• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ 1924ء کے دسمبر کی 24تاریخ تھی جب کوٹلی سلطان پور کے ایک غریب روایتی گھرانے میں ایک ایسے نونہال نے جنم لیا جسے خدا نے غیرمعمولی آواز سے نوازا تھا اس خداداد صلاحیت میں نکھارلانے کیلئے اس ننھے منے نے لڑکپن میں ہی ریاض شروع کر دیا تھا۔ گھر کا روایتی ماحول، اس پر غربت مستزاد! ایسی ’’عیاشی‘‘ اور ’’لغویات‘‘ کی اجازت کہاں تھی؟ حکم تھا کٹنگ کرو، لوگوں کے بال بنائو اور بس۔ حکم عدولی پر بارہا اس معصوم کو اپنے بڑے بھائی کے کڑوے کسیلے اور جلے کٹے الفاظ کا ہی نہیں ، برستے ہوئے جوتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ۔ ’’سچی لگن ہو تو پربت بھی دھول ہے‘‘ پھر کیا تھا کہ اندرون بھاٹی کے تھڑے سے بلند ہونے والی یہ آواز ایسی ابھری کہ براستہ ممبئی جنوبی ایشیا کے ہرگوشے ہر کونے میں اس کی گونج دلوں کو سکون دینے لگی۔
1942ء میں آل انڈیا ریڈیو کی وساطت سے سامنے آنے والی اس مدھر آوازکا جا دوہے کہ آٹھ پہروں میں سے کوئی ایک پہر ایسا نہیں ہو گا، جب برصغیر کے کسی نہ کسی خطے میں یہ جا دو چڑھ کر نہ بو ل رہا ہو۔ یہ دلوں کو چھوُ لینے والی پر کشش ا ٓواز جنوبی ایشیاء کے عظیم گلوکار محمد ر فیع صاحب کی تھی۔جس نے پدم شری ایو ارڈ ہی نہیں 6فلم فئیر ایو ارڈبھی اپنے نام کر لیے 26ہزار گیتوں کی بر سات کر تے ہو ئے نہ صرف ورلڈ گینزریکارڈبک میںاپنا نام لکھویا بلکہ لاکھوں کروڑوں انسانوں کے دلوں میں اپنا گھر بنوایا۔رفیع صاحب کے یہ ہزاروں گائے گیت اردو ہندی کے علاوہ مراہٹی، بنگالی، پنجابی اور آسامی زبانوں میںبھی مل جاتے ہیں۔ ان گیتوں میں انہوں نے مذہبی حمد و نعت،مرثیے، قوالی اور بھجن بھی ایسے دلنشیں انداز میں گائے کہ ان کی آواز میں ایک مقناطیسیت محسوس ہوتی ہے اوروہ اپنے عقیدت مندوں کو عجیب قسم کی طمانیت فراہم کرتے ہیں۔ 80ء کے بعد کتنے برس بیت گئے جب بھی جولائی کے اختتام کے دن آتے ہیں ہم اپنے من کی دنیا میں مو سیقی کی ایک ایسی محفل منعقد کرتے جس میں ان کی یادوں کے دئیے جلائے جاتے ہیں ان کی پرسوز آواز میں درد انگیز گیتوںکی لے سنتے ہوئے بار ہا آنکھیں نمنا ک ہو جا تی ہیں مگر ’’جانے والے کبھی نہیں آتے، جانے والے کی یاد آتی ہے‘‘ ہمیں ’’زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات‘‘ جب ان کے اچانک جانے کی خبر سن کر بے بسی و لاچاری کے عالم میںہم ادھر حیران پریشان سر گر داں تھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ’’کیا سے کیا ہوگیا‘‘ ’’دنیا وہی دنیا والے وہی، اک تارا نہ جانے کہاں کھو گیا‘‘۔ رفیع صاحب کا آخری نامکمل گیت ہم نے بیسیوں دفعہ سنا اور سچ تو یہ ہے کہ یہ گیت سنتے ہوئے اکثر ہماری آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔؎
