’’میرے ہزاروں کارکنوں پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے گئے ، ہتھکڑیاں ختم ہوگئیں تو انہیں رسیوں سے باندھ کر گلیوں میں گھمایا گیا۔ تھانوں اور حوالاتوں میں جگہ نہ رہی تو گرفتارشدگان کو 18،18 گھنٹوں تک گاڑیوں میں محبوس کر کے چکر لگاتے رہے‘‘۔قادری انقلاب کے ’’پرامن اور قانون کے پابند ‘‘ رضاکاروں پر سِتم کی طویل داستان کا اختتام ان الفاظ پر ہوا، ’’ایسا ظلم تاریخ نے اس سے پہلے کبھی دیکھا، نہ آئندہ دیکھے گی‘‘۔ اسلام آباد کی شاہراہِ دستور اور ریڈزون میں انقلابی دھرنے پر ڈھائے گئے ستم کی یہ کہانی طاہرالقادری اتوار کی شب مینارِ پاکستان کے جلسے میں سنا رہے تھے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ وفاقی دارالحکومت میں یہ سب کچھ ہوتا رہا، شاہراہِ دستور اور ریڈ زون، قادری رضاکاروں کے لئے کربلا بنی رہی اور دُنیا کو کانوں کان خبر نہ ہوئی حالانکہ وہاں تو 24گھنٹے میڈیا کے کیمرے موجود ہوتے تھے جو دھرنے کے حوالے سے ایک ایک چیز اور طاہرالقادری (اور عمران خاں) کی تقاریر کا ایک ایک لفظ دُنیا کو سناتے اور دکھاتے رہے۔( ’’جیو‘‘ والوں نے تو اپنے خلاف نہایت ہوسٹائل فضا میں بھی ہر طرح کے خطرات کا سامنا کرتے ہوئے یہ فرض نبھایا)۔ قادری صاحب کے رضاکاروں پر تاریخ انسانی کے ان بدترین مظالم کی میڈیا والوں کو کانوں کان خبر نہ ہوئی (اور نہ قادری صاحب نے اس وقت دُنیا کی توجہ ادھر مبذول کرنے کی کوشش کی)۔ کیمروں کی آنکھوں نے دُنیا کو جو کچھ دکھایا اور موقع پر موجود اینکر پرسنز اور رپورٹرز نے جو کچھ بتایا اور سنایا ، اس کے مطابق تو شاہراہِ دستور اور ریڈ زون میں قادری کے انقلابیوں کی حکومت تھی۔
عمران خاں کے دھرنے (بعض ستم ظریفوں کے بقول میوزیکل کنسرٹ ) کی نوعیت مختلف تھی، یہ شام ڈھلے شروع ہوتا اور رات کے آخری پہر ختم ہوجاتا۔ دھرنے سے قادری صاحب کے انقلابی خطابات بھی دُنیا کو نہیں بھولے۔ انہوں نے انقلاب کے لئے 31اگست کی حتمی تاریخ دے دی تھی۔ اس دوران وہ کبھی ’’اپنے غسلِ شہادت ‘‘کے ذکر کے بعد اپنا کفن لہراتے اوراس جذباتی منظر پر خواتین کو اشک بار دیکھ کر چیختے، مجھے تمہارے آنسو نہیں، خون کے قطرے چاہئیں اور اگلے روز کفن پوش رضاکار قبریں کھودتے نظر آتے۔ خواتین اور بچوں کو بھی کفن پوش دیکھنا بڑے دل گردے کا کام تھا۔ ان ہی ایام میں قادری صاحب کے انقلابی جتھوں کی ’’پرامن ‘‘ کارروائیاں بھی ساری دُنیا نے دیکھیں۔ پارلیمنٹ ہاؤس پر حملہ اور اس کے مین گیٹ کے سامنے لان پر قبضہ، سلاخوں والے ڈنڈوں سے مسلح رضاکاروں کی کارروائیاں، غلیل بردار خواتین و حضرات کے نشانے، کرین کے ساتھ کنٹینروں کو ہٹانے کے مناظر ، ایوانِ صدر کے جنگلے کو ٹرک سے توڑنے کی کوشش، وفاقی سیکریٹریٹ کے صدر دروازے پر قبضہ، پی ٹی وی ہیڈکوارٹر پر دھاوا اور آخر میں پرائم منسٹر ہاؤس کی طرف مارچ اور اس کے مین گیٹ تک رسائی، تب پرائم منسٹر لاہور میں تھے اور قادری صاحب فرمارہے تھے، وزیراعظم نے اِدھر آنے کی کوشش کی تو ہم انہیں گردن سے دبوچ لیں گے، وہ انہیں ’’قذافی ‘‘ بنانے کا اعلان بھی کررہے تھے۔ یہ وزیراعظم کی ہمت اور حوصلے کا امتحان تھا۔وہ اسی روز لاہور سے اسلام آباد پہنچے اور پرائم منسٹر ہاؤس جا کر بیٹھ گئے ۔
