کراچی (تجزیہ :مظہر عباس) الطا ف حسین نے اپنے لیے ایک بہت خطرناک رستے کا انتخاب کرلیا ہے جو شاید انہیں تو کہیں نہیں لےجائےگا لیکن ان کے ’’مہاجرازم‘‘ کے فلسفے کو شدید نقصان پہنچائےگا۔ ڈاکٹر فاروق ستار کے سامنے ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایم کیو ایم کے بانی سے بھی دور رکھیں اورپارٹی کے ووٹ بینک کو بھی زک نہ پہنچنے دیں۔ کیا وہ یہ کرپائیں گے؟الطاف کے جارحانہ اور تلخ لہجے نے ایم کیو ایم پاکستان کے مسائل میں اضافہ کیا ہے اورطویل المدتی حوالے سے دیکھاجائے تو اگر فوری طور پر ہونے والے نقصان کا ازالہ نہ ہوپایا تواس کا ووٹ بینک بھی متاثر ہوگا۔ بہت کچھ چیزوں کا انحصار پیپلزپارٹی کی سرکردگی میں چلنے والی سندھ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر بھی ہےکیونکہ سندھ کی سیاسی حرکیات نسلی کشیدگی کی بنیاد پر پنپنے والے خوف کے عنصر کے باعث نسلی بنیادوں پر مبنی ہے اور اسی نے گزشتہ تین عشروں سے سندھ کی سیاست کو پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کے مابین بانٹ رکھا ہے۔ایم کیو ایم کے خلاف جوابی حملہ بھی منفی ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ صرف پارٹی دفاتر کے انہدام اور سیاسی سرگرمیوں پر غیر سرکاری پابندی سے الطاف حسین کے حق میں نہ بھی ہوتو بھی پارٹی کے حق میں ہمدردی کی لہر پیدا ہوسکتی ہے ۔ایم کیو ایم کے عسکریت پسندوں اور کارکنوں اور حکومت کے مختلف محکموں میں کام کرنے والے اردو بولنے والوں کے مابین فرق کے حوالے سےاسٹیبلشمنٹ کو بھی اور حکومت سندھ کو بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔اگر حکومت ایم کیو ایم پر پابندی لگانا چاہتی ہےاور الطاف حسین کے پاکستان مخالف موقف کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرتی ہے تو اسے ریفرنسز دائر کرنے چاہئیں لیکن پوری پارٹی کو سزا دینے سے بات نہیں بنے گی کیونکہ تاریخی طور پر یہ ثابت ہوگیا ہے کہ اس طرح کے اقدام سے ملزم اپنے آپ کو متاثرہ شخص کی حیثیت سے پیش کرسکتا ہے۔گزشتہ دو دنوں میں ایک نقطہ نظر ابھرا ہے کہ ایم کیوایم ایک پارٹی کی حیثیت سے تنقید کی زد میں ہے اور حتیٰ کہ نومنتخب شدہ میئر وسیم اختر کےلیے بھی معاملات آسان نہیں ہیں۔ لیکن یہ ایم کیو ایم لندن کےلیے بھی اہم موقع ہے کہ وہ اپنی سیاست کا جائزہ لے جو اسے اس نہج تک لے آئی ہے جہاں اس کے رہنما اور ورکرز کھڑے ہیں۔ گزشتہ چند برس بالخصوص 2013کے عام انتخابات میں فتح کے بعد سے ایک ناپسندیدہ صورتحال پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں ایک داخلی اختلاف نے جنم لیا جو بعدازاں پاک سرزمین پارٹی کے قیام پر منتج ہوئی۔تاہم اگر کوئی شخص واقعی ایم کیو ایم ، الطاف حسین اور ان کی سیاست کا جائزہ لینا چاہتا ہے تو اسے مہاجر عنصر کو دیکھنا ہوگا جس نے ایم کیو ایم کو جنم دیا۔ ایم کیو ایم اور الطاف حسین اپنے حلقہ نیابت کےلیے کیونکر حقوق حاصل نہ کرپائےباوجود اس کے کہ وہ کئی برس تک حکومتوں میں رہے ۔یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔پیر کو ان کی تقریر کے بعد جو کچھ ہوایہ امریکا اور جنوبی افریقہ میں ان کی یکے بعد دیگر ے ہونے والی تقریروں کے بعد ہوا ہے، وہ اپنی جماعت کی سیاسی اسپیس کو زیادہ سے زیادہ محدود کرتے جارہے ہیں۔ اب اگرو ہ خود یا ایم کیو ایم لدن چاہے تو پارٹی پر پابندی ایک آپشن ہوسکتا ہے یا اس سے ایک اور علیحدگی واقع ہوسکتی ہے اور پاکستان میں ایک نئی طرز کی ایم کیو ایم قائم ہوسکتی ہے۔