برصغیر کے دینی مدارس میں پڑھایا جانے والا نصاب ملا نظام الدین سہالوی نے ترتیب دیا تھا۔ملا نظام الدین فرنگی محل لکھنو میں اسلامی فقہ اور فلسفے کے استاد تھے ۔ ان کا مرتب کردہ نصاب جسے درس نظامی کہا جاتا ہے وہ مدرسہ نظامیہ بغداد کے نصاب سے یکسر مختلف تھا جسے ملانصیر الدین طوسی نے ترتیب دیا تھا ۔ابتداء میں اہل سنت کے (دیوبندی بریلوی، اہلحدیث اور جماعت اسلامی) مدارس میں یہی نصاب پڑھایا جاتا رہا ۔ بعد ازاں تمام مکاتب فکر نے اپنی اپنی فقہی ضروریات کے مطابق اس میں ترامیم کرلیں اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ جہاں خیالات و نظریات نے خدشات و اندیشے پیدا کئے وہاں تقسیم در تقسیم کے عمل نے بھی جگہ بنائی ہے۔اب یہ صورتحال ہے کہ اس دینی نظام تعلیم میں بھی اپنے اپنے منشور و قواعد کے مطابق ڈگریوں کی بتدریج تقسیم نے بھی الگ الگ’ ’بورڈز ‘‘ کی اہمیت کواجاگر کیا۔ ’’ملک میں موجود تمام مدارس تعلیمی بورڈز کی طرح ایک وفاق سے جڑے ہوئے ہیں یہ پانچوں وفاق یعنی بورڈہر مکتبہ فکر ، مسلک کی نمائندگی کرتے ہیں۔ چار بورڈز دیوبندی،اہلحدیث،بریلوی اور جماعت اسلامی اور پانچواں شیعہ مکاتب فکر کے لئے قائم ہوئے۔ گویا کہ اِس وقت مملکت پاکستان میں معروف پانچ مکاتب فکر کے اپنے اپنے تعلیمی بورڈ(وفاق) موجود ہیں جوکہ اپنے اپنے منشور ،قواعد و ضوابط اور اپنے مقررہ نصاب کے مطابق تعلیم دے رہے ہیں۔ ’’29نومبرتا یکم دسمبر1947کو قائد اعظم محمد علی جناح کے ایما پر منعقد ہونے والی پاکستان کی پہلی قومی تعلیمی کانفرنس کی سفارشات سے لے کر حکومت کی ہر نئی تعلیمی پالیسی میں اسلامی تعلیم اور تعلیمی اداروں میں اسلامی اخلاقی اقدار کی تربیت و ترویج کی فکر کاعنصر موجودرہا مگر نصاب میں اسلامیات یا اسلامک کلچر کے نام سے ایک نئے مضمون کے اضافہ کے علاوہ کوئی ٹھوس پیش رفت اس سلسلے میں نہیں ہوئی‘‘اس کے بعد 1970ء میں ائیر مارشل نور خان کی تعلیمی سفارشات سامنے آئیں تو ملک کے جید علمائے کرام نے اْن کا جائزہ لیا اور اِس حقیقت کو تسلیم کیا کہ دینی مدارس کے موجودہ نصاب میں تبدیلی ناگزیر ہے۔اس میں عصری علوم کا اضافہ ہونا چاہئے تاکہ ایسے افراد تیار ہوسکیں جو اچھے مسلمان بھی ہوں اور موجودہ سائنسی اور صنعتی دور کے تقاضوں کو بھی بخوبی سمجھتے ہوں اور زندگی کے تمام معاملات چلانے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ جب ہم پاکستان میں دینی مدارس کے نصاب کی تبدیلی کے عنوان سے جائزہ لیتے ہیں تو معلوم یہی ہوتا ہے کہ ’’1979 ء میں جائزہ دینی مدارس کے عنوان سے ڈاکٹر عبدالواحد ہالے پوتا کی سربراہی میں ایک کمیٹی وزارت تعلیم کی طرف سے تشکیل دی گئی ، اس میں ماہرین تعلیم کے علاوہ جیدعلماء بھی شامل تھے۔ اس کی متفقہ رپورٹ میں بھی سفارش کی گئی کہ دینی مدارس میں عصری علوم کی تدریس کا اہتمام کیاجائے اور تمام مدارس کا امتحانی نظام ایک مرکزی بورڈ یا وفاق کے سپرد کیا جائے لیکن اس رپورٹ پر عملدر آمد نہ ہوسکا۔ 1988 ء میں ڈاکٹر رضی الدین صدیقی (مرحوم ) کی سربراہی میں تعلیم کی اسلامی تشکیل کے لئے مستقل کمیشن (Permanent Commision for Islamization of Education ) قائم کیا گیا جو بدقسمتی سے عارضی ثابت ہوا اور اْسی سال کے آخر میں وزیر اعظم پاکستان شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد حکومت کی مصلحت پسندی یا حکمت عملی کے باعث1989ء کے آغاز میں کمیشن کے سربراہ کی طرف سے ایک مختصر مگر اہم عبوری رپورٹ وزارت تعلیم کے حوالے کرنے کے بعد کمیشن عملی طور پر کالعدم ہوگیا۔1991 ء میں وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں نفاذ شریعت ایکٹ پاس ہونے کے بعد اس کی دفعہ7 کے تحت تعلیم کی اسلامی تشکیل کا نیا کمیشن جناب سجاد حیدر ایم این اے (جونیجو دور حکومت میں وفاقی وزیر تعلیم)کی سربراہی میں قائم کیا گیا اور کئی ابواب پرمشتمل کمیشن کی رپورٹ کا ابتدائی ڈرافٹ مکمل کرلیاگیا۔1993 ء میں پھروزیر اعظم پاکستان شہید محترمہ بے نظیر بھٹوصاحبہ کے دوسرے دور میں جناب غضنفرگل ایم این اے اِس کے سربراہ مقرر ہوئے کمیشن کے کام میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہوسکی۔ 1997ء کے آغاز میں حکومت پھر تبدیل ہوئی توجناب ڈاکٹرظفر اسحاق انصاری (ڈائریکٹر جنرل ادارہ تحقیقات اسلامی ، اسلام