جمہوریت اور آئین ِ پاکستان سے اپنی وفاداری کے اظہار کیلئے ارکانِ پارلیمنٹ بغلی راستوں سے ایوان میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ تب قادری کا اعلان تھا، اچھا ہے تمام شکار ایک جگہ جمع ہوگئے ہیں۔ اب یہ ہماری لاشوں پر گزر کر ہی واپس جائیں گے۔شاہراہِ دستور پر اصل حکمرانی قادری جتھوں کی تھی، جنہوں نے یہاں باقاعدہ چیک پوسٹیں بنالی تھیں۔ ادھر سے گزر اُن ہی کی اِجازت سے ہوتا تھا۔ ابھی چند روز پہلے یہ منظر ساری دُنیا نے دیکھا کہ ’’انقلابی رضاکار‘‘ ایک باوردی پولیس انسپکٹر کی تلاشی لے رہے ہیں۔ انہوں نے اس کا سرکاری پستول یہ کہہ کر اپنے پاس رکھ لیا کہ واپسی پر لے لینا۔ بات لمبی ہوتی جارہی ہے، مختصراً یہ کہ ایک طرف قادری صاحب کی یہ حکمرانی اور من مانی تھی اور دوسری طرف ملک کی منتخب آئینی حکومت آخری حد تک نرمی اور وسیع ظرفی کا مظاہرہ کر رہی تھی(اس صورتحال میں نصرت جاوید،وزیراعظم کو بہادرشاہ ظفر قرار دے رہے تھے)۔ قادری کے مسلح انقلابی جتھوں کے مقابل پولیس کے پاس صرف لاٹھیاں تھیں۔ وزارتِ داخلہ نے اِن سے اسلحہ واپس لے لیا تھا۔ ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجو، انقلابیوں کے بدترین تشدد کا نشانہ بن کر ہسپتال جا پہنچا۔ قادری کے رضاکاروں پر وہ ستم کہاں ڈھایا گیا جس کی داستاں وہ اتوار کی شب مینارِ پاکستان پر سُنارہے تھے؟ اسی خطاب میں انہوں نے ایک اور کہانی بھی سُنائی، ان کے دھرنے پر استعمال کے لئے، بھارت سے زہریلی گیس کے 50ہزار شیل منگوانے کی کہانی۔ ان کا کہنا تھا ، یہ خبر پاکستان کے ایک معتبر اخبار میں شائع ہوئی تھی لیکن اُنہوں نے اخبار کا نام بتایا، نہ اس کی تاریخ، بس ایک کاغذ لہرانے پر اکتفا جیسے یہ اس خبر کی فوٹو کاپی ہو لیکن اصل سوال یہ کہ یہ خبر کیا صرف طاہرالقادری ہی کی نظروں سے گزری اور یہ بھی کہ انہوں نے اس کے افشا میں اتنی دیر کیوں کردی؟یاد آیا، دھرنے کے دوران اُنہوں نے ایک روز یہ الزام بھی لگایا تھا کہ حکومت نے دھرنے کے شرکا ءکی خوراک اور پینے کے پانی میں زہریلا کیمیکل ملادیا ہے۔
’’قائد انقلاب‘‘ نے پاکستان کی تعمیر وترقی کے لئے اپناویژن بھی پیش کیا۔ یہ آئندہ انتخابات کے لئے ان کا منشور تھا ( اب وہ انقلاب کی بجائے انتخاب کی طرف لوٹ آئے ہیں) ۔ ہم اس خوش فہمی کا شکار رہے کہ وہ اس موقع پر اپنی کینیڈین سٹیزن شپ پر چار حرف بھیجنے کا اعلان بھی کردیں گے۔ادھر ’’تبدیلی‘‘ اور ’’نئے پاکستان ‘‘ کے دعویداروں کے جلسے بھی جاری ہیں۔ سرگودھا کا جلسہ بھی ایک بڑا جلسہ تھا۔ اس سے ایک روزقبل ملتان کا ضمنی انتخاب ہوچکا تھا جس میں تحریکِ انصاف نے بھرپور حصہ لیا۔ ’’آزاد‘‘ اُمیدوار عامر ڈوگر 10اکتوبر کے جلسے میں عمران خاں کے کنٹینر پر موجود تھا۔ شاہ محمود قریشی اس کے لئے بھرپور مہم چلا رہا تھا۔ جاوید ہاشمی ہارگیا لیکن اپنے اس جمہوری مؤقف کو جتوا گیا کہ تبدیلی کنٹینر سے نہیں، پولنگ بوتھ پر بیلٹ پیپر سے آتی ہے لیکن سرگودھا کے جلسے میں عمران خاں اسی پرانے مؤقف کو دہرا رہا تھا کہ نوازشریف کی حکومت میں، اور موجودہ الیکشن کمیشن کی زیرنگرانی کوئی الیکشن آزادانہ و منصفانہ نہیں ہوسکتا۔ ملتان کا الیکشن صرف ایک حلقے کا الیکشن تھا جسے ملک بھرکے عام انتخابات کی نسبت manage اور maneuver کرنا کہیں آسان ہوتا ہے لیکن نوازشریف حکومت کی موجودگی میں اور اسی الیکشن کمیشن نے ملتان میں الیکشن کروایا اور عمران خاں کا اُمیدوار جیت گیا اور ظاہر ہے ، ان کے نزدیک یہ آزادانہ و منصفانہ انتخاب تھا لیکن اگر جاوید ہاشمی جیت جاتا تو کیا پھر بھی عمران خاں اور تحریکِ انصاف کا یہی مؤقف ہوتا؟