انیس سو ترانوے کے عام انتخابات میں جب غیر معمولی اشتہاری مہم، اور شہری ممی ڈیڈی کلاس کی تمام تر حمایت و خیر سگالی کے باوجود عمران خان اپنی بری طرح ہار گیا تو کشمور سندھ سے میرے ایک دوست نے مجھ سے کہا تھا کہ عمران خان تو اتنی سوشل انجنيئرنگ سے بھی بہرہ ور نہیں جتنا کشمور میں مقامی سردار کا مقدم۔مقدم سندھ کے قبائلی نظام میں سردار کے خاص نمائندے کو کہا جاتا ہے جو روزمرہ کے معاملات اور تنازعات نمٹاتا ہے۔ یعنی کہ میرے دوست کا کہنا تھا کہ عمران خان لوگوں کی سماجی نفسیات سے اچھی طرح واقف نہیں جو کہ انتخابات جیتنے کو ضروری ہوتی ہے جس میں کئی گھاگ سیاستدانوں اور وڈیروں نے گویا پی ايچ ڈی کر رکھی ہوتی ہے۔ یہ انیس سو ترانوے تھا جب ملک میں انگریزی جریدوں کے سرورق پر یا تو عمران خان کی تصاویر چھپ رہی تھیں یا پھرمرتضی بھٹوکی۔ملک کی دیواروں پر ان دنوں آپ کو یاد ہوگا ’’ظالمو! قاضی آرہا ہے،عمران چھا رہا ہے۔ اورلیاری کراچی کی دیواروں پر شاید آج بھی کسی گلی محلے میں میر مرتضی بھٹو کے حق میں :مکے پہ مکا میر مرتضی کا مکہ ‘‘ جیسے نعروں والی چاکنگ لکھی رہ گئی ہو جسے بارشیں، دھوپ اور خون کے دھبے بھی نہ مٹا سکے ہوں۔ لیکن انیس سو ترانوے کے انتخابات کے نتیجے میں اپنی اپنی نشست کے علاوہ عمران خان تھا کہ میر مرتضی بھٹو دونوں کی پارٹیاں ہار گئی تھیں۔ لیکن ایک فرق تھا میر مرتضی بھٹو اور عمران خان میں کہ مرتضی بھٹو کو مبینہ طور پر پاکستان کی اسٹیلشمنٹ نے وہیں پہنچایا جہاں بھٹوئوں کو وہ پہنچاتی آئی ہے یعنی گڑھی خدابخش اور عمران خان کو ایک بڑے لیڈر میں تبدیل کردیا۔ واہ ری اسٹیبلشمنٹ چاہے تو بقول شخصے تو ایک بیلے رقاصہ کو کوے میں اور کوے کو بیلے رقاصہ میں تبدیل کردے۔انہی دنوں میں، میں کہتا تھا کہ عمران خان پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا میر مرتضی بھٹو ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے یاد آیا کہ عمران خان آج کل بھٹوئوں کےگڑھ لاڑکانہ آرہا ہے جس پر میڈیا اورعوامی رائے عامہ میں یہ انومان ہورہے ہیں کہ آیا وہ لاڑکانہ سے سندھ کے لوگوں کو اپنی موجودہ سیاست سے فتح کرسکے گا یا اپنی پارٹی کیلئے حمایت حاصل کر سکے گا کہ نہیں۔ سندھ کے لوگوں کی نظر میں شاید کرکٹ اور شوکت خانم اسپتال والا عمران خان اس سیاستدان عمران خان سے کہیں بڑا ہو۔ ایسا بھی نہیں کہ سندھ کے لوگ عمران خان کے کرکٹ کے قومی ہیرو اور شوکت خانم اسپتال جیسے کارناموں سے بے بہرہ ور نہ ہوں لیکن جہاںتک ان کی سندھ میں سیاست کا سوال ہے تو آج بھی سندھ کے لوگ انہیں فوجی ڈکٹیٹر ضیاءالحق کی باقیات ہی سمجھتے ہيں۔ اگرچہ اب نہ وہ بھٹوئوں والا لاڑکانہ باقی رہا ہے اور نہ ہی بھٹوئوں والی پاکستان پیپلزپارٹی۔ یہ رئیس امروھوی جیسے شاعر نے برسوں قبل والے اسی لاڑکانے پر کہا تھا:
