• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برسو ں پرُانی روٹین کے مطابق پچھلے ویک اینڈ پر بھی میں رات کو کافی دیر تک جاگتا رہا اور اتوار کو صبح کافی دیر سے بیدار ہوا۔ ناشتہ کرکے میں گھر سے باہر آیا اور سامنے روڈ پر لوکل بس کے کنڈیکٹر کو "بھاٹی گیٹ، بھاٹی گیٹ"کی آوازیں لگاتے دیکھا تو یونہی وقت گزاری کے لئے بس پر سوار ہوگیا اور بیرون بھاٹی گیٹ اسٹاپ پر اُتر گیا ۔ سرکلر روڈ پر فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے موچی گیٹ کی طرف روانہ ہوگیا۔ تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ فٹ پاتھ پر لوگوں کا ہجوم دیکھ کر رُک گیا اور ہجوم کے پیچھے جاکر ٹھہر گیا ۔سامنے دانتوں کا منجن بیچنے والا ایک شخص ہاتھ میں منجن کی دو تین چھوٹی بڑی ڈبیاں اُٹھائے منجن کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہا تھا ۔ "صرف دوتین دن کے استعمال سے ہی بیس بیس سال پُرانے دانتوں کے بد نما داغ مٹائے"، "دانت دودھ کی طرح سفید کرے"، وغیرہ وغیرہ اور آخر میں یہ جُملہ کہ"ویسے مارکیٹ میں اس بڑی ڈبیاکی قیمت پچاس روپے اور چھوٹی ڈبیا کی قیمت چالیس روپے ہے مگر یہاں کمپنی کی مشہوری کے لئے بڑی ڈبیا صرف بیس روپے اور چھوٹی ڈبیا صرف دس روپے میں، دس روپے ، دس روپے ، دس روپے "۔ اس منجن بیچنے والے کی جھوٹی سچی خود اعتمادی ، تقریر کرنے اور لوگوں کو بے وقوف بنانے کے فن سے میں کافی متاثر ہوا کہ اپنا کوئی دانت صحیح سلامت نہ ہونے کے باوجود اُس نے پہلی ہی تقریر میں دو درجن سے زیادہ ڈبیاں بیچ ڈالیں ۔ میں نے محسوس کیا کہ مجمع میں موجود کچھ لوگ تو واقعی منجن کی وجہ سے ہی وہاں موجود تھے مگر میری طرح کے کافی ایسے لوگ بھی موجود تھے جن کو منجن لینے دینے سے تو سرے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی مگر وہ صرف وقت گزاری کے لئے تقریر کو انجوائے کررہے تھے۔ خیر تھوڑی دیر یہ "تماشا "دیکھنے کے بعد میں آگے چل پڑا۔ لوہاری گیٹ کے قریب پھر ایک مجمع لگا ہوا نظر آیا ۔ یہاں جاکر دیکھا تو یہاں کا مقرر بھی پچھلے مقرر سے کچھ کم نہ تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ یہ دانت کے منجن کی بجائے یہ مختلف قسم کے تیل مثلاً سانڈے کا تیل وغیرہ بیچ رہا تھا ۔ یہاں بھی وہی لفاظی اور مداری پن اور آخر میں کمپنی کی مشہوری کے لئے بڑی بوتل صرف پچاس اور چھوٹی بوتل صرف بیس روپے کی ۔ تھوڑی دیر رُک کر میں آگے بڑ ھ گیا ۔ راستے میں چھوٹے بڑے مجمعے اور بھی دیکھے۔ کہیں بنگالی عامل بابے تو کہیں سوالاکھ سنیاسی بابوںنے میرے جیسے" نہلوں "کو اکٹھا کرکے مجمع لگایاہوا تھا ۔ میرے پاس چونکہ وقت کم تھا اس لئے میں کہیں رُک نہ سکا۔ میں اردو بازار سے ہوتے ہوئے مال روڈ پر آگیا۔مال روڈ پر تھوڑی دیر ہی چلا تھا کہ یہاں بھی ایک مجمع لگا ہوا دیکھا۔ حیران ہوا کہ ان مداریوں نے اب مال روڈ کو بھی نہیں چھوڑا۔ میں مجمع کے قریب ہوگیا۔ دیکھا تو یہاں بھی ایک شخص اُسی جذباتی انداز میں تقریر کررہا ہے ۔ تھوڑی دیر سننے کے بعد مجھے کچھ خاص سمجھ نہیں آئی کہ یہ شخص کیا بیچنے کی کوشش کررہا ہے ۔ مجبوراً میں نے مجمع میں کھڑے ایک شخص سے پوچھا کہ بھائی یہ کس قسم کا منجن بیچ رہا ہے ۔ وہ شخص میری بے وقوفی پر حیران ہوا اور پھر کہنے لگا بھائی یہ انقلابی منجن ہے ، انقلابی منجن ۔ اصلی خالص انقلابی منجن ۔ میں حیرا ن ہوا کہ یہ کیسا منجن ہے ؟میں نے دیکھا کہ تقریر کرنے والے شخص کے پیچھے ایک بڑا سا بینر لگا ہوا ہے جس میں مختلف قسم کے نعرے درج ہیں ، جیسے ، ہمارا انقلابی منجن ہی خالص منجن ہے، نقالوں سے ہوشیا ر رہیں ، پاکستان کا واحد ISO-9001سرٹیفائیڈ انقلابی منجن، ملتے جلتے ناموں سے دھوکا مت کھائیں ۔ نیز کرم فرماؤں کے لئے گزارش ہے کہ پورے پاکستان میں ہماری کوئی دوسری برانچ نہیں ہے وغیرہ وغیرہ ۔ میں یہ سب باتیں پڑھ کر ششدررہ گیا کہ یا اللہ یہ کیسا منجن ہے اور اس کا کیا استعمال ہے ۔ میں نے مجمع میں سب سے پیچھے کھڑے ایک شخص کو دیکھا ، جس کے پیروں میں پُرانے چپل اور تن پر پُرانے اور میلے کچیلے کپڑے تھے اور چہرے پر غربت ، پریشانی ، بے بسی ، بے وقوفی اور آس اُمید کے ملے جلے تاثرات تھے اور ماتھے کو غور سے اور ایک مخصوص زاویے سے دیکھنے پر ، جیساکہ پانچ سو روپے کے نوٹ کو ایک مخصوص زاویئے پر سورج کی روشنی میں دیکھنے سے ایک پتلی سی تاربنی ہوئی نظر آتی ہے جس کو تاجر عام طور پر نوٹ کے کھوٹے اور کھرے پن کی پہچان کے لئے استعما ل کرتے ہیں ،ایک لفظ لکھا ہوا نظر آیا جو صحیح طریقے سے پڑا تو نہیں جارہا تھا مگر "پھ"اور "د"کے حروف تہجی ضرور نظر آئے۔ میں نے جب اس شخص کے ماتھے کے اس لفظ کو غور سے دیکھ کر پڑھنے کی کوشش کی تو وہ پریشان ہوکر ایک طرف کو چلا گیا ۔ تھوڑی دیر رُکنے کے بعد میں بھی آگے چل پڑا۔ ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ اسی طرح کا ایک اور مجمع نظر آیا ۔ تجسس کے مارے میں اِدھر بھی رُک گیا اور مجمع میں شامل ہوگیا۔ یہاں کا مقرر اپنی تمام تر جوش ِخطابت کو بروئے کار لاکر تقریرکرنے کی کوشش کررہا تھا ۔ غور سے دیکھا تو یہاں بھی پچھلے مجمع کی طرح انقلابی منجن برائے فروخت تھا۔ یہاں بھی میں نے ایک شخص سے استفسار کیا کہ یہ کونسا انقلابی منجن ہے ۔ کہنے لگا یہ خالص دیسی انقلابی منجن ہے ۔ یہاں نوکری بھی ملے گی اور بجلی ، گیس کے بل بھی نہیں ہوں گے ، وغیرہ وغیرہ ۔ مجھے اس شخص کے کھرے پن ، معصومیت ، سادگی اور بے بسی پر بہت پیار آیا۔ میں نے اس شخص کا بھی ماتھا غور سے دیکھنے کی کوشش کی تو سچ پوچھیے اِ دھر بھی مجھے تقریباً وہی لفظ لکھا ہوا نظر آیا جو پچھلے مجمع والے شخص کے ماتھے پر لکھا ہوا نظر آیا تھا۔ سچ پوچھیے تو اس صورتحال پر میں کچھ پریشان سا ہوگیا ، کچھ گھبراسا گیا کہ یا اللہ یہ کیا ماجرا ہے اور یہ سب کیا ہورہا ہے !میں نے فوراً یہاں سے نکل جانے میں ہی عافیت سمجھی ۔ کافی دیر پیدل چلنے کی وجہ سے چونکہ میں کافی تھک چکا تھا اس لئے قریب بنے ہوئے چائے کے کھوکھے پر میں چائے پینے کے لئے بیٹھ گیا ۔ کھوکھے پر ساتھ والی فیکٹری کے کچھ مزدور بھی کام میں وقفہ کے دوران یہاں چائے پینے آئے ہوئے تھے۔ چائے کا آرڈر دینے کے بعد میں کھوکھے پر رکھا ہوا ٹی وی دیکھنے لگ گیا ۔ ٹی وی کا ریموٹ وہاں پر بیٹھے ایک مزدور کے ہاتھ میں تھا جو بلاوجہ یاکسی بیزاری کی وجہ سے ہر دو منٹ کے بعد چینل تبدیل کررہا تھا ۔ پہلے ایک چینل لگایا جس پر کوئی اعلیٰ حکومتی عہدیدار کسی بڑے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ رہا تھا اور اپنی حکومت کے کارنامے بتا رہا تھا۔ ایک دوسرے چینل پر اپوزیشن کا ایک آدمی حکومت کے لِتے لے رہا تھا ۔ ایک اور چینل پر کوئی انقلابی لیڈر انقلاب کی نوید سنا رہا تھا۔ بار بار ریموٹ سے چینل تبدیل کرنے والے مزدور نے آخر بیزار ہوکر ٹی وی بند کردیا اور ریموٹ پھینکتے ہوئے بڑُ بڑُایا ، "سب ڈرامہ بازی اے، غریب دا کوئی نئی ایتھے"(سب ڈرامہ بازی ہے ، غریب کا یہاں کوئی نہیں ہے )۔میں چائے ختم کرچکا تھا ۔ بل ادا کرکے سڑک پر آگیا ۔ ساتھ ہی ایک بس رُکی اور کنڈیکڑ نے سمن آباد ، سمن آبادکی آواز لگائی اور میں جھَٹ سے سوار ہوکر گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔
تازہ ترین