹال کرنا بھول جائیں تو پھر آپ خود کو کسی ایسی دنیا میں پائیں گے جو کسی اور ہی سیارے پر ہو۔ پچھلی مرتبہ مجھ سے یہ غلطی ہو گئی تھی مگر مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا۔ بیجنگ میں سردی مزاج پوچھ رہی تھی، درجہ حرارت چھ ڈگری تھا اور محسوس منفی چھ ہو رہا تھا، ہوا ایسے چل رہی تھی کہ لگتا تھا جسم کو چیر کر نکل جائیگی۔ میں پہلے بھی دو مرتبہ بیجنگ آ چکا ہوں اِس لیے مجھے اِس ٹھنڈ کا بخوبی اندازہ تھا، اپنے تئیں بندوبست تو کرکے آیا تھا مگر سردی نے سارے کڑاکے نکال دیے۔ بیجنگ اولمپک شہر ہے، یہاں تعمیر کیے گئے اسٹیڈیم انجینئرنگ کا شاہکار ہیں۔ ایسے ہی ایک اسٹیڈیم میں چینی میزبانوں نے ایک ویڈیو چلا کر دکھایا کہ کیسے ایک بین الاقوامی معیار کے تیراکی کے تالاب کو انہیں نے چند دنوں میں ’کرلنگ‘ ٹریک میں تبدیل کر دیا (کرلنگ ایک کھیل ہے جو برف پر کھیلا جاتا ہے)، بعد ازاں انہوں نے اُسی ٹریک کو اسٹیڈیم کے دوسرے حصے میں منتقل کیا اور تالاب کو اصل حالت میں واپس لے آئے۔ چینیوں کی مہارت کی یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ بیجنگ کی اسپورٹس یونیورسٹی ایک علیحدہ چھوٹا سا شہر ہے، چین اولمپک کھیلوں میں جتنے تمغے جیتتا ہے اُن میں سے ایک تہائی اِس اکیلی یونیورسٹی سے ہوتے ہیں۔ یہاں کی دیواروں پر طلائی تمغے جیتنے والوں کی تصاویر دیکھیں جن میں سے اکثر کی عمریں سترہ سے بائیس سال کے درمیان تھیں۔ چینی اِس معاملے میں خاصے منکسرالمزاج واقع ہوئے ہیں، اپنے اِن کارناموں کا ذکر اِس انداز میں کرتے ہیں جیسے یہ اِن کیلئے معمول کی بات ہو۔
چینیوں کو کام کرتا دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے یہ کسی اور ہی دنیا کی مخلوق ہوں، انتھک محنت، مسلسل اور دن رات۔ بیجنگ کی سخت سردی میں عورتیں اپنی ٹانگوں پر رضائی رکھ کر اسکوٹر چلاتی ہیں اور گھر گھر کھانا پہنچانے سے لے کر دنیا کا ہر کام کرتی ہیں۔ ویسے تو دنیا بھر میں لوگ موبائل فون کے محتاج ہو چکے ہیں لیکن چین میں یہ محتاجی کچھ زیادہ ہی ہے، دس قدم کے فاصلے پر بھی جانا ہو تو اپنا دماغ استعمال کرنے کی بجائے موبائل فون پر نقشہ کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔ دوسری بات جو ہر مرتبہ مشاہدے میں آتی ہے کہ چین میں ضابطے کی کارروائی ضرورت سے بہت زیادہ ہے، اگر آپ اسپتال کی ایمرجنسی میں بھی چلے جائیں تو پہلے کاغذ پورے کیے جائینگے اور اُسکے بعد علاج شروع ہو گا چاہے اِس دوران بندہ فوت ہی کیوں نہ ہو جائے۔ یہ تنقید اپنی جگہ مگر ملین ڈالر سوال وہیں رہے گا کہ آخر چین نے اتنی ترقی کیسے کی؟ اِس سوال کے جواب میں ہزاروں کتابیں لکھی جا چکی ہیں، جواب تلاش کیے جا چکے ہیں مگر تشنگی تا حال باقی ہے۔ اگر ہم یورپ کی طرح چین کو بھی ایک براعظم سمجھ لیں اور ہر شہر کو ملک تو پھر شاید ہم چین کی ترقی کو کسی حد تک ہضم کر سکیں گے۔ اِس میں کوئی شک نہیں چین کی مرکزی حکومت بہت طاقتور ہے مگر صوبائی اور شہری حکومتیں بااختیار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہر شہر اپنی جگہ ایک علیحدہ ملک کی طرح ترقی یافتہ ہے۔ لیکن یہ بات اتنی سادہ نہیں، اصل بات ڈنگ ژاؤ پنگ کی دور اندیشی، چینیوں کی محنت اور کمیونسٹ پارٹی کا کُلی اختیار۔ بہت سے پاکستانیوں کا خیال ہے کہ ہمارے ہاں بھی یہی ماڈل نافذ ہونا چاہیے تاکہ ایک مرتبہ ملک سے غربت تو ختم ہو، اگر چین میں یہ معجزہ ہو سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں۔ یہ خواہش بظاہر تو غلط نہیں تاہم چینی کمیونسٹ پارٹی کی اپنی پوری تاریخ اور روایت ہے، اُس کو نظر انداز کرکے ویسا ہی ماڈل کسی دوسرے ملک میں نافذ کرنا ایسے ہی ہے جیسے امریکہ میں قبائلی نظام لاگو کرکے انصاف کی امید کرنا۔
اگر آپ بیجنگ آئیں اور بیجنگ بطخ نہ کھائیں تو سمجھیں دورہ بیجنگ نامکمل رہا۔ ایسے جیسے بندہ لاہور جائے اور بونگ پائے چکھے بغیر واپس چلا جائے۔ میں نے اپنی میزبان سے پوچھا کہ سنا ہے یہاں کتے کا گوشت بھی کھایا جاتا ہے، اُس نے ہنس کر کہا کہ زیادہ رواج چین کے اکا دکا صوبوں میں ہے جو سرحد کے ساتھ لگتے ہیں اور بیجنگ میں بھی کچھ جگہوں پر مل جاتا ہے، پھر کہنے لگی کہ یہ اچھی بات نہیں، کتے تو اِس قدر معصوم ہوتے ہیں، بھلا کوئی اُن کا گوشت کیسے کھا سکتا۔ میں نے کہا بالکل ٹھیک ہے مگر بطخ بیچاری بھی تو معصوم ہی ہے، وہ قہقہہ لگا کر بولی، مگر آئی لو ڈَک (ڈال پر زبر ہے)۔ بے شک بیجنگ میں بطخوں کو یہ محبت خاصی مہنگی پڑتی ہے۔ (جاری ہے)۔