کراچی(اسٹاف رپورٹر) شہر قائد کے نومنتخب میئر وسیم اخترنے کہا ہے کراچی کے عوام کے مسائل جیل سے بیٹھ کر حل کروں گا، مجھے جیل میں رکھنے کا کیا فائدہ اگر مرد کے بچے ہو تو 12 مئی کا کیس مشرف پر چلائو اور آرٹیکل 6 لگائو، ڈی جی رینجرز سے درخواست کروں گا کہ ہمیں ملکر ملک کیلئے کام کرنا ہے، جانتا ہوں کہ آپ لوگ جانوں کا نذرانہ دے رہے ہیں تاکہ شہر میں امن قائم ہو، ہم میجر جنرل بلال اکبر کے ساتھ ہیں، ہم کراچی میں امن چاہتے ہیں اسلئے مل کر امن قائم کریں گے، اگر مجھے ضمانت نہ ملی تو وزیراعلی سے درخواست کروں گا کہ سینٹرل جیل میں دفتر دیا جائے اور ایسے رولز بنائے جائیں یا ترمیم کی جائے جس کی وجہ سے عوام کا مجھ سے رابطہ ہوسکے۔ بدھ کوکراچی میں میئر و ڈپٹی میئر کے انتخابات کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وسیم اختر نے کہا کہ ہماری جیت کراچی کے لوگوں کی جیت ہے جس پر ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں، کراچی والوں نے اتنے مشکل حالات میں ہمارا ساتھ دیا، جس طرح شہر میں میئر کے الیکشن ہوئے اس طرح کبھی نہیں ہوئے یہ تاریخ میں لکھا جائے گا، اس کامیابی پر کراچی کے عوام کے صبرو استقامت کو سلام پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن پر حکومت وقت کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ آج کراچی کا مینڈیٹ تسلیم کیا گیا، مانتے ہیں اس نظام میں بہت تلخیاں ہیں جن کا ابھی ذکر نہیں کرنا چاہتا۔وسیم اختر نے کہا کہ جو ماضی میں ہوا اس کو بھول کر آگے بڑھا جائے، ایم کیوایم قائد کی ہدایت اور فلسفہ عوامی خدمت ہے جسے آگے لے کر چلوں گا، میرے ساتھ ڈپٹی میئر ارشد وہرہ موجود ہیں اور پوری ٹیم ہے، ہم ہر اضلاع میں کام کریں گے، ساری سیاسی جماعتوں کو لے کر چلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات پر سندھ کے وزیراعلی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، ہمیں ان سے بہت توقعات ہیں، وزیراعلی حالات دیکھتے ہوئے کچھ ایسے فیصلے کریں جن کی وجہ سے لوکل گورنمنٹ کو اختیارات دیئے جائیں، اگر ہمیں اختیارات دیں گے تو کراچی ترقی کرے گا جس سے سندھ اور پاکستان ترقی کرے گا۔نو منتخب میئرنے کہاکہ کراچی ریونیو دیتا ہے جس سے پورا ملک چلتا ہے اس لیے مجھ سے زیادہ فرض وزیراعلی کا بنتا ہے وہ اس منتخب حکومت کو اپنی سربراہی میں آگے لے کر چلیں گے، کراچی میں بہت کام ہونا ہے جو وزیراعلی خود بھی تسلیم کرتے ہیں، ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا تو مسائل حل ہوں گے۔ وسیم اختر نے کہا کہ میں ایم کیوایم کا میئر نہیں بلکہ کراچی کا میئر ہوں، کراچی کے میئر کے ناطے ہم مل کر کام کریں گے، کراچی سے تعلق رکھنے والے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لوگ اور ڈی جی رینجرز سے درخواست کروں گا کہ ہمیں مل کر ملک کے لیے کام کرنا ہے، جانتا ہوں کہ آپ لوگ جانوں کا نذرانہ دے رہے ہیں تاکہ شہر میں امن قائم ہو، ہم میجر جنرل بلال اکبر کے ساتھ ہیں، ہم کراچی میں امن چاہتے ہیں اس لیے مل کر امن قائم کریں گے۔