جارج اور ویل نے مشہور زمانہ فکشن 1984ء اورAnimal Farm لکھ کر مستقبل کی دنیا اور حالات کے بارے میں قیاس آرائیاں کیں۔ اسی طرح ایچ جی ویلز نے1898ﷰء میں War of the worldsلکھ کر مریخ سے زمین پر ایک فرضی خلائی حملے کی کہانی لکھی جس کی ڈرامائی تشکیل کو ریڈیو پر سنکر کئی لوگ سمجھے کہ واقعی مریخ نے زمین پر حملہ کر دیا ہے۔ آج کا گرینڈ پلان اس شاہکار ادب کی ایک بھونڈی نقل ہے کیونکہ یہ ایک ٹٹ پونجیے صحافی کی تشکیل و تخلیق ہے اسلئے نہ اسے سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے نہ اس پر یقین کریں اور نہ ہی اسےسچ سمجھا جائے۔ وہ ادیب بڑے لوگ تھے بڑی سوچ رکھتے تھے یہ صحافی چھوٹی سوچ رکھتا ہے اکثر ’’جھوٹ‘‘ اور من گھڑت کہانیاں لکھتا ہے یہ بھی ایک ویسا ہی جھوٹ ہے۔ نئی حکومت، نظام یا فرد کے بارے میں یہ جاننا کہ وہ مستقبل میں کیا کرنیوالا ہے ایک قدرتی سوال ہے مگر موجودہ حکومت اور نظام نے کبھی اپنے مستقبل کے ارادوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا چنانچہ یہ ایک فرضی خاکہ ہے جو سراسر قیاس پر مبنی ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کی ڈائریوں سے، جو اَب شائع ہو چکی ہیں، صاف پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے پہلے سے مستقبل میں کئے جانیوالے اقدامات طے کر رکھے تھے۔ جو بھی حکومت آتی ہے وہ بتائے نہ بتائے اسکے پیش نظر ایک پلان ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف، بینظیر بھٹو، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف سب کے ملک کو بہتر کرنے کیلئے اپنے اپنے پلان تھے کوئی ان پر عمل کر سکا یا نہیں مگر ہر ایک کے ملکی نظام اور حکومت کے بارے میں خواب ضرور تھے۔ جنرل باجوہ آئے تو پتہ چلا کہ باجوہ ڈاکٹرائن کی سوچ کیا تھی اور وہ کس حد تک نافذ العمل ہو سکی۔ موجودہ نظام اور حکومت کے گرینڈ پلان کا کسی کو علم نہیں کیونکہ نہ کبھی اس بارے میں کوئی اعلان ہوا اور نہ ہی نظام اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اعلان کرنا ضروری ہے۔ موجودہ حکومت اور نظام کے گرینڈ پلان کا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ اسے ’’خاموشی ہے زباں میری‘‘ پر یقین ہے۔ یہ اقوال پر کم اور اعمال پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔
موجودہ نظام کے گرینڈ پلان پر افواہوں کا بازار گرم ہے۔ کہیں نئی شیروانیاں سلوا نے کی چہ میگوئیاں ہیں تو کہیں مارچ اپریل کی سرگوشی ہے، میرے خیال میں یہ سب جھوٹ ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کامیاب وزیراعظم ہیں مقتدرہ اور انکا ورکنگ ریلیشن انتہائی شاندار ہے۔ مقتدرہ کےپاس تحریک انصاف سے جاری کشمکش میں شہبازشریف سے اچھی اور بہتر شاید کوئی چوائس نہیں اسلئے تبدیلی کی کوئی بھی منطقی دلیل نہیں۔ تاہم موجودہ سیاسی حکومت پر ناقدین کے اس اعتراض میں حقیقت ہے کہ یہ کوئی سیاسی بیانیہ بنانے اور اسے مقبول کرنے میں ناکام رہی ہے اور اس حکومت کے حامی بھی اسکی ’’ڈیلیوری‘‘ سے مطمئن نہیں ،اسی عدم اطمینان سے گرینڈ پلان کی کہانی جنم لیتی ہے جو ظاہر ہے قیاس پر مبنی ہے اور جسکا کوئی مادی ثبوت نہیں، مگر اندازہ کہتا ہے کہ گرینڈ پلان میں ایک ’’ونڈر بوائے‘‘ کی ضرورت کو محسوس کیا جاتا ہے۔ شہباز شریف سونا ہیں مگر اب سونے نہیں ہیرے کی ضرورت آن پڑی ہے کیونکہ برسوں کے تساہل کو ہیرے جیسا ونڈر بوائے ہی ختم کرسکتا ہے۔ خواہشیں چاہے پوری ہوں یا نہ ہوں ان پر کوئی قید نہیں، اسلئے یہ خواہش تو کہیں نہ کہیں موجود ہے کہ وفاقی کابینہ کے ارکان بنگلہ دیش کی طرح پی ایچ ڈی ہوں ،اپنے اپنے شعبوں پر اتھارٹی رکھتے ہوں اور ان سب کیلئے یہ شرط بھی ہو کہ انہوں نے پی ایچ ڈی دنیا کی کسی مستند یونیورسٹی سے کر رکھی ہو ۔