ان کی تقریر کے نتیجے کے طور پر ایم کیو ایم کے رہنما ئوں اور کارکنوں کو گرفتار کیا گیا، ان کے پوسٹرشہر سے ہٹا دیئے گئے ہیں، دفاتر یا تو سیل کر دیئے گئے ہیں یامنہدم اور ایم کیو ایم کے پاس اس کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا کہ وہ پی آئی بی کالونی کے پرائیویٹ ہال میں متبادل انتظامات کے تحت کام کرے۔ گزشتہ تین برس کے دوران کم از کم 6ہزار ایم کیوایم کے کارکن مختلف الزامات میں گرفتار کیے گئے ہیں ۔ان کے قانون سازوں میں سے نصف فوجداری الزامات کے تحت گرفتار ہیں اسی طرح زیادہ تر سیکٹر اور یونٹ انچارج بھی جیلوں میں ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان ایک ایسی سیاسی تحریک شروع کر سکتی ہے لیکن یہ تحریک پاکستان مخالف ٹیگ کے نیچے شروع نہیں ہوسکتی یہ وہ ٹیگ ہے جو الطاف حسین کی تقاریر ، تبصروں ار نعروں نے لگا دیا ہے۔ہاں یہ چیز الطاف حسین کےلیے فرسٹریشن کا سبب ہوگا کہ گزشتہ دوبرس کے دوران ان کے میڈیا پر آنے پر پابندی رہی ہے کیونکہ اس ضمن میں لاہور ہائیکورٹ نے فیصلہ دے رکھا ہے اور ان کی تازہ ترقی تقریر کے بعد پارٹی کے پاس یہ چانس بھی نہیں بچا کہ وہ سپریم کورٹ میں اس معاملے پر لڑے۔ یہ بھی سچ ہے کہ انہیں بہت سے سنگین مقدمات اور انکوائریوں کا سامنا ہے جن میں منی لانڈرنگ سے لے کر عمران فاروق کے قتل تک جیسے مقدمات ہیں۔آئندہ چند ہفتوں کے دوران برطانوی حکومت بھی ان کی اس تازہ ترین تقریر پر کوئی موقف اپنا سکتی ہے جو میڈیا ہائوس پر حملے کا باعچ بنی اور یہ تشدد پر اکسانے کے درجے مین آکستی ہے۔انہیں ایسے مقدمات لڑنے اور احتجاج کرنے کا حق ہےجنہیں وہ سیاسی بنیاد پر نشانہ بنایا جانا قرار دیتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ریاست یا اپنے ہی ملک کو الزام دینا شروع کر دیں، وہ ملک جس نے آپ کو اتنا اعزاز دیا۔الطاف کو چاہیے کہ وہ اس ملک میں اپنی کامیابیوں کا جائزہ لیں۔ان کا تعلق لوئر مڈل کلاس کے خاندان سے ہے اور وہ شہری سندھ کے طاقتور ترین تہنما بن گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد کسی لیڈر نے عوام کے اذہان پر ایسی حکمرانی نہیں کی جیسی الطاف حسین نے کی۔ ان کی پارٹی ایم کیو ایم آج بھی ملک کی چوتھی بڑی سیاسی جماعت ، سندھ کی دوسری بڑی اور کراچی اور حیدرآباد کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ایم کیو ایم کے آج 25ایم این اے ،6سینیٹرز ، 45ایم پی اے اور کراچی و حیدرآباد میں میئر بھی ان کا اپنا ہے۔ کراچی کے تین اضلاع میں چیئر مین اور وائس چیئر مین ان کے اپنے ہیں، زمانہ حال تک یہ سب سے منظم سیاسی طاقت رہی ہے۔اگر انہوں نے خودسے سیاسی جلاوطنی کا انتخاب کیاجب مرحوم وزیر اعلیٰ جام صادق علی نے انہیں فوجی آپریشن کی اطلاع دیتے ہوئے انہیں پاکستان چھوڑنے کا مشورہ دیا۔ بعد کے برسوں میں انہوں نے برطانوی شہریت لے لی۔ یہ غالباً ان کی اور ان کی پارٹی کی سیاسی غلطی تھی۔اس سے نہ صرف ان کےلیے مالی مشکلات پیدا ہوئیں بلکہ ان کا تنظیمی ڈھانچہ بھی ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان میں تقسیم ہوگیا۔ دونوں مقامات پرالگ الگ رابطہ کمیٹیاں بنیں۔ سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے طویل دور میں انہیں بہترین موقع ملاتھا کہ وہ اپنے لندن کے دفاتر بند کردیںاور سچ تو یہ ہے کہ جنرل مشرف نے انہیں ایسا کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم لندن نے فیصلہ کیا کہ وہ برطانیہ مٰن رہ کر کام کریں گے جس کے نتیجے میں پارٹی پر مالی بوجھ پڑا جس کے باعث بعد میں منی لانڈرنگ، بھتہ خوری اور دیگر سنگین الزامات کا سامنا کرنا پڑا اور پھر ہم نے ایم کیو ایم کے چند رہنمائوں کا غیر معمولی لائف اسٹائل پاکستان میں بھی دیکھا۔پارٹی رہنمائوں کو بکثرت لندن طلب کیاجانے لگا اور اس سے بھی پارٹی پر اثر پڑا۔