• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی ایک سفر کے لاتعداد تغیرات میں سے گزرنے کا نام ہے ، چاہے یہ ذہنی میدان ہو، جذباتی یا جسمانی ۔ ان برسوں کے دوران انسان اپنے خوابوں کی تعبیر کیلئے ضروری صلاحیتیں حاصل کرتا ہے ۔تاہم جسمانی طور پر وہاں موجود ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ انسان نے اپنی مرضی کی منزل حاصل کرلی ہے ۔ بعض اوقات اس کا صرف یہ مطلب ہوتا ہے کہ آ پ اپنی منزل سے مزید دور آ گئے ہیں ۔ ایسے تجربات سے تسلسل سے گزرتے ہوئے زندگی نہ ختم ہونے والے سفر کا روپ دھار لیتی ہے ، جس میں بعض اوقات ایسا تاثر بھی ملتا ہے کہ آپ کی منزل قریب آ گئی ہے ،جبکہ آپ منزل سے مزیدد ور ہو چکے ہوتے ہیں ۔

ایسا وقت بھی ہو تا ہے جب منطق کے کڑے اصول آپ کیلئے فیصلہ لکھ دیتے ہیں ۔ دوری منزل کی اہمیت اور مناسبت کو زائل کر دیتی ہے ۔ اس وقت انسان تمام بندھن توڑ کر آزاد ہوجانا چاہتا ہے ۔ ایسے حالات میں امید اور توقع سے تہی دامن زندگی ایک چکردار حرکت کا شکار ہوجاتی ہے جس میں انسان ایک مایوسی سے دوسری مایوسی کے درمیان سرگرداں رہتا ہے ، ایک دل شکنی کے بعد دوسری دل شکنی اس کے درپے ہوتی ہے ۔ مایوسی کی ایسی دبیز دھند میں انسان آگے بڑھنے کا حوصلہ کھو دیتا ہے ۔ موجودہ ماحول میں یہ تاثر واضح ہے کہ ہم ایسے ہی وقتوںمیں جی رہے ہیں ۔ سنگین حد تک ناقص نظام ، جس کا ہر ادارہ منہدم ہو چکا ہے ، کی گرفت میں جہاں انسانی ضمیر کا سودا نہایت ارزاں داموں ہوجاتا ہے ، اس میں عقل و شعور سے جینا بھی ایک بنیادی چیلنج ثابت ہوتاہے ۔

تاہم شواہد حوصلہ افزا نہیں ۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران ایک بڑی تعداد میں انسانوں کی اس ملک سے ہجرت ،جس میں وقت گزرنے کے ساتھ کوئی کمی نہیں آ رہی ، سےمستقبل کے ساتھ جڑی امید کی فضا تیزی سے دھندلی ہوتی جا رہی ہے ۔ میں نے ایسی مایوسی کبھی نہیں دیکھی جب لوگ اپنے اور اپنے خاندان کا مستقبل بنانےکیلئے جان جوکھم میں ڈال کر دنیا کے کسی بھی کونے میں جا بسنے کیلئے تیار ہوجائیں۔ اگرچہ معاشی غیر یقینی اس وسیع ہجرت کی ایک بڑی وجہ ہے ، لیکن لوگ اپنے خاندانوں کے تحفظ اور سلامتی بارے بھی فکر مند ہیں ۔ دہشت گردی کی سر پر لٹکتی تلوار کا سایہ اس وقت مزید گھمبیر ہوجاتا ہے جب انسان دیکھتا ہے کہ ادارے مہندم ہوتے جارہے ہیں اور انصاف کی فراہمی کی کوئی ضمانت نہیں ۔ 26 ویں اور 27 ویں ترامیم کی منظوری نے اس رہی سہی امید کا بھی گلا گھونٹ دیا ہے کہ شایدنظام اپنی کبھی سالمیت اور شفافیت کی طرف لوٹ آئے ۔ ایسا کچھ نہیں ہوا ہے ، اور نہ ہی مستقبل قریب میں ہوتا دکھائی دیتا ہے ۔ اس کیفیت نے نظام کی گراوٹ کے بحران کو مزید نمایاں کردیا ہے ۔ معاشرے میں اتحاد اور ہم آہنگی کی عدم موجودگی سے صورت حال کی سنگینی بڑھ گئی ہے۔ تقسیم کی دراڑیں وقت کے ساتھ ساتھ گہری ہوتی جا رہی ہیں جبکہ انامنطق اور عقل پر حاوی ہے۔ اس نےسیاسی منظر نامے کو مزید داغ دار کر دیا ہے۔