اگر ہو جیب میں نقدی تو سیر لاڑکانہ ہو
حسینوں مہ جبینوں کی زیارت کا بہانہ ہو
لاڑکانہ یا سندھ کا کوئی بھی شہراسی بھٹو کے نام پر حکومت کرنے والوں کی مہربانی سے اب اجڑا تباہ حال موہن جو دڑو دکھائی دیتا ہے۔ اب لاڑکانہ میں بھٹو اپنے گڑھ میں نہیں گڑھی (گڑھی خدا بخش ) میں کب کے پہنچائے بھی جا چکے۔ لیکن سندھیوں کو پھر شاید یہ ہضم نہ ہو کہ ایک شخص ان کا نجات دہندہ نہیں ان کو فتح کرنے کے اعلانات سے خود کو محمود غزنوی سمجھ کر آرہا ہے ۔ سندھ میں محمود غزنویوں کا کیا کام۔ یہ تو شاہ سچل سامی کی دھرتی ہے جس پر زرداری راج کر رہے ہیں۔ شام کو ڈاکو راج۔لیکن بھٹوئوں کی قبروں کو ووٹ پھر بھی ملتے ہیںکہ یہ بدقسمتی سے ایک ایسا قرض ہے جو سندھیوں پر اب نسلوں سے نسلوں تک واجب ہوچکا ہے۔ ووٹ بھٹوئوں کی قبروں کو ملتے ہیں، لوگ سندھ کے خود زندہ لاشوں میں تبدیل ہوچکے ہیں لیکن پھر بھی ان کا عشق ایک عجیب عشق ہے۔ یہ بہن (بینظیر) سے عشق کرنے والے لوگ ہیں۔ بھٹو کی پوتی اور بہت ہی اچھی لکھاری فاطمہ بھٹو نے درست کہا کہ عمران خان نہ فقط ڈکٹیٹروں کا حمایتی رہا ہے بلکہ خود بھی ایک ڈکٹیٹر ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ وہ اپنی موروثیت پر سیاست نہیں کر رہی۔ زور قلم پر بھروسہ کر رہی ہيں۔ہوسکتا ہے کہ سندھ کے لوگ جو کہ میلوں ٹھیلوں کے بڑے شوقین ہیں ’’رونشے‘‘ ( یعنی مجمع بازی یا تماش بینی ) کے لحاظ سے عمران خان کے جلسے میں بہت بڑی تعداد میں شرکت بھی کرنے جائیں، یہ بھی ہے کہ چھوٹے ہوئے کارتوس یا جھیل کے پرندے نما وڈیرے اور خود کو سردار کہلوانے والے تیس مار خان لیکن ناکام سیاستدان ان کی میزبانی بھی کریں ، ان کی پارٹی کی حمایت بھی کریں لیکن یہ رونشے بازی اور شرکت عمران خان کیلئے سندھیوں کے ووٹ شاز و نادر ہی لاسکے۔ویسے تو لاڑکانہ محمد خان جونیجو کی سسرال تھا لیکن اسے ووٹ نہیں دے سکا۔ کہ یاد رہے کہ یہاں لاہوری محلہ بھی ہے جہاں صدیوں پہلے لاہور سے لوگ آکر آباد ہوئے جو آج بھی لاہوری کہلاتے ہیں۔سابق وزیر اعظم جسے اپنےگائوں سندھڑی کے لوگوں نے ’’فاتح ضیاءالحق‘‘قرار دیا تھا انکے سسرالی لاڑکانہ کے لاہوری تھے۔ یہ وہ لاہور ہے جو لاڑکانہ اور سندھ کی مٹی میں صدیوں قبل رچ بس گیا۔ اب شاید یاد بھی نہ ہو ان کے آباء و اجداد کبھی لاہور سے آئے ہوں گے۔ خیر یہ تو ہوا ایک اور زمانے کا قصہ ایک اور بادشاہی کی کہانی۔ تو سندھ کے لوگوں کیلئے عمران خان نے کئی روزقبل کہا تھا کہ وہ سندھ کو فتح کرنے جائيں گے۔ سندھ کے لوگوں نے کبھی کسی فاتح کیلئے اپنے بازو اور دروازے نہیں کھول رکھے۔ ہاں عمران خان کے ایسے کئی سندھی سیاستدان اور لیڈر ضرور دوست ہیں جن کے سرپرست اور مہربان ایک ہی پنڈی والے ہیں۔ سب کی سیاست براستہ آبپارہ سندھ میں داخل ہوتی ہے۔