• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چین میں سب سے زیادہ لطف اُن کی انگریزی سن کر آتا ہے، چینیوں کی اکثریت چونکہ انگریزی سے نابلد ہے اور لوگ محض کام چلانے کی خاطر بولتے ہیں تو ایسے ایسے معصومانہ جملے سننے کو ملتے ہیں کہ بندہ جھوم اٹھتا ہے۔ ایک دکاندار سے میں نے پوچھا کہ یہاں فون کا سِم کارڈ ملے گا، موصوف نے جواب دیا: No buy sim here۔ چلیں وہ بیچارہ تو پڑھا لکھا نہیں تھا لیکن ایسی ایسی جگہوں پر آپ کو غلط انگریزی لکھی ہوئی ملتی ہے کہ جسے پڑھ کر بندہ سوچتا ہے کِس دیوار میں سر ماروں۔ریلوے اسٹیشن، ریستوران، شاپنگ مال حتّیٰ کہ بڑی بڑی کمپنیاں بھی غلط سلط انگریزی لکھتی ہیں۔ مثلاً ایک جگہ میں نے پڑھا Slip Carefully، ایک ریستوران کے ٹوائلٹ کے باہر لکھا تھا Femal:Mankind ۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے چینی بھی اسی قسم کے ترجمے سے کام چلاتے ہیں۔ لیکن گزشتہ دس سال کے مقابلے میں اب چین میں انگریزی بولنے اور سمجھنے والے مل جاتے ہیں، ورنہ پہلے تو صورتحال یہ تھی کہ اگر آپ راستہ بھول گئے تو سمجھیں اب اللہ کے آسرے پر ہی ہوٹل واپس آئیں گے۔

بیجنگ سے شنگھائی کا سفر ٹرین سے طے کیا۔ ریلوے اسٹیشن پر بھی ہوائی اڈے جیسی تلاشی لی گئی اور حسب روایت میری ایک قینچی ضبط کر لی گئی، وجہ یہ بتائی گئی کہ یہ چھ اِنچ سے زیادہ لمبی ہے۔ دل کیا کہ کہہ دوں کہ میرا ارادہ اِس قینچی سے قتل کرنے کا تھا مگر پھر یہ سوچ کر چُپ رہا کہ انہوں نے اِس مذاق کو سچ سمجھ کر پورے چین کو ہائی الرٹ کر دینا ہے۔ ہائی اسپیڈ ٹرین نے چھ گھنٹے میں شنگھائی پہنچا دیا۔ چند ماہ پہلے جب میں شنگھائی آیا تھا تو محض دو دن گزارے تھے، اُن دو دنوں میں ’موٹا موٹا‘ شنگھائی تو دیکھ لیا تھا مگر تِشنگی رہ گئی تھی۔ یہ شہر دنیا کے چند بہترین شہروں میں سے ایک ہے، میری فہرست کے مطابق امریکہ میں شکاگو، یورپ میں بارسلونا، یوکے میں لندن اور چین میں شنگھائی رہنے کیلئے آئیڈیل ہیں۔ شنگھائی میں غیرملکی کافی تعداد میں مل جاتے ہیں، اگر آپ کو یہاں شہر کے بارے میں رہنمائی درکار ہو تو کسی غیرملکی سے پوچھیں، وہ نہ صرف شسُتہ انگریزی میں سمجھائے گا بلکہ اضافی معلومات بھی دے گا اور وہ بھی بغیر موبائل فون کھولے۔ ویسے تو شنگھائی شیطان کی آنت کی طرح چاروں طرف پھیلا ہوا ہے اور کسی شریف آدمی کے بس کا کام نہیں کہ دو چار دن میں اِس شہر کا کلیجہ نکال کر رکھ لے لیکن پھر بھی اگر آپ شہر کو محسوس کرنا چاہتے ہیں تو دریا کے کنارے بند پر چلے جائیں اور اُس کے بعد شِنتیاندی کا علاقہ دیکھ لیں، اِن دونوں جگہوں کو چونکہ پچھلی مرتبہ سلام کر آیا تھا لہٰذا اِس مرتبہ شنگھائی کا اولڈ ٹاؤن دیکھنے کا منصوبہ بنایا۔ شنگھائی کی حدود میں ایک سے زیادہ اولڈ ٹاؤن ہیں، Zhujiajiao (جوجیا جی آؤ) اُن میں سے ایک ہے، شنگھائی میٹرو سے آپ باآسانی وہاں جا سکتے ہیں، یہ شنگھائی کے مضافات میں ہے اور بے حد خوبصورت علاقہ ہے، اسے آپ پرانا اور چھوٹا سا قصبہ سمجھ لیں۔ میٹرو سے نکل کر ہم نے چند منٹ چہل قدمی کی، دکانوں میں گھومے پھرے، اسٹریٹ فوڈ کھایا اور وہاں سے پرانی آبادی کی جانب ہو لیے۔ اگر اٹلی کے شہر وینس کا ’ساشے پیک‘ بنالیا جائے تو وہ جوجیا جی آؤ ہوگا۔ شہر میں چھوٹا سا دریا ہے جس کے کنارے دکانیں، ریستوران اور کافی شاپس ہیں۔ چھوٹی چھوٹی گلیاں ہیں جو دریا کی جانب جاتی ہیں، اِن گلیوں میں آپ چہل قدمی کر سکتے ہیں، انواع و اقسام کے کھانے کھا سکتے ہیں، خریداری کر سکتے ہیں۔ سیاحوں کا پسندیدہ علاقہ ہونے کے باوجود یہ جگہ شنگھائی ڈاؤن ٹاؤن کے مقابلے میں کافی سستی ہے۔ دریا کے پار جانےکیلئے پُل بنے ہوئے ہیں جہاں سے آپ پورے قصبے کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ شام کے وقت یہ ایک دلفریب منظر ہوتا ہے، دریا کے دونوں اطراف روشنیاں جگمگا رہی ہوتی ہیں۔

