یہ بات میں نہیں کہہ رہا کہ حکومت جانے والی ہے ۔یہ بات نواز حکومت کو بچانے والی سرگرمیوں کی تیز رفتاری کہہ رہی ہے۔آصف زرداری اسی سلسلے میں امریکہ گئے ہوئے ہیں۔ نواز شریف اپنے اہل خانہ سمیت سعودیہ پہنچے ہوئے ہیں ۔ڈاکٹر طاہر القادری کو منانے والاحکومتی وفد تیار ہوچکا ہے۔اس حکومتی وفد میں گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور، وزیر مملکت پیرامین الحسنات، سابق وفاقی وزیر نورالحق قادری اور برطانیہ کی ایک اہم ترین سماجی شخصیت پیرسید لخت حسنین شامل ہیں ۔ جنہیں دو روز پہلے اسی مقصدکیلئے خصوصی طور پر پاکستان بلایا گیا ہے ۔
امریکہ نے تو کہہ دیا ہے کہ وہ پاکستان میں ایک مستحکم جمہوری حکومت چاہتے ہیں اور جب بھی امریکہ ایسی کوئی بات کہی ہے پاکستان میں تبدیلی ضرور آئی ہے۔سعودیہ ابھی تک خاموش ہے۔ کیونکہ پرویز مشرف کے معاملہ پر صحرائے عرب کے حکمران کچھ کچھ خفاخفا ہیں۔دبئی سے پرویز مشرف کو لے جانے کیلئے آیا ہوا جہاز دو دن انتظار کے بعد خالی پلٹ گیا تھا۔خیر پرویز مشرف تو عید کے بعد دبئی جانے والے ہیں۔ اب آتے ہیں اس حکومتی وفد کی طرف جو ڈاکٹر طاہر القادری کو منانے کیلئے بنایا گیا ہے۔
پیر سید لخت حسنین ایک بہت بڑے خیراتی ادارے کے سربراہ ہیں۔ جو پچاس سے زائد ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے بہت پرانے رفیق ہیں۔کسی زمانے میں باقاعدہ منہاج القران میں شامل تھے۔ڈاکٹر طاہرالقادری ان کا بہت احترام کرتے ہیں ۔بہت عزت دیتے ہیں ۔یقینا ًان کی بات وہ بہت غور سے سنیں گے اور جہاں تک ممکن ہوسکا کوشش کریں گے کہ پیر سید لخت حسنین ناراض نہ ہوں۔ مگرانقلاب میں راستے میں بڑی بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں ۔
سابق وفاقی وزیر نور الحق قادری کا تعلق فاٹا ہے ۔اس علاقہ میں ان کے پچاس سے زائد دینی مدرسے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انہیں بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے ۔ طالبان نے ان کے سگے بھائی کو شہید کیا اور ان کے اور بھی بہت سے قریبی لوگ طالبان کی دہشت گردی کا نشانہ بنے ۔ان کے اندر وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو ایک لیڈر میں ہونی چاہئیں مگرکافی عرصہ سے وہ سیاسی معاملات کو دور سے دیکھ رہے ہیں۔ڈاکٹر طاہر القادری کی نظر میں ان کی بے پناہ اہمیت ہے مگر اس بات امکان بھی کم نہیں کہ ڈاکٹر القادری انہیں اس بات پر قائل کرلیں کہ وہ حکومتی وفد کا ساتھ چھوڑ کر ان کی تحریک میں شامل ہوجائیں ۔
وفاقی وزیر مملکت پیر امین الحسنات پیر کرم شاہ کے صاحبزادے ہیں۔بھیرہ شریف میں ان کا عظیم الشان مدرسہ ہے جہاں ہزاروں طالب علم تعلیم حاصل کرتے ہیں۔وہ ایک بڑے عرصہ سے نون لیگ میں شامل ہیں مگر ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ بھی ان کے مراسم برے نہیں۔وہ کئی مرتبہ ڈاکٹر طاہرالقادری کوبھیرہ شریف اپنے ادارے میںبلا چکے ہیں۔ انہیں بھی پورا احترام دیا جائے گامگراس کا بات امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری ان کی ذات کے سبب کسی لچک کا مظاہرہ کریں گے ۔
گورنر پنجاب چوہدری محمد سرورکے ساتھ ڈاکٹر طاہرالقادری کی پرانی دوستی ہے مگریہ دوستی بھی اتنی بڑی نہیں کہ انقلاب کا راستہ روک سکے۔لیکن اصل سوال یہ ہے کہ یہ لوگ جا کر کہیں گے کیا۔کیا یہ وعدہ کریں گے کہ وہ جنہوں نے سولہ لوگ شہید کردئیے ہیں انہیں پھانسی پر چڑھایاجائے گا۔اس حکومتی وفد کے پاس کچھ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ ڈاکٹر طاہر القادری کودے سکیں۔لوگوں کی فلاح و بہود کیلئے ڈاکٹر طاہر القادری کے جو مطالبات ہیں انہوں نے وہ ان کے سامنے رکھ دئیے توحکومتی وفد کیا کرے گا وہ تو کہتے ہیں پچاس ایکڑ سے زیادہ زرعی زمین رکھنے پر پابندی عائد کی جائے اورتمام مزارعوں کو مفت زمین دی جائے تاکہ ہر کاشتکار خود زمین کا مالک ہو۔وہ تو کہتے ہیںجب تک کسی نوجوان کو روزگار نہیں ملتا اسے دس ہزار روپے ماہانہ الائونس دیا جائے۔وہ تو کہتے ہیں سرکاری زمین کے پلاٹ بنا کر تمام بے گھروں کو گھروں کیلئے مفت زمین اور ان کی تعمیرکیلئے آسان شرائط پر قرضے دئیے جائیں۔ کارخانوں کے منافع میں محنت کشوں کی پچاس فیصد شراکت ہو۔ یکساں نصاب کے تحت تعلیم لازمی اور مفت ہو،تمام شہریوں یکساں اور مفت علاج کی سہولت حاصل ہو۔ خواتین کو مردوں کے برابرمواقع دئیے جائیں ،مکمل سماجی اور معاشی تحفظ فراہم کیا جائے اور ان کے خلاف تمام امتیازی قوانین ختم کئے جائیں۔امیروں کے ٹیکس کی شرح کئی گنا بڑھا دی جائے ۔ متوسط طبقے پر کئی گنا کم کردی جائے ۔پانی ، بجلی ، گیس اور فون کے بلوں پر ٹیکس ختم کئے جائیں۔ چھوٹے اور بڑے ملازمین کی تنخواہوں میں غیر عادلانہ تناسب کم سے کم کیا جائے ۔
ان میں سے ایک مطالبہ بھی ایسا نہیں جو نون لیگ کی حکومت تسلیم کر سکے ۔ ایسی صورت میں پتہ نہیں سرکاری وفد کیا چیز ساتھ لے کر جائے اور کس طرح انہیں منانے کی کوشش کرے گا یہ بات میری سمجھ سے بالا تر ہے ۔لیکن یہ بات ہے کہ موجودہ حکومت خطرے میں ہے۔