سیاسی اختلاف ذاتی دشمنی بن جائے تو اخلاقی قدروں کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں سیاست کے نام پر جس قسم کا انداز گفتگو متعارف کرایا گیا ہے وہ بڑے لوگوں کا چھوٹا پن ہے۔ افسوس کہ سیاسی کشیدگی کے باعث پھیلنے والی ماحولیاتی آلودگی سے جناب جاوید ہاشمی بھی محفوظ نہ رہ سکے۔ انہوں نے اپنے ایک حالیہ بیان میں عمران خان کے نئے رائٹ ہینڈ مین شیخ رشید احمد کے بارے میں یہ درفنطنی چھوڑی ہے کہ شیخ صاحب کے دو بھائی اپنے نام کے ساتھ بٹ لگاتے ہیں لیکن شیخ صاحب اپنے نام کے ساتھ بٹ نہیں لگاتے۔ جاوید ہاشمی صاحب نے یہ تاثر دینے کی کوشش کہ شاید بٹ کوئی بری چیز ہوتی ہے اور شیخ رشید احمد بدنامی کے خوف سے اپنے نام کے ساتھ بٹ نہیں لگاتے۔ دوسرے الفاظ میں جاوید ہاشمی نے اپنے دوست شیخ رشید احمدکے خاندانی حسب نسب پر حملہ کردیا جواب میں شیخ رشید احمد نے جاوید ہاشمی کو جعلی مخدوم قرار دے کر مخدوم رشید میں دفن مخدوم عبدالرشید حقانی ؒ کے خاندان کی تاریخ سے انکار کردیا۔ جاوید ہاشمی اور شخ رشید احمد زمانہ طالب علمی میں ایک دوسرے کے بہت قریب تھے۔ جاوید ہاشمی نے جنرل ضیاء الحق کی کابینہ میں حلف لینا تھا تو ان کے پاس شیروانی نہیں تھی۔ یہ شیروانی شیخ صاحب نے جاوید ہاشمی کو مہیا کی تھی۔ بعدازاں ہاشمی صاحب نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں غداری کے الزام میں لمبی قید کاٹ کر اپنے سیاسی گناہوں کا کفارہ ادا کردیا۔ جب ہاشمی صاحب جیل میں تھے تو شیخ رشید احمد وزیراطلاعات ہوا کرتے تھے۔ مشرف حکومت ختم ہونے کے بعد ہاشمی صاحب نے راولپنڈی سے الیکشن لڑا اور شیخ صاحب کی ضمانت ضبط کرادی۔ نجانے ہاشمی صاحب کو ابھی تک شیخ رشید احمد پر کس بات کا غصہ ہے انہوں نے شیخ صاحب پر چوٹ کرتے کرتے بٹ برادری کے جذبات مجروح کردیئے۔ یہ بٹ برادری پہلے ہی گلو بٹ اور ڈی جے بٹ کی وجہ سے کافی خفت محسوس کررہی ہے کیونکہ کچھ لوگوں نے لفظ بٹ کو مذاق بنانے کی کوشش کی ہے۔ جاوید ہاشمی صاحب بڑے صاحب مطالعہ سیاستدان ہیں۔ ان سے گزارش ہے کہ وہ کشمیر کے شیخ اور بٹ صاحبان پر بیان آرائی کرنے کے بعد ان کی تاریخ کا مطالعہ بھی کرلیں۔ ہمارے دوست طارق بٹ صاحب روزنامہ جنگ اور دی نیوز میں جاوید ہاشمی صاحب کو کئی مرتبہ جمہوریت کا مجاہد قرار دے چکے ہیں لیکن شاید ہاشمی صاحب کو ملک کے معروف مزاح نگار محمد یونس بٹ کے قلم سے نکلے ہوئے کسی جملے نے بہت تکلیف پہنچائی ہے اور انہوں نے تمام بٹ صاحبان کو گلو بٹ کی قطار میں کھڑا کردیا۔ ہاشمی صاحب کی یاد دہانی کے لئے عرض ہے کہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سابق سربراہ پرویز بٹ دنیا کے معروف سائنس دانوں میں سے ایک ہیں۔ جنرل ضیاء الدین بٹ آئی ایس آئی کے سربراہ اور ایئر مارشل طاہر رفیق بٹ ایئر فورس کے سربراہ بنے۔ کشمیر کی تحریک آزادی کے عظیم رہنما مقبول بٹ شہید دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی پاکر دنیا بھر کے حریت پسندوں کے ہیرو قرار پائے۔