الطاف حسین کی جانب سے بر طانوی شہریت لیے جانے کے بعد بہت سے پارتی رہنما ئو ں نے بھی دہری شہریت کا انتخاب کرلیا۔ اگر الطاف حسین چند برس پیشتر مشرف کے دور میں پاکستان لوٹ آتے اور پارٹی کو اس کے سیاسی مرکز نائن زیرو سے چلاتے تو شائد انہیں اس قسم کی سنگین صورتحال کا سامنا نہ ہوتا جیسی صورتحال انہیں آج درپیش ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم نے مڈل کلاس کی پارٹی ہونے کے تمام کوائف کھو دیئے ۔ چیزیں کنٹرول سے باہر ہوتی گئیں، بھلا کیوں ایک مقبول رہنما جس کے اتنی بڑی تعداد میں ماننے والے ہوں وہ پاکستان سے باہر کی قوتوں کی جانب دیکھے۔ کسی نسلی یا لسانی قومیت کی قوم پرست پارٹی کو ایسی حمایت نہیں ملی جیسی ایم کیو ایم کو مہاجروں سے ملی۔الطاف حسین کو ملک کے اندر سے مزید سیاسی حمایت مل سکتی تھی جب پیپلزپارٹی کی مقبولیت بہت کم تھی اور وہ اندرون سندھ تک محصور ہو کر رہ گئی تھی۔ پاکستان تحریک انصاف کو سنگین تنظیمی بحران کا سامنا تھا جو اگر حل نہ ہوپایا تو انہیں آئندہ انتخابات میں ایک اور شکست کاسامنا ہوسکتا ہے۔ چنانچہ ان حالات میں ایم کیوایم کے پاس چانس تھا کہ وہ اپنی پوزیشن کو بہتر بنائے ۔ایم کیو ایم کے رہنما کو اس کےلیے وہ سب کچھ کہنا چھوڑنا ہوگا جو وہ ملک کے خلاف کہتے رہے ہیں۔الطاف 1978میں ملک کے سیاسی افق پر ایک طالب علم رہنما کی حیثیت سے رونما ہوئےاور ایک سا ل بعد انہیں سزا ہوگئی کیونکہ انہوںنے مبینہ طور پر پاکستان کا پرچم جلایا تھا۔یہ و ہ الزام ہے جس کی وہ تردید کرتے ہیںبعد میں انہوں نے اپنی طلبہ جماعت کو ایم کیو ایم بنا دیا۔ بہت سے لوگوں کو یقین ہے کہ الطاف مرحوم فوجی آمر جنرل ضیاالحق کی تخلیق ہیں اوران کے جانشین اسلم بیگ نے الطاف حسین کو پیپلزپارٹی کے خلاف استعمال کیا۔ جب جنرل آصف نواز نے 1992میں فوجی آپریشن شروع کیا تو الطاف حسین جلاوطنی مین چلے گئے اور پھر جنرل پرویز مشرف نے آکر ان سے مصالحت کی ۔ یہ وہ کہانی ہے کہ کیسے اسٹیبلشمنٹ نے انہیں اور ان کی پارٹی کو اپنے مفاد میں استعمال کیا۔سوائے موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے تمام سابق چیفس اور اسٹیبلشمنٹ نے یاتو ایم کیو ایم کو استعمال کیا یا اسے کچلنے کی کوشش میں اس کے اندر دھڑے بنوائے،اس کے برعکس سیاسی قیادت نے ابتائی طور پر سیاسی رویہ اپنایا، جی ایم سید نے الطاف حسین سے مصالحت کی لیکن جیے سندھ اور ایم کیو ایم کا اتحاد زیادہ عرصے چل نہ سکا۔ بعد میں پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کے ساتھ ایم کیو ایم کے تعلقات کار زیادہ عرصے نہ چل سکے لیکن مشرف کے دور میں اسے بہترین موقع ملا۔ وہ پانچ یا چھ برس بلاشبہ بہترین تھے اور مشرف نے شہری سندھ کا انتظامی کنٹرول ان کے حوالے کر دیا تھا۔الطاف اور ایم کیو ایم شائد ایسا چانس پھر کبھی حاصل نہ کر سکیں۔ ایم کیو ایم اور مہاجروں کے فطری اتھادی سندھی ہیں اور ان کی سیاسی اتحادی پیپلزپارٹی ہے چنانچہ ابھی بھی وقت ہے کہ فریقین میثاق سندھ پر دستخط کریں اور ایک دوسرے کے سیاسی اور اقتصادی حقوق تسلیم کریں۔ اب وقت آگیا ہے کہ دونوں خوف کے عنصر سے باہر آئیں جس نے سندھ میں دیہی شہری کی تقسیم گہری کر دی ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ مشرف اس شخص کی بات سنیں جس نے انہیں سب سے زیادہ اسپورٹ کیا، پرویز مشرف نے حال ہی میں اپنے ایک انٹرویو میں ان سے کہا ہے کہ اب وہ سیاست چھوڑ دیں۔انہیں کوئی ایک انتخاب کرنا ہوگا یا تو وہ بابائے مہاجر شناخت کے طور پر یادرکھے جائیں یا ایم کیو ایم کے بانی کے طور پر یادرکھے جائیں جس کے ساتھ مبینہ طور پر غدار کا ٹیگ لگا ہوا ہے۔