یوں لگتا ہے جیسے کسی نے دریا کے کناروں کو آگ لگا دی ہو۔ قصبے میں چھوٹے چھوٹے پرانے مکانات تھے اور اندرون لاہور کی طرح گلیاں بھی، اُسی طرح اِن گلیوں میں لوگوں کی بھیڑ تھی اور رونق بھی ویسی ہی۔ دریا سے ایک نہر کا پانی گلیوں کے درمیان سے گزر رہا تھا، نہر کے دائیں بائیں درختوں پر مختلف رنگوں کی روشنیاں جگ مگ کر رہی تھیں جبکہ آس پاس کی جگہیں پھولوں اور بیلوں سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ ہم نے دو تین گھنٹے اِن گلیوں، بازاروں اور چوباروں میں گزارے، دریا کے کنارے بیٹھ کر اسٹار بکس سے دنیا کی سب سے بُری کافی پی اور واپس شنگھائی آ گئے۔

شنگھائی اور بیجنگ جیسے شہروں میں جائیداد کی قیمتیں اور کرائے آسمان سے باتیں کرتے ہیں۔ لاہور یا کراچی میں جتنے پیسوں میں آپ ایک پلازہ کرائے پر لے سکتے ہیں اتنے پیسوں میں یہاں بمشکل ایک مرلے کی دڑبے جیسی دکان ملتی ہے۔ رہائشی اپارٹمنٹس کا حال بھی ایسا ہی ہے۔ وہ میاں بیوی جو تمام عمر مناسب نوکری کرتے ہیں اور صرف ایک بچہ پیدا کرتے ہیں وہ بھی محض دو مرلے کا فلیٹ خریدنے کے متحمل ہو سکتے ہیں اور وہ بھی بیس سال کی اقساط میں۔ اپنے ہاں تو یار لوگ دو مرلے میں صرف باتھ روم بناتے ہیں۔ چین کے نظام پر آپ لاکھ تنقید کریں مگر ایک بات طے ہے کہ چین کی ترقی نے دنیا کو چکرا کر رکھ دیا ہے اور ایسے ایسے نظریات کو غلط ثابت کیا ہے کہ اچھا بھلا سیاسی مفکر بھی اِس کی توجیہ نہیں دے پاتا۔ وہ ملک جہاں چند دہائیاں پہلے ایک سے زیادہ بچہ پیدا کرنے پر پابندی تھی، اب وہاں زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ ہمارے جیسے ممالک زیادہ آبادی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں جبکہ ڈیڑھ ارب آبادی کا ملک فراٹے بھر رہا ہے۔ شنگھائی کے نائٹ کلبوں میں شادی کیلئے ’میرج بوتھ‘ بنا دیے گئے ہیں تاکہ وہ جوڑے جو وہاں آتے ہیں موقع پر ہی شادی کر سکیں۔

یہ دسمبر ہے اور پورے شنگھائی میں کرسمس کا سماں ہے۔ شہر میں جا بجا کرسمس کے درختوں کو سجایا گیا ہے، گلیوں میں کرسمس کی روشنیاں ہیں، شاپنگ مالز میں اسی مناسبت سے کپڑے اور دیگر اشیا فرخت کی جا رہی ہیں، کوئی ہوٹل اور ریستوران ایسا نہیں جہاں کرسمس ٹری نہ ہو اور اُس کے ارد گرد تحفے نہ پڑے ہوں۔ یوں تو چین میں مذہب کی ترویج و تبلیغ کی اجازت نہیں، مگر کرسمس کی رونق دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے حکومت اسے مذہبی تہوار کی بجائے کاروباری تہوار تہوار سمجھتی ہے۔ چین کے لوگ اپنی تمام تر ترقی کے باوجود مغربی تہذیب سے مرعوب لگتے ہیں۔ شنگھائی میں اِس وقت رات کے بارہ بج رہے ہیں، ہوٹل کے کمرے سے شہر کی بلند و بالا عمارتیں نظر آ رہی ہیں، اِن عمارتوں کا کروفر بتا رہا ہے کہ یہ شہر کس قدر پُرشکوہ ہے۔(جاری ہے)

تازہ ترین