سندھ کے لوگ تو قوم پرستوںکو بھی کبھی ووٹ نہیں دیتے (جبکہ سندھ کی سب سے بڑی قوم پرست پارٹی نہ انتخابات پر یقین رکھتی ہے نہ وفاق پر اگر وہ عوامی لیگ کی طرح انتخابات میں حصہ لینا شروع کردے تو شاید پھر بات بدل جائے ) تو عمران خان جیسا لیڈر سندھ میں کیسے حمایت حاصل کرسکتا ہے؟ جلسے تو شاہ محمود قریشی کے مریدوں کی عددی شرکت کے حوالے سےانہوں نےگھوٹکی اور تھرپارکر میں بھی کیے تھے لیکن جب گزشتہ انتخابات آئے تو شاہ محمود قریشی خود تھرپارکر سے ہار گئے۔ پھر وہ پارٹی اور لیڈر جو صوبوں کی ازسر نو تشکیل چاہتا ہو، طالبان کا حمایتی ہو، کالا باغ ڈیم کے مجوزہ متنازع منصوبے پر کوئی واضح موقف نہ رکھتا ہو (کہ سندھ کے لوگ سو فی صد کالا باغ ڈیم کو مسترد کر چکے) ،سندھ کے وسائل پر پہلا حق سندھیوں کا کی بات نہ کرتا ہو تو سندھ کے لوگوں کے دل کیسے جیت سکتا ہے۔۔ اور کیا’’تبدیلی آ رہی ہے کی ‘‘ للکاریں لگانے والے عمران خان میں اتنی جرأت ہے کہ وہ سندھ میں سندھی نوجوانوں کی گمشدگی اور پھر ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کی نہ فقط مذمت اور ایسی پالیسی ایک دم ختم کرنے کا مطالبہ لاڑکانہ کے جلسے سے کرسکیں۔ وہ جرأت جو خود بڑے بڑے ترم خان سندھی لیڈر اور حکمران نہیں کرسکے لیکن پچھلے دنوں سندھ اسمبلی کے فلور پر حزب مخالف کی منتخب رکن اسمبلی مہتاب راشدی نے کی۔کیا عمران خان لاڑکانہ کے سرویچ علی پیرزادو سمیت سندھ کے گمشدہ نوجوانوں کی رہائی کا مطالبہ لاڑکانہ کے جلسے سے کرنے کی ہمت رکھتے ہیں؟
لیکن سندھ کے لوگوں کو سندھ پر خود ان کے ہی اپنے ہاتھوں خود پر مسلط کیے ہوئے حکمرانوں کی جعلی سندھ دوستی اور انکی فتنہ پردازی سے بھی خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان بہرحال سندھ میں مہمان ہیں۔لندن میں شہزادہ بلاول سے بدتمیزي کا بدلہ سندھ میں لئے جانے کی افواہیں چل پڑی ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو بہت ہی گھٹیا عمل کہلائےگا۔ خطرناک بھی ہوگا۔ رواداری اور درگزر یا برداشت کا کلچر کبھی سندھ اور لاڑکانہ کی سیاست کا خاصہ ہوا کرتا تھا۔ شاید لاڑکانہ کے پرانے لوگوں کو یاد ہو کہ انیس سو ستر کے انتخابات میں ذو الفقار علی بھٹو اور ایوب کھوڑو مد مقابل تھے۔ سردار اکبر بگٹی ایوب کھوڑو کی حمایت میں ان کے جلسے سے خطاب کرنے لاڑکانہ آئے تھے۔ دوپہر کو انہوں نے خطاب ایوب کھوڑو کے جلسے میں خطاب کیا تھا لیکن رات کا کھانا المرتضی لاڑکانہ میں ذوالفقار علی بھٹو کے ہاں کھایا تھا۔ یہ بات مجھے آسٹریلیا سے ایک مہربان دوست اور بلوچ سیاسی دانشور نے یاد دلائی ۔ سندھکبھی اس طرح کے سیاسی کلچر و برداشت کا گہوراہ ہوا کرتا تھا۔ اب ایسی برداشت نہ آصف زرداری میں ہے نہ نواز شریف میں اور نہ ہی خود عمران خان میں۔