وسیم اختر نے کہا کہ میرے ساتھ صرف متحدہ کے نہیں دیگر جماعتوں کے لوگ بھی ہیں، آزاد امیدوار ہیں جن کے گھروں پر جائیں گے کیونکہ مسئلہ کراچی کا ہے، ہم متحد ہوں گے تو مسائل حل ہوں گے، اگر ہم لڑتے رہے یا ہمیں لڑوایا جاتا رہا اور سازشیں چلتی رہیں تو شہر ترقی نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں امن قائم کرنے کی کوشش کرنا ہوگا، وزیراعلی ہماری سربراہی کریں، کراچی کے ایسے مسائل ہیں جنہیں ہم جانتے ہیں، ہم نے لوکل گورنمنٹ بخوبی چلائی اور کام کرکے دکھایا، ہمیں مسائل اور انہیں حل کرنے کا بھی پتا ہے، ہم سے فائدہ اٹھائیں اور ہمیں اپنا حصہ سمجھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے یہاں گھر ہیں کبھی نہیں چاہیں گے کہ کراچی کا امن خراب ہو، مجھے آئی جی سندھ اور ڈی جی رینجرز کی رہنمائی چاہیے کیونکہ شہر میں ایسے عناصر ہیں جو امن خراب کرنا چاہتے ہیں، ہم ان کا قلع قمع کریں گے اور انہیں شہر سے نکال باہر کریں گے۔انہوں نے کہا کہ یہ شہر ہمارا ہے اس نے ہمیں ووٹ دیا، ہر شہری چاہتا ہے کہ شہر میں امن ہو، ہمارے بچے بے خوف کھیل سکیں، اور جو لوگ روزگار کے لیے گھر سے نکلتے ہیں وہ سکون سے گھر واپس آسکیں،ہت لڑائیاں ہوچکیں اور بہت خون خرابہ ہوچکا اب اسے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم تعصب نہیں کرنا چاہتے اور ہم سے بھی تعصب نہ کیا جائے، ہم ان کی اولادیں ہیں جنہوں نے یہ ملک بنایا اور ہم اس ملک کے خلاف بات کریں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے مسائل ہماری انگلیوں پر ہیں، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور اے این پی کے دفتر جاں گا ہمیں آپس کی تلخیاں ختم کرنا ہیں اور سب کو ساتھ لے کر چلیں گے، ان کے مسائل ایسے ہی حل کریں گے جیسے عزیز آباد کے کریں گے۔وسیم اختر نے کہا کہ جو مقدمات مجھ پر ہیں وہ سب جانتے ہیں، ملک کی بدقسمتی ہے کہ آج بھی سیاسی مقدمات بنائے جارہے ہیں، اپنے مقدمات سے متعلق جواب وزیراعلی سندھ سے لینا چاہتا ہوں جب کہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے بیان ریکارڈ پر ہیں کہ کوئی سیاسی قیدی نہیں لیکن میں اور رف صدیقی سیاسی قیدی ہیں، ہمیں جھوٹے کیسوں میں بند کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جسے پابند سلاسل کیا جارہا ہے اس کی نیت باہر نکل کر کام کرنے کی ہے، مجھ پر سب جھوٹے کیس ہیں، اگر میں اپنے کیس عدالت میں لے جاں تو 5 منٹ میں کیس ختم ہوجائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ 12 مئی 9 سال بعد یاد آرہاہے یہ کیا مذاق ہے، سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی وجہ سے 12 مئی کا واقعہ ہوا وہ 4 سال چیف جسٹس رہے انہوں نے اس کیس کو نہیں کھولا، ہائیکورٹ نے اس کیس کو ختم کرنے کا کہا جو فیصلہ ہمارے پاس ہے، 12 مئی کے بہانے سے غلط کیس بنائے جارہے ہیں، مجھے پابند کرکے کیا ملے گا، مجھے پابند رکھا گیا لیکن عوام نے مجھے ہی ووٹ ڈالا۔انہوں نے کہاکہ اگر مرد کے بچے ہو تو 12 مئی کا کیس مشرف پر چلائو اور آرٹیکل 6 لگائو، یہ کیسز بنائے جائیں میں عدالت میں ان کا سامنا کرتا رہوں گا۔ انہوں نے کہا کہ کیسز میں اگر عدلیہ انصاف کرتی ہے تو اس کا پیشگی شکریہ ادا کرتے ہیں ورنہ عدلیہ کے سامنے جائوں گا، میرے تمام کیسز قابل ضمانت ہیں، ہم ماضی میں بھی عدالت کے سامنے گئے، ہم آئین و قانون میں رہتے کام کرنا چاہتے ہیں اورعدلیہ کا احترام کرتے ہیں۔ وسیم اختر نے کہا کہ اگر مجھے ضمانت نہ ملی تو وزیراعلی سے درخواست کروں گا کہ سینٹرل جیل میں دفتر دیا جائے اور ایسے رولز بنائے جائیں یا ترمیم کی جائے جس کی وجہ سے عوام کا مجھ سے رابطہ ہوسکے میں عوام کے مسائل جیل میں بیٹھ کر حل کروں گا۔ایک سوال کے جواب میں وسیم اختر نے کہا کہ میئر کے اختیارات میرے علم میں ہیں اب سیٹ پر بیٹھ کر ہی پتا چلے گا کہ کتنے اختیارات اور کتنا بجٹ ہے جس میں ہمیں شہر کے مسائل کس طرح حل کرنا ہیں لیکن وزیراعلی سے امید ہیکہ وہ مسائل حل کرنے میں ہماری مدد کریں گے۔