میری عقل اور منطق ان فرضی قیاس آرائیوں سے مطمئن نہیں اور پھر اس گرینڈ پلان کے مفروضے میں سب سے بڑی رکاوٹ تو یہ ہے کہ نظام کی کشتی اگر سیاسی بوجھ اتار کر ہلکا ہونا چاہتی ہے کہ سبک رفتاری سے چل سکے تو سوال یہ ہے کہ سیاسی سامان کس اسٹیشن پر اتارے اور کیا یہ سامان کشتی سے اترنے کے بعد کسی مخالف کشتی میں سوار تو نہیں ہو جائیگا؟ قیافہ شناس دلیلوں کے جواب میں کہتے ہیں کہ سیاسی سامان ہاتھ پائوں کٹا ہے ، اس میں طاقت ہے نہ رسوخ، اسکی بہتری ایک ہی قبلے اور ایک ہی امام کے پیچھے ہے،وہ چپ چاپ سر جھکائے ساتھ ہی رہیگا۔ قیاس آرا کا خیال ہے کہ گرینڈ پلان کو تقویت ’’قومی حکومت‘‘ کے آئیڈیا سے ملے گی ایسی قومی حکومت جس میں سب سیاسی جماعتیں ہونگی موجودہ سیاسی اتحادی تو ہونگے اگر عمران خان، دباؤ یا دلیل سے مان گئے تو فَبِہا۔ اگر نہ مانے تب بھی انکی جماعت کا ایک موثرجتھہ اس قومی حکومت کا حصہ ہوگا۔ افواہ ساز سے پوچھا کہ ملک میں ایک پارلیمان ہے، کابینہ ہے، پوری حکومت ہے انکی موجودگی میں گرینڈ پلان پر عمل کیسے ہوگا؟ افواہ ساز کے پاس کوئی معقول دلیل تو نہ تھی مگر اسکا گھڑا گھڑایا جواب یہ تھا کہ یہی پارلیمان چلتی رہے گی تبدیلیاں کسی بھی الیکشن کے بغیر ہونگی اور پیدل چلتا ہوا یہ نظام گرینڈ پلان کے بعد دوڑنے لگے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہر تین جماعتوں کی وراثتی سیاست اور اجارہ داری ہےجبکہ نظام کی عمران خان پر ابھی تک کی سوچ ایک غدار یا غیر محب وطن کی ہے جو افواج پاکستان کو ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت کمزور کر کے غیر ملکی ایجنڈے کو فائدہ پہنچانا چاہتا ہے مگر باقی سیاسی جماعتیں بھی نظام کی نظر میں دودھ کی دھلی نہیں۔ نظام ایک صوبے میں کرپشن پر ذہنی اضطراب کا شکار ہے تو دوسری طرف دوسرے صوبے میں ثمرات زمینی سطح پر نہ پہنچے پر شاکی ہے، تیسرا صوبہ انصافی ہے وہ ویسے ہی نظام کی آنکھ میں کھٹک رہا ہے۔ اب نظام اور موجودہ سیاست کا تعلق اگر اتنا ہی غیر ہموار ہے تو لوگ گرینڈ پلان کی افواہیں تو اُڑائیں گے یہ افواہیں جتنی بھی جھوٹی ہوں یہ تو طے ہے کہ ریاست، حکومت سے مطمئن نہیں توزیادہ غیر مطمئن میں بھی نہیں۔
گرینڈ پلان کی کوئی حقیقت ہے یا نہیں مگر کئی لوگ اس میں شمولیت کیلئے ابھی سے تیار ہیں کئی تو ماضی کی روایت کے مطابق مفاد پرست ہیں جو ماضی کی طرح ہر نئے گھوڑے پر سواری کیلئے تیار رہتے ہیں جبکہ کئی درد دل رکھنے اور ملک کو سنوارنے والے بھی اس گرینڈ پلان کی ٹرین پر سواری کے انتظار میں ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں بہت سے انتخابی گھوڑے جنکے وراثتی حلقے موجود ہیں وہ بھی توقع کر رہے ہیں کہ کچھ نیاہوگا تو وہ اگلا بڑا سیاسی فیصلہ کرینگے۔ ان میں خاموش بیٹھنے والے، الیکشن ہارنیوالے اور کئی ایک نونیئے اور پپلیے بھی شامل ہیں ان سب کا خیال ہے کہ گرینڈ پلان تادیر چلنے والا ہے اسلئے اس نئے سیاسی ٹرک پر سواری میں بحفاظت لمبا سفر انکی سیاسی عمر اور قدر و منزلت بڑھائیگا۔مجھے ان سب افواہوں اور کہانیوں پر شک ہے مگر جب سیاسی مستقبل کے بارے میں ایک پراسرار اور مکمل خاموشی ہوگی توایک صدی سے زائد سیاست میں زندہ رہنے والی قوم، سیاسی گپ شپ اور سیاسی اَسپ دوڑائے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ اس قوم کے مزاج میں سیاست دخیل ہے، مردوں کی محفل میں موضوع کوئی بھی ہو بات بالآخر سیاست پر جاپہنچتی ہے ان محفلوں کا سب سے بڑا موضوع تو عمران کا مستقبل ہوتا ہےاور آجکل دوسرا موضوع پاکستان کا سیاسی مستقبل اور گرینڈ پلان ہے۔ سو یہ آج کی خامہ فرسائی اسی فرضی قیاس پر ہے جو گرینڈ پلان کے گرد گھومتا ہے، یہ ہوگا یا نہیں؟ یہ ہے یا نہیں؟ مجھے کچھ علم نہیں....