وقت اس تیزی سے گزرتا ہے کہ پتہ بھی نہیں چلتا ۔ یہ وہ وقت تھا جب فیض حمید آئی ایس آئی کے سربراہ تھے ۔ وہ چاہتے تھے کہ آصف علی زرداری پاکستان سے چلے جائیں لیکن زرداری اپنی ہٹ دھرمی کے باعث پاکستان سے باہر جانے کی بجائے جیل کے اندر چلے گئے ۔ اُن پر دباؤ ڈالنے کیلئے اُنکی بہن فریال تالپور کو بھی گرفتار کر لیا گیا ۔ جنرل فیض نے بلاول سے کہا کہ اپنے باپ کوسمجھاؤ ہم اُسے علاج کیلئے باہر جانے کی اجازت دیدیں گےلیکن بلاول نے فیض کو ناں کہہ دی ۔ انہی دنوں آصف علی زرداری کا پروڈکشن آرڈر جاری کیا گیا۔ وہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کیلئے پارلیمنٹ ہاؤس آئے۔ بلاول بھٹو زرداری انسانی حقوق کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئر مین تھے ۔ اُنکے چیمبر میں زرداری صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ میرا تو پروڈکشن آرڈر جاری ہوجاتا ہے لیکن تمہارے دوست عمران خان کا تو پروڈکشن آرڈر بھی جاری نہیں ہوا کرئیگا ۔ میں نے پوچھا کہ عمران خان کا پروڈکشن آرڈر کیوں جاری نہیں ہو گا ؟ زرداری صاحب نے دعویٰ کیا کہ وہ جس راستے پر چل رہا ہے اُس پر چلتے ہوئے وہ اگلی پارلیمنٹ کا رکن نہیں ہو گا بس جیل میں ہی رہے گا ۔ یہ سُن کر میں نے کہا کہ کیوں نہ آپکے ساتھ ایک باقاعدہ انٹرویو ہو جائے ؟ زرداری صاحب نے کہا کہ میں تو تیار ہوں لیکن تم سوچ لو۔ میرا انٹرویو اپنے ٹی وی چینل پر نشر کر بھی سکو گے یا نہیں ؟ میں نے کچھ سوچا کیونکہ عمران خان کے دور میں ایک دفعہ مریم نواز کا انٹرویو رک چکا تھا لیکن پھر سوچا کہ زرداری صاحب ایک تجربہ کار اور محتاط سیاستدان ہیں وہ کوئی ایسی بات نہیں کرینگے جو انٹرویو روکنے کی وجہ بنے میں نے انہیں یقین دلایا کہ آپ کا انٹرویو نہیں رکے گا۔ اگلے دن میں نے اُنکا انٹرویو کر لیا ۔ شام کو جب آٹھ بجے انٹرویو نشر ہونا شروع ہوا تو کچھ دیر بعد یہ انٹرویو جیو نیوز کی اسکرین سے غائب ہو گیا ۔ یہ انٹرویو نشر ہو جاتا تو شائد اتنی بڑی خبر نہ بنتی لیکن انٹرویو کا رک جانا ایک انٹرنیشنل اسٹوری بن گئی ۔ پتہ چلا یہ انٹرویو فیض حمید نے رکوایا تھا ۔ کچھ عرصے کے بعد آصف علی زرداری رہا ہو گئے ۔ فیض حمید ایک طرف تو جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن دلوانے کیلئے اُنکی منتیں کرتا تھا دوسری طرف اُنکے کاروباری دوستوں کو تنگ بھی کرتا تھا ۔ ایک دن زرداری صاحب نے فیض حمید سے دو افراد کی موجودگی میں کہا کہ اللّٰہ سے ڈرو کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک دن تمہاری فائل میرے پاس آجائے اور تمہاری تقدیر کا فیصلہ میرے دستخط سے منسلک ہو جائے ۔ فیض حمید نے بڑی رعونت کیساتھ قہقہہ لگایا اور کہا ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ آج آصف علی زرداری صدر پاکستان ہیں اور فیض حمید ایک سزا یافتہ مجرم ہے جس پر ابھی مزید مقدمے بھی چلنے ہیں۔ کسی سزا یافتہ مجرم پر تنقید کرنا بہت آسان ہے لیکن جب یہ مجرم فوجی وردی میں ملبوس تھا اور ایک مافیا ڈان کی طرح پورا سسٹم چلا رہا تھا تو ان دنوں اس پر تنقید بہت مشکل تھی۔ اُسوقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھارت سے دوستی اور اسرائیل کیساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی بڑی جلدی تھی۔ وہ صحافیوں اور ٹی وی اینکرز کو بلا کر انہیں کہتے کہ بھارت سے دوستی اور اسرائیل کیساتھ سفارتی تعلقات کے قیام میں ہماری مدد کریں۔ میرا ہمیشہ یہ موقف ہوتا کہ ان معاملات پر پارلیمنٹ سے فیصلہ لیں یہ معاملات ٹی وی اینکرز نے طے نہیں کرنے۔ باجوہ صاحب ناراض ہو جاتے تو فیض کے اشارے پر کبھی اسلام آباد ہائی کورٹ مجھ پر قتل اور اغوا کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیتی اور کبھی کوئی ٹی وی چینل مجھ پر توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگا دیتا ۔ ایک دن فیض حمید نے کرنل لیاقت کے ذریعے ملاقات کا پیغام بھیجا تو میں نے جواب دیا جو بھی بات کرنی ہے آئی ایس پی آر کے ذریعہ کریں ۔ کچھ عرصے کے بعد مجھ پر پابندی لگ گئی ۔ پابندی لگا کر کہا گیا کہ خاموشی سے گھر بیٹھ جاؤ یا ایک ٹی وی چینل کے پریذیڈنٹ بن جاؤ۔ معذرت کی تو ایک اور ٹی وی چینل کا مالک بننے کی آفر ہوئی۔ حیرت ہوئی کہ یہ چینل دراصل فیض کا تھا لیکن میں نے واشنگٹن پوسٹ اور ڈی ڈبلیو اُردو میں کالم لکھنے شروع کر دئیے ۔ اُن دنوں مولانا فضل الرحمان نے جنرل باجوہ کے بارے میں’’نکے دا ابّا‘‘کی اصطلاح استعمال کی تو میں نے 25 اکتوبر 2021 ء کو ڈی ڈبلیو اُردو میں’’نکے دا اصلی ابا ‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا اور بتایا کہ جنرل فیض حمید آرمی چیف بننے کی تیاریوں میں ہے ۔ 31 اکتوبر 2021 ء کے کالم میں موصوف کو’’ڈبل شاہ‘‘کا لقب دیا جسکے بعد مجھے انکا پیغام ملا کہ میں آئی ایس آئی میں رہوں یا نہ رہوں تمہیں کسی پاکستانی چینل پر نہیں آنے دوں گا ۔ گیارہ جنوری 2022 ء کو واشنگٹن پوسٹ میں لکھا کہ نیا سال عمران خان کیلئے ایک ڈراؤنا خواب بننے والا ہے اور اسکی وجہ جنرل فیض بنے گا۔ 12 جنوری 2022 کو ڈی ڈبلیو اُردو میں ہم نے ’’ تبدیلی سرکار میں بغاوت ‘‘ کے عنوان سے عمران خان کی حکومت کی رخصتی کا اعلان کر دیا۔ خان صاحب کے ایک وزیر میرے پاس آئے اور پوچھا کہ تم پر تو پابندی ہے تمہیں ہماری رخصتی کی خبریں کون دے رہا ہے ؟ میں نے اُسے بتایا کہ میں صحافی ہوں ۔ میرے سامنے ہر وقت خبریں گھومتی پھرتی رہتی ہیں لیکن جنکی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے انہیں یہ خبریں نظر نہیں آ رہیں چند مہینے کے اندر اندر عمران خان کی حکومت ختم ہو گئی۔ اب انہیں اپوزیشن کی سیاست کرنی چاہیے تھی لیکن انکی سیاست فیض حمید کے ہاتھوں پرغمال بن چکی تھی جو کسی نہ کسی طرح آرمی چیف بننے کی کوشش میں تھا۔وہ ایک طرف تحریک انصاف کو اپنے مقصد کیلئے استعمال کر رہا تھا دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کو اپنی وفاداری کا یقین دلا رہا تھا ۔ 28 نومبر 2022 ء کو روزنامہ جنگ میں میرا کالم’’خان صاحب کا فیض‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا جس میں بتایا کہ جنرل فیض حمید نے آرمی چیف بن کر پاکستان میں صدارتی نظام نافذ کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا ۔ یہ تمام کالم 2023 ء میں شائع ہونے والی میری کتاب ’’ سچ بولنا منع ہے “ میں موجود ہیں ۔ اس کتاب کی آخری سطور میں کہا گیا ہے کہ ہمارے اکثر مسائل کی وجہ فوج اور عدلیہ کی سیاست میں مداخلت ہے ۔ آج بھی ہماری بڑی سیاسی جماعتیں انہی دو اداروں کے کندھوں کو استعمال کرنے کی کوشش میں ہیں ۔ ان اداروں کی سیاست میں مداخلت بند ہونی چاہئے ۔ جنرل فیض حمید کو ملنے والی سزا فوج کی سیاست میں مداخلت کی حوصلہ شکنی کا آغاز ہے ۔ تین سال پہلے جب فیض حمید نے مجھ پر پابندی لگوائی تو میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ اتنی تیزی سے عبرت کی مثال بنے گا ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ فیض حمید کو ملنے والی سزا نے مجھے خوفزدہ کر دیا ہے ۔ ہم سب کو اللہ تعالی سے دعا مانگنی چاہئے کہ ہم غرور اور رعونت سے ہمیشہ دور رہیں ۔ سوال یہ ہے کہ سیاستدانوں اور صحافیوں کے ساتھ جو کچھ فیض حمید کرتا رہا وہ سب آج بند ہو چکا ہے ؟ تین سال پہلے تو صرف مجھ پر پابندی تھی ۔ آج چھ سات اینکرز پر پابندی ہے ۔ میں جب بھی ٹی وی اسکرینوں سے غائب ہونے والے ان اینکرز کو دیکھتا ہوں تو مجھے فیض حمید یاد آجاتا ہے ۔ میں ہاتھ باندھ کر عرض کرتا ہوں کہ میری فیض حمید سے جان چھڑائیے ۔ میں اُسے یاد نہیں کرنا چاہتا۔ فیض صرف ایک انسان نہیں ہے ۔ وہ ایک مائنڈ سیٹ ہے۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اس مائنڈ سیٹ کو بھی شکست دیدیں تو یہ پاکستان پر انکا احسان ہوگا۔