پی ٹی آئی پر پابندی ایک مستقل رجحان بن چکا ہے، جس سے سماجی صفوں میں گہری تقسیم پیدا ہو رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاستی طاقت کےبے دریغ استعمال کے باوجود نہ صرف پارٹی نے اپنا بچاؤ کیا ہے بلکہ عمران خان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے ردعمل میں وہ تنہائی کی اذیت کا شکار ہیں یہاں تک کہ ان کے اہل خانہ اور وکلاکو بھی ملاقات کی اجازت نہیں۔ عدالتی احکامات کے باوجود ایسا ہورہا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی کو بھی اس ملک کی قسمت کی فکر نہیں جو کثیر جہتی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ معاشی یا سماجی نجات کیلئے اعتماد پیدا کرنے کے امکانات معدوم ہیں۔ تنازعات کے بادلوں کے گہرے ہونے کے ساتھ جیواسٹرٹیجک پیچیدگیاں ایک بڑے عنصر کے طور پر ابھری ہیں۔ یہ وقت سرحدوں پر تحمل سے کام لینے اور ملکی محاذ پر تدبر اور رواداری کے ساتھ آگے بڑھنے کا ہے۔ایک سیاسی جماعت کو پیچھے دھکیلنے اور دوڑ سے باہر کرنے کا فلسفہ کارگر ثابت نہیں ہوا، بلکہ اس سے معاشرے میں مزید تقسیم اور تفرقہ پیدا ہوا ہے۔ نہ تو ہم نے ماضی کے تجربات سے کچھ سیکھا ہے اور نہ ہی اب ایسا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں پر پابندی سے کبھی فائدہ نہیں ہوا۔ یہ موجودہ بحران سے نکلنے کا راستہ فراہم نہیں کرتا۔ عوام کو دور بھگانے کی بجائے عقل اور منطق کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھیں ساتھ رکھنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔

طاقت کے دو ہی مراکز ہیں۔ ایک عمران خان جن کی قانونی حیثیت وسیع پیمانے پر عوام کی حمایت رکھتی ہے جیسا کہ 8 فروری کے انتخابات میں اور اسکے بعد سے کیے گئے تمام سرویز میں واضح طور پر ظاہر ہوا تھا۔ دوسرا اسٹیبلشمنٹ متنازعہ آئینی ترامیم کے ذریعے نظام کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔ باقی ان دونوں کے درمیان تصادم سے فائدہ اٹھانے والے موقع پرست ہیں۔ ان کیلئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کو جگہ فراہم کریں اور کشیدگی کی وجہ سے ابھرنے والی ان فالٹ لائنوں کو دور کرنےکیلئے وسیع البنیاد بات چیت کاآغاز کریں ۔گرچہ عمران خان ایک زبردست اثاثہ ہے جسے گھناؤنی اور من گھڑت سازشوں کی قربان گاہ یا مفاد پرست حکمران اشرافیہ کے منفی ہتھکنڈوں کی بھینٹ نہیں چڑھایا جا سکتا۔ اسٹیبلشمنٹ کے پاس بھی ایسی طاقت ہے جس سے چشم پوشی ممکن نہیں۔ ان کیلئے بامعنی بات چیت کرنے کیلئے میز سے بہتر کوئی میدان نہیں۔ اکیلے عمران خان نے قربانیاں دی ہیں، جیسا کہ وہ حقیقی طور پر آزاد پاکستان کیلئے جاری رکھے ہوئے ہیں، جبکہ حکمران سیاسی اشرافیہ نے اپنی جاہ طلبی اور ہوس کو مکاری سے وضع کردہ اس نظام کے پیچھے چھپایا ہوا ہے۔ پاکستان طویل انتقامی بیانیے کے نتائج کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ گہری دلدل سے نکلنے کے راستے کو امید اور ہمدردی کی شمعوں سے روشن کرنا چاہیے نہ کہ اس میں سختی اور انتقام کے کانٹے بچھائے جائیں۔حتیٰ کے بھول بھلیوں میں بھی مرکز تک جانے کا ایک راستہ ہوتا ہے ۔ ہم اس سے گریزاں کیوں ہیں ؟

(کالم نگار پی ٹی آئی کے رہنما ہیں)

تازہ ترین