اسلام آباد (رپورٹ: طارق بٹ) الطاف حسین کی متحدہ قومی موومنٹ جو مسلسل سیاسی حکومتوں کو گرانے کے لیے تواتر سے استعمال ہوتی رہی۔ اب اسے الطاف حسین کے 22 اگست کو پاکستان دشمن خطاب کے بعد ان ہی قوتوں کے ہاتھوں کڑی آزمائش کا سامنا ہے جن کے ہاتھوں وہ استعمال ہوتی رہی۔ شاید عارضی طور پر ہی سہی ایم کیو ایم کے پرچم بردار جہاز کو تباہ و برباد کردیاگیا ہے۔ ایم کیو ایم کی دہائیوں سے کھل کر یا چھپ کر جن مقتدر حلقوں نے پرورش کی، انہیں اس کا ادراک نہیں ہوسکا کہ اس سیاسی افراتفری اور بحرانوں کا پاکستان کو کس قدر خمیازہ بھگتنا پڑا۔ پاکستان پر دشنام طرازی کے بعد اب الطاف حسین کا خود اپنے پھیلائے جال سے نکلنا مشکل ہے۔ الطاف حسین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اپنی حماقتوں سے پیدا بحرانوں سے نکلتے رہے ہیں لیکن اس بار وہ بڑی مشکل میں پھنس گئے ہیں۔ ان کے گرد پھندا دن بدن تیزی سے تنگ ہوتا جارہا ہے۔ سندھ میں ان سے وابستہ نام و نشان مٹائے جارہے ہیں۔ پاکستان میں قائم باقی ایم کیو ایم اپنا رویہ درست کرنے پر مجبور ہوگئی اور اس نے اپنی بقا کے لیے مثبت اور ذمہ دارانہ طرز عمل اختیار کررکھا ہے۔ الطاف حسین کی ایم کیو ایم کبھی اپنی پالیسیوں میں خودمختار نہیں رہی، اس نے وہی کیا جو اس سے کہا گیا۔ جب اس کے بانی نے دیا گیااسکرپٹ پامال کیا تو ان ہی قوتوں نے انہیں مثال بنا کر بھی رکھ دیا۔ ایک بڑا فرق یہ ہے کہ وہ چاہے وفاقی ہوں یا صوبائی سیاسی اسٹیک ہولڈرز ان کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے وہ الطاف حسین کو اپنے ناقابل معافی جرم کی سزا دینے کے حوالے سے یک آواز ہیں۔ ماضی میں وہ اپنی پشت پناہ قوتوں اور سرپرستوں کی ایماء پر سیاسی حکومتوں کو گرانے میں استعمال ہوتے رہے۔ حتیٰ کہ الطاف حسین کے بغیر موجودہ ایم کیو ایم جو شدید ترین دبائو میں ہے، اس سے اپنی تقدیر کےاپنے تئیں فیصلوں کی بھی توقع نہیں۔ کیونکہ اس کی الماری میں کئی ڈھانچے موجود ہیں جو اس کا پیچھا کرتے رہیں گے اور وہ طاقتور حلقوں کی جانب دیکھنے یا ان سے رجوع پر مجبور ہوگی۔ اپنے وجود سے لے کر اب تک وہ مسلسل حکومتوں کے ساتھ رہی ہے، چاہے وہ سیاسی یا فوجی حکومتیں ہوں لیکن جب بھی سرپرستوں نے حکومتوں کو کمزور یا گرانا چاہا، ایم کیو ایم نے ہی آلہ کار کردار ادا کیا۔ ایم کیو ایم کی ایسی پالیسیوں کا خمیازہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کو بھگتنا پڑا۔ اس دوران کراچی بھی لہولہان رہا، ہزاروں افراد قتل ہوئے، کھربوں کا نقصان ہوا۔ اگر ایم کیو ایم کسی بہانے ایک حکومت سے نکلتی اور اسے اپنے جرائم کا حساب دینا پڑتا ہے تو وہ جانے والی حکومت سے آنے والی حکومت کا حصہ بننے میں کامیاب ہوجاتی اور اس پر پچھلی حکومت کے قائم کردہ مقدمات بھی ختم ہوجاتے ہیں۔ اس طرح خونی کھیل میں وہ پھلتی پھولتی رہی۔ ایک طرح سے ایم کیو ایم کا معاملہ طالبان سے مختلف نہیں ہے۔ جب دونوں نے ہی اسکرپٹ سے انحراف کیا اور سرخ لکیر عبور کی تو ان کے ساتھ سختی سے نمٹا گیا۔ ضیاء الحق نے سندھ میں پیپلزپارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی مقبولیت کا توڑ کرنے کے لیے ایم کیو ایم تخلیق کی لیکن طیارے کے حادثے میں ہلاکت نے ضیاء الحق کو ایم کیو ایم کے استعمال کا زیادہ موقع نہیں دیا جبکہ ضیا الحق اور پرویز مشرف کے ادوار میں سیاسی حکومتوں کے خلاف ایم کیو ایم کو استعمال کرنے کی پالیسی جاری رکھی گئی۔ اس کے بعد جنرل (ر) پرویز مشرف نے ایم کیو ایم کی پرورش کی اور اپنے دور میں اس کو مسلح کیا اور وہ عروج پر رہی۔ 12 مئی 2007ء کو کراچی میں خونریزی میں ایم کیو ایم کا بنیادی کردار رہا۔ بدقسمتی سے کراچی کے اب منتخب ہونے والے میئر وسیم اختر اس وقت محکمہ داخلہ کے انچارج تھے۔ پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دور میں کراچی میں جتنی ٹارگٹ کلنگ ہوئی ویسی کبھی نہیں ہوئی۔ درحقیقت ایم کیو ایم کو اس دور میں جتنے اختیارات حاصل رہے ویسے پہلے کبھی نہ تھے۔ یہ پرویز مشرف کے عروج ہی کا زمانہ تھاجب الطاف حسین نے 2005ء میں تقسیم برصغیر اور تخلیق پا کستا ن کو بھیانک تاریخی غلطی قرار دیا تھا۔ اس پر کسی نے سوال نہیں اٹھایا بلکہ الٹا نئی دہلی میں پاکستان کے سفار تخا نے کو الطاف حسین کے اعزازمیں ضیافت کے اہتمام کے لیے کہا گیا۔