• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شوگر انڈسٹری کی ڈی ریگولیشن معاشی اصلاحات یا پالیسی کی ناکامی؟

اسلام آباد (خالد مصطفیٰ) شوگر انڈسٹری کی ڈی ریگولیشن،معاشی اصلاحات یا پالیسی کی ناکامی؟ حقیقت میں یہ ایک اسٹریٹجک پالیسی ناکامی ہے: پاکستان میں کپاس کی کاشت کو خطرہ اور معیشت کو دیرپا نقصان ۔ تفصیلات کے مطابق حکومت کی جانب سے پاکستان کی شوگر انڈسٹری کو ڈی ریگولیٹ کرنے کے فیصلے کو معاشی اصلاحات کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک اسٹریٹجک پالیسی ناکامی ہے، جو پاکستان میں کپاس کی کاشت کے خاتمے کا خطرہ پیدا کر سکتی ہے اور قومی معیشت کو طویل المدتی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ عدم توازن کو درست کرنے کے بجائے، شوگر کی ڈی ریگولیشن پاکستان کی سب سے قیمتی فصل کو مزید تیزی سے بے دخل کرے گی اور زراعت، برآمدات، آبی تحفظ اور دیہی روزگار سمیت مختلف شعبوں میں موجود کمزوریوں کو مزید گہرا کر دے گی۔ کپاس محض ایک اور فصل نہیں بلکہ پاکستان کی دیہی معیشت اور برآمدی شعبے کی بنیاد ہے۔ 13 لاکھ سے زائد کسان خاندان براہِ راست کپاس کی کاشت پر انحصار کرتے ہیں، جبکہ کپاس کی ویلیو چین سے وابستہ لاکھوں افراد روزگار کماتے ہیں۔ صرف کپاس کی چنائی ہی دیہی گھرانوں کے لیے اہم موسمی آمدن فراہم کرتی ہے، خاص طور پر خواتین کے لیے، جن کے لیے یہ اکثر آمدنی کا واحد خودمختار ذریعہ ہوتی ہے۔
اہم خبریں سے مزید