’’تیرے آنے کی آس ہے دوست، پھر یہ شام کیوں اداس ہے دوست.....‘‘ مہکی مہکی فضا کہہ رہی ہے تو کہیں آس پاس ہے دوست.....‘‘آخری گیت سننے کے بعد ہم پھر ان کا ابتدائی گیت گنگنانے لگتے ہیں۔’’تیرے کوچے میں ارمانوں کی دنیا لے کے آیا ہوں،جگر میں درد دل میں ٹیس اور آنکھوں میں دو آنسو،ذرا تو دیکھ لے آکر میں کیا کیا لے کے آیا ہوں،وہ افسانہ محبت کا کبھی جو تو نے چھیڑا تھا،وہی افسانہ ہونٹوں پہ ادھورا لے کے آیا ہوں.....‘‘عظیم موسیقار نوشادصاحب نے محمد رفیع کو مخاطب کرتے ہوئے کیا خوب کہا ہے ؎
’’تجھے نغموں کی جاں اہل نظر یونہی نہیں کہتے،تیرے گیتوں کو دل کا ہم سفر یونہی نہیں کہتے،دکھی تھے لاکھ پھر بھی مطمئن تھے درد کے مارے،تیری آواز کی شبنم سے دھل جاتے تھے غم سارےتیری تا نوںمیں حسن زندگی لیتا تھا انگڑائی، تجھے اللہ نے بخشا تھا انداز مسیحائی،تو ہی تھا پیار کا اک ساز اس نفرت کی دنیا میں۔ارے غنیمت تھی تیری آواز اس نفرت کی دنیا میں.....‘‘موسیقارنوشادصاحب رفیع صاحب کے وہ استاد ہیں جن کا احترام ان کے شاگرد کے دل میں ایسے تھا کہ رفیع صاحب نے جب پہلی مرتبہ گاڑی خریدی تو سو چا کہ میں سب سے پہلے یہ گاڑی ڈرائیوکر کے اپنے استاد کے حضور پہنچوں ، والہانہ پن کی یہ کیفیت تھی کہ نوشاد صاحب کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی ایکسیڈنٹ کر بیٹھے۔بلا شبہ رفیع صاحب کے گائے ہوئے گانوں کی تخلیق کا کریڈٹ ساحر لدھیانوی اور شکیل بدایونی جیسے تخلیق کاروں کے ساتھ ساتھ بابائے موسیقی نوشادصاحب اور دلیپ کمارصاحب جیسے فنکاروں کو بھی جاتا ہے لیکن ان کی لا جواب آواز کا اتار چڑھائو بے مثال ہے یہ آواز جس آہنگ سے ملی اسی سے ہم آہنگ ہو گئی جس غزل جس گیت کو لے کر اٹھی اسے لازوال بنا گئی۔ اس آوازمیں ایسی لوچ، ایسی لچک ہے جو صداکاری کے ہر آہنگ ہر ڈھنگ میں ڈھل جاتی ہے۔ دکھ درد کے بول بولے تو لگا کہ خون جگر سے نہا کر واردات قلبی کے ساتھ نکلے ہیں شوخ اور چنچل گیت گائے تو محسوس ہوا کہ کا ئنا ت کی ساری خوشیاںساری شوخیاںساری شرارتیں انہی لبوں پر مرتکز ہو گئی ہیں۔’’نین لڑ گئی رے‘‘ سن لیجئے۔پیار کی نگریہ میں کچھ تو ہمرا بھی حق ہئی رے‘‘
مشکل سے مشکل گیت رفیع صاحب نے ایسی مہارت سے گائے ہیں کہ سننے والا بس سنتا ہی رہ جائے۔بیجوباوراکا گیت ’’اور دنیا کے رکھوالے‘سن درد بھرے میرے نالے‘‘ میں جس طرح آواز اٹھائی گئی ہے دنیائے موسیقی میں اس کی کوئی مثال نہیں مل سکتی اس طرح ’’مدھوبن میں رادیکاناچے‘‘ اور ہری رام من ترسے ترے درشن کو آج‘‘ کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ محمد رفیع کے گیتوں میں ایسی وارئٹی ہے کہ ان کی آواز سچوائیشن کے مطابق ڈھل کر نئی کہانی نیا فسانہ تشکیل دے دیتی ہے۔ المیہ کے ساتھ ساتھ طربیہ، کلاسیکل اور نیم کلاسیکل ہر طرح کے گیت انہوں نے منفرد انداز سے گائے ہیں۔ ان کے بہت سے گیت ہیں جو ہم نے سیکڑوں دفعہ سنے ہوں گے مگر پھر بھی جی ہے کہ بھر تا ہی نہیں۔
تازہ ترین