انصار عباسی
اسلام آباد:…سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کی سزا کے بعد بعض سیاسی اور میڈیا حلقوں میں سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے خلاف قانونی کارروائی کے امکان پر قیاس آرائیاں شروع ہو گئی ہیں۔ تاہم باخبر ذرائع نے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنرل باجوہ کے خلاف نہ تو کوئی تحقیقات ہو رہی ہیں اور نہ ہی کوئی کارروائی زیرِ عمل ہے۔ذرائع نے کہا کہ بعض حلقوں میں پھیلائی جانے والی یہ چہ مگوئیاں بے بنیاد ہیں۔ ان کے مطابق فوجی احتساب کا وہ عمل جس کے نتیجے میں جنرل فیض کو سزا ہوئی، مکمل طور پر شواہد کی بنیاد پر تھا اور صرف ان کے انفرادی اقدامات تک محدود رہا، جبکہ اس کیس میں سابق آرمی چیف کو جوڑنے والا کوئی مواد موجود نہیں۔اس کے برعکس ذرائع کا کہنا ہے کہ فوج کی جانب سے اپنے ایک سینئر افسر کے خلاف احتسابی عمل مکمل ہونے کے بعد توقعات بڑھ رہی ہیں کہ احتساب کا دائرہ فوجی شعبے سے باہر بھی پھیل سکتا ہے۔ ججوں، بیوروکریٹس، سیاست دانوں اور حتیٰ کہ میڈیا کے بعض افراد، جنہوں نے مبینہ طور پر ماضی میں سیاسی انجینئرنگ میں کردار ادا کیا یا آئینی اور قانونی حدود سے تجاوز کیا، آنے والے دنوں میں جانچ پڑتال کی زد میں آ سکتے ہیں۔اس سے قبل بھی اسی نوعیت کا مؤقف فوجی ترجمان کی جانب سے سامنے آ چکا ہے۔ گزشتہ سال ایک پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے جنرل فیض کی گرفتاری اور کورٹ مارشل کی کارروائی سے متعلق سوالات کے جواب میںواضح کیا تھا کہ فوجی احتساب کا نظام شفاف ہے اور الزامات یا مفروضوں پر نہیں بلکہ ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کام کرتا ہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو جنرل فیض کیس کے سلسلے میں آرمی ایکٹ کے تحت مقدمے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تو ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس سوال کو مفروضہ قرار دیا اور کہا کہ معاملہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔ تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فوجی قانون کے تحت اگر کوئی فرد، ذاتی یا سیاسی مفادات کے لیے ایسے شخص کو استعمال کرتا ہوا پایا جائے جو آرمی ایکٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہواور اس کے شواہد موجود ہوں تو قانون اپنا راستہ خود اختیار کرے گا۔فوجی ترجمان سے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) نوید مختار کے کردار کے بارے میں بھی سوال کیا گیا، جو جنرل فیض کی تقرری اور ترقی سے متعلق تھا۔ اس کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے زور دیا کہ ایسے شخص کے اقدامات کو دوسروں سے جوڑنا ناانصافی ہو گی جس نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے اور بعض سیاسی عناصر کے کہنے پر اپنی آئینی اور قانونی حدود کو عبور کیا۔یہ بیانات اور جنرل باجوہ یا جنرل مختار کے خلاف کسی بھی ثبوت کی عدم موجودگی واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جنرل فیض کے معاملے میں سابق آرمی چیف کے خلاف کوئی کیس موجود نہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ جنرل باجوہ کے خلاف کوئی اقدام نہیں ہو رہا، تاہم فیض کے بعد کی صورتحال کو ایک وسیع تر احتسابی عمل کا دروازہ کھولنا چاہیے، جس کا مقصد ان سویلین اداروں کے افراد کو نشانہ بنانا ہو جو مبینہ طور پر ماضی میں غیر آئینی اقدامات کو سہولت فراہم کرنے یا ان سے فائدہ اٹھانے کے مرتکب ہوئے۔ ان کے بقول اس نوعیت کا احتساب اس لیے ضروری ہے تاکہ ذمہ داری کا تعین ہر سطح پر ہو اور اسے چنندہ انداز میں لاگو نہ کیا جائے۔