میرے قارئین گواہ ہیں کہ میں نے ہمیشہ آمریت کے مقابلے پر جمہوریت کے ساتھ کھڑا ہونا پسند کیا۔ میں جمہوریت اور آمریت کی لڑائی میں بطور صحافی غیرجانبداری کو پاکستان کے ساتھ غداری سمجھتا ہوں کیونکہ آمریت پاکستان کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ جاوید ہاشمی نے مشرف دور میں جمہوریت کیلئے بڑی جدوجہد کی جس کا اعتراف میں کئی بار کرچکا ہوں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان سے لغزش ہوجائے تو میں خاموش رہوں۔ مجھے اُمید ہے کہ وہ میری اس تحریر کو گستاخی نہیں سمجھیں گے کیونکہ میں انہیں شیخ اور بٹ کا باہمی تعلق سمجھانا چاہتا ہوں۔ اس لئے نہیں کہ مجھے شیخ رشید احمد کا دفاع کرنا ہے بلکہ اس لئے کہ تاریخی حقائق کو جھٹلانا بددیانتی کے زمرے میں آتا ہے۔ جاوید ہاشمی اس حقیقت سے انکار نہیں کریں گے کہ مخدوم کسی قوم یا برادری کا نام نہیں ہے۔ ایک زمانے میں صرف حضرت علی ہجویریؒ، حضرت جہانیاں جہاں گشتؒ، حضرت صابر کلیریؒ اور حضرت عبدالرشید حقانیؒ کے نام کے ساتھ مخدوم کا لفظ استعمال ہوتا تھا کیونکہ یہ سب اپنے وقت کے بڑے بڑے نیک لوگ تھے۔ حضرت بہائو الدین ذکریا ؒ کے نام کے ساتھ غوث بہائوالحق لگتا تھا۔ کچھ بزرگوں کو پاک شہید کہا جاتا تھا لیکن بعد میں کئی بزرگوں کے نام کے ساتھ مخدوم لگنے لگا کیونکہ مخدوم کا مطلب عزت و احترام بن گیا تھا۔
کشمیریوں میں کچھ الفاظ صرف عزت و احترام دینے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً خواجہ کوئی مخصوص قوم یا برادری نہیں ہے۔ خواجہ دراصل فارسی زبان سے آیا ہے جس کا مطلب ہے آقا یا مالک، کشمیر میں صاحبان علم و فن یا بڑے بزرگوں کو خواجہ کہا جاتا تھا۔ یہ روایت میر سید علی ہمدانی ؒ کے ساتھ کشمیر میں آئی جنہوں نے اس خطے میں اسلامی تعلیمات کو پھیلایا۔ پھر بہت سے بزرگ خواجہ کہلائے اسی طرح کشمیر میں میر ایک ذات ہے لیکن ہندوستان کے مختلف علاقوں میں میر کالفظ بڑے بڑے قبائلی سردار اور نواب اپنے نام کے ساتھ استعمال کرتے ھے۔ میر ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی سردار کے ہیں۔ حیدرآباد دکن کے فرماں رواں اپنے نام کے ساتھ میرلکھتے تھے لیکن وہ کشمیری نہیں تھے۔ بنگال میں سپہ سالار میر لشکر کہلاتا تھا۔ سراج الدولہ کا سپہ سالار سید جعفر علی خان نجفی کشمیری نہیں تھا لیکن اپنے نام کے ساتھ میر لکھتا تھا۔ خواجہ میر درد دہلی کے رہنے والے تھے لیکن خواجہ بھی تھے اور میر بھی تھے لیکن کشمیری نہیں تھے۔ میر تقی میر نے لفظ میر کو تخلص بنایا حالانکہ وہ آگرہ میں پیدا ہوئے۔ کشمیر میں صرف دو اقوام اپنے نام کے ساتھ میر لگاتی تھیں۔ مغل اپنے نام کے بعد اور سادات نام سے پہلے میر لگاتے تھے۔ جس طرح ہندوستان کے طول و عرض میں خواجہ اور میر کالفظ عزت و احترام کے لئے استعمال ہوتا رہا اسی طرح شیخ کا لفظ بھی عزت و احترام دینے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ محمد الدین فوق نے ’’تواریخ اقوام کشمیر‘‘ میں لکھا ہے کہ جب کشمیری پنڈتوں نے اسلام قبول کیا تو انہیں احترام سے شیخ کہا جانے لگا۔ بٹ کشمیری پنڈتوں کی ایک شاخ ہے۔ وادی کشمیر میں انہیں بھٹ بھی کہا جاتا ہے۔ کئی بٹ خاندان پرانے وقتوں میں اپنے نام کے ساتھ شیخ بھی لکھتے تھے۔ علامہ اقبالؒ کے بزرگ ذات کے برہمن کشمیری تھے اور ان کی گوت سپرو تھی لیکن وہ اپنے نام کے ساتھ شیخ بھی لگاتے تھے۔ محمد الدین فوق لکھتے ہیں کہ ٹیپو سلطان کے والد حیدر علی کے آبائو اجداد کا تعلق کشمیریوں کی نائک شاخ کے ساتھ تھا لیکن وہ شیخ بھی کہلاتے تھے۔ وہ کشمیر سے دکن اور پھر میسور گئے۔ وہاں حیدر علی نے محنت کی اور میسور کے حکمران بن گئے۔ نائک، میر، بانڈے، لون، ڈار، بیگ، گیلانی، قریشی وغیرہ کشمیر کی غیر برہمن اقوام ہیں جبکہ بٹ اور منٹو وغیرہ کشمیر کی برہمن اقوام ہیں۔ یہ کشمیری ایک دوسرے کو خواجہ اور شیخ کے نام سے پکار کر عزت دیتے ہیں۔ بہت سے ڈار، لون، میر اور راتھر اپنے نام کے ساتھ خواجہ لگاتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ خواجہ کا لفظ ان کے بزرگوں کے نام کا حصہ تھا۔ قیام پاکستان کے بعد جموں و کشمیر کے مہاجرین کو پنجاب کے مختلف علاقوں میں بٹ کہا جانے لگا اور لفظ بٹ تمام کشمیریوں کی پہچان بن گیا لہٰذا پنجاب میں کئی ڈار، لون،میراوردیگر ذاتوں کے کشمیری بٹ بھی کہلاتے ہیں۔ معلوم نہیں گلوبٹ اور ڈی جے بٹ کے بزرگوں کا تعلق کشمیر سے ہے یا نہیں لیکن شیخ رشید احمد کے بزرگوں کا کشمیر سے تعلق سب کو معلوم ہے۔ مجھے نہیں معلوم کر شیخ صاحب اپنے نام کے ساتھ بٹ کیوں نہیں لکھتے لیکن مجھے یہ معلوم ہے کہ جاوید ہاشمی اپنے نام کے ساتھ مخدوم لگانا پسند نہیں کرتے حالانکہ ان کے تمام بزرگ مخدوم کہلاتے تھے۔ جاوید ہاشمی اور شیخ رشید احمد ایک دوسرے کی سیاسی مخالفت ضرور کریں لیکن ایک دوسرے کے حسب نسب کو متنازع نہ بنائیں کیونکہ تاریخ بڑی ظالم چیز ہے۔ حسب نسب پر حملے جاری رہے تو پھر تاریخ کی مستند کتابیں اخباری کالموں اور ٹی وی ٹاک شوز کا موضوع بنیں گی اور بڑے بڑوں کی عزت سلامت نہ رہے گی۔