• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت کے لیجنڈری اسپیکر پریم شنکر جھا کا قول ہے کہ اسمبلی کے اسپیکر کے گلے میں کا نٹوں کا ہار ہوتا ہے، وہ اِدھر جھکے یا اُدھر جھکے، دونوں ہی طرف کانٹے ہوتے ہیں۔ پریم شنکر جھا کا یہ قول میاں منظور احمد وٹو نے1990ء میں فرنٹیر پوسٹ کے ایک انٹرویو کے دوران سنایا تھا، یہ قول میرے ذہن میں نقش ہوگیا، لگتا ہے کہ میاں منظور وٹو کی ساری زندگی کانٹوں سے بچ بچاکر نکلی اور وہ عمر بھر اپنے راستے کے کانٹے ہٹاکر آگے سے آگے بڑھتے رہے، اس قلم کار کا میاں منظور وٹو سے تعلق40 سال پر محیط ہے، اس دوران انکے عروج و مشکل کے لمحات کا چشم دید گواہ بھی ہوں اور انکے تحمل و برداشت سے سیکھنے کا روادار بھی۔ میاں منظور وٹو کو کوئی بھی کامیابی آسانی سے نہیں ملی، انکے راستے میں وٹے اور مشکلات کے پہاڑ آتے رہےمگر وہ فرہاد کی طرح ایک ایک پتھر ہٹاکر اپنا راستہ بناتے رہے۔ اندازہ کریں کہ حویلی لکھا کا ایک درمیانی درجے کا زمیندارجس کا والد علانیہ احمدی تھا، ہمارے جیسے مذہبی شدت پسند معاشرے میں کیسے آگے بڑھا؟ اسکے والد نہ سیاسی رہنما تھے اور نہ ہی کبھی انتخابی میدان میں اترے تھے۔ اردگرد میاں یاسین وٹو جیسا سیاسی برگد تھا، غلام محمد احمد خان مانیکا جیسا بااثر موجود تھا، ایسے میں انہوں نے اپنا سیاسی مقام کیسے بنالیا؟ سیاست کے صوبائی میدان میں نوازشریف اور چوہدری پرویز الٰہی ان سے کہیں بڑے نام تھے، ان سے زیادہ طاقتور، بااثر، مال دار اورمقبول تھے،مگر انہوں نے دونوں کو مات دیکر پنجاب کی وزارت اعلیٰ حاصل بھی کی اور اسے ڈٹ کر چلایا بھی۔ یہ فتح انکی عقل، فہم و فراست کا نتیجہ تھی یا پھر وہ صرف حالات کی پیداوار تھے؟ بڑے جوڑ میں آئے تو بینظیر بھٹو، حامد ناصر چٹھہ اور مولانا فضل الرحمن سے ڈیل کرنا پڑا۔ بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں وزن بڑھانے کیلئے نوابزادہ نصر اللّٰہ خان اور مولانا فضل الرحمن کا وزن اپنے پلڑے میں ڈال کر اکڑے رہے۔ 3بار اسپیکر پنجاب اسمبلی، 3بار وزیراعلیٰ پنجاب اور پھر وفاقی وزیر بنے، اکلوتا، اکیلا، متوسط اور پینڈو نے ہر چوٹی کو سر کیا۔ وٹو کے راستے میں وٹے آئے یا کانٹے آئے وہ پلکوں سے انہیں چنتا رہا اور آگے بڑھتا بڑھتا موت کی وادی میں اتر گیا، جہاں کوئی کانٹا اور وٹہ نہیں ہوگا اسکی ابدی نیند پرسکون ہوگی۔

میاں منظور وٹو پر گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی خان کی نظر پڑی تو جہاں انہوں نے نئے چہرے نوازشریف کو ملک اللّٰہ یار کھنڈا، مخدوم حسن محمود، چوہدری پرویز الٰہی اور کئی پرانے شناسا چہروں پر ترجیح دی، وہیں تحریک استقلال کے پرانے ورکر منظور وٹو کو جو پہلی بار رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے، انہیں صوبائی اسمبلی کے اسپیکر کیلئے نامزد کروا دیا، جنرل غلام جیلانی تمام عمر انٹلیجنس سروس سے وابستہ رہے تھے، جنڈیالہ شیر خان کے پٹھان تھے مگر باریک بین تھے، انکے منتخب کردہ دونوں اشخاص مستقبل کی سیاست میں اپنی اپنی جگہ اس طرح چمکے کہ جنرل جیلانی کی نگاہ انتخاب کی داد دینی پڑتی ہے۔ منظور وٹو صوبائی کونسل کے ممبر اور بلدیاتی اداروں کے متحرک اور موثر نمائندے تھے۔ شاید یہی انکی اسپیکر بننے کیلئے اہلیت ثابت ہوئی۔

بڑے آدمی کے مسئلے بھی بڑے ہوتے ہیں، منظور وٹو کی دو شادیاں تھیں، ایک شادی سے بچے ہونے میں تاخیر ہوئی تو دیہاتی رواج کے مطابق انکی دوسری شادی کردی گئی، دلچسپ واقعہ یہ ہوا کہ دوسری شادی کے بعد پہلا بچہ پہلی اہلیہ سےہی ہوا، اکثر دو شادیوں والے گھریلو جھگڑوں سوتنی لڑائیوں اور اصلی وسوتیلے بچوں کے مسائل میں گھر کر زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں، مگر منظور وٹو نے مذہبی رکاوٹ کی طرح عائلی رکاوٹ کو بھی اس خوش اسلوبی سے دور کردیا کہ انکی ہر بیٹی ایک ہفتے کیلئے باپ کی دیکھ بھال، کمرے کی ٹپ ٹاپ، دوائیاں اور خوراک دینے پر مامور ہوتی، یہ ڈیوٹی ہر بیٹی کو اسکی باری پر تفویض ہوتی تھی، اس سے انہیں والد کا قرب بھی ملتا اور انکی تربیت بھی ہوجاتی۔ بیویوں کے دن اور انکے فرائض بھی طے تھے، ایک مدت تک ایک اہلیہ گاؤں اور دوسری اہلیہ شہر رہتیں۔ شہر والی اہلیہ کے پاس سب بچے رہ کر پڑھتے تھے اور گاؤں والی انہیں دودھ، مکھن، آٹا اور شہد بھیجتی تھی۔ بیٹوں کی تربیت بہت سخت تھی، گھر میں مہمان آتے تو بیٹے کھانا خود پیش کرتے۔ مہمان کھانا کھاتے تو سب صاحبزادے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے کہ کب کسی کو کوئی ضرورت پڑے اور وہ خدمت سرانجام دے کر والد کو خوش کریں۔

وٹو صاحب سراپا سیاست تھے، انہیں سیاست سے جنونی عشق تھا، میری40سال پہلے انکے تحریک استقلال کے ساتھی اور میرے مہربان منیر احمد خان نے ان سےملاقات کروائی۔ لکھاری کا اوڑھنابچھونا، علم و سیاست کی گتھیوں کی جستجو ہے، اسلئے40سالوں میں ان سے سیاست پر ہی گفتگو رہی، کبھی بطور وزیراعلیٰ ان کیساتھ کلب روڈ کے لان میں واک کرنے کا موقع ملا تو کبھی انکے گاؤں جاکر ان سے سرگوشیوں کیں۔ غرضیکہ بطور وزیراعلیٰ ان کاتزک و احتشام بھی دیکھا اور انکے مشکل ترین سیاسی لمحے کا مشاہدہ بھی کیا، جب ان کیخلاف عدم اعتماد آئی تو وہ لٹے پٹے نون کے ماڈل ٹاؤن دفتر پہنچے، بجائے اس کے کہ انکا خندہ پیشانی سے استقبال کیا جاتا، انہیں جان بوجھ کر سنایا گیا۔ ’’اللّٰہ جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت‘‘ اس سرد استقبال کے بعد طے ہوگیا کہ وٹو کیلئے نون میں کوئی جگہ نہیں ۔ پیپلز پارٹی سے وہ پہلے ہی ناراض تھے، اب جاتے تو کہاں جاتے۔

مجھے یاد ہے کہ ایک بار وزیراعلیٰ ہاؤس کے لان میں چہل قدمی کرتے ہوئے اپنی عمر سے بڑا مشورہ دینے کی کوشش کی اور کہا کہ آپ پنجاب پیپلز پارٹی کے صدر بن جائیں، چٹھہ لیگ یا وٹو لیگ تو کاغذی کشتی ہے، اسکی ناؤ تو کسی بھی دن ڈوب جائیگی۔ اس وقت اقتدار اور طاقت نصف النہار پر تھی، اس وقت وزارت اعلیٰ، وزارت عظمیٰ سے مضبوط محسوس ہورہی تھی اور صرف اس وقت کا انتظار تھا کہ کب کچھ ایسا ہوکہ دست غیبی سے لاہور سے اسلام آباد متمکن کردے کیونکہ نوازشریف بھی یہی روٹ اپنا چکے تھے، خیر وٹو صاحب نے میرے مشورے کے جواب میں کہا کہ ابھی میرے18 ایم پی ایز ہیں، اگلے الیکشن میں50ہوں گے، پھر نہ نون اور نہ پیپلز، دونوں ہمارے بغیر حکومت نہیں بناسکیں گی۔ وٹو صاحب نے زندگی کے کانٹے تو چن لیے، اپنے راستے میں آنیوالے پتھر اور وٹے بھی ہٹا لیے مگر انکے کئی خواب ادھورے بھی رہ گئے۔

ایک زمانے میں انہوں نے اپنے اثاثے اخبارات میں شائع کروائے اور چیلنج کیا کہ ان کی ایمانداری پر کوئی انگلی تو اٹھائے، جنرل مشرف کا دور تھا، نیب کے دانت تیز تھے، وٹو صاحب کو جیل بھیج دیا گیا، انہوں نے ’’جرم سیاست‘‘ لکھ کر غبار نکالا مگر پھر بالآخر جنرل مشرف کے ساتھی بن گئے، سب کے ہمدرد چوہدری طارق عزیز صاحب کا م آئے اور وہ وفاقی وزیر صنعت بن گئے، یہی انکا آخری عہدہ تھا، جس پر وہ فائز ہوئے۔ وٹو صاحب کا عروج انکے تحمل و برداشت کا مرہون منت تھا، وہ زندگی بھر ایک اچھے اور آئیڈیل اسپیکر کی طرح حزب اقتدار اور حزب مخالف کو ساتھ لے کر چلتے رہے۔

وٹو تو کئی نامور ہوئے ہیں، غلام محمد احمد خان مانیکاوٹو، یسین خان ٹھکر کا وٹو، عطاء مانیکا وٹواور خادم حسین کالو کا وٹو مگر منظور احمد تاجیکا وٹو ان سب سے کمزور پس منظر سے آیا اور شہرت و کامیابی میں وٹوؤں کا تاج ٹھہرا۔ تاجیکا وٹو تھا تو تاج بننا تو بنتا تھا…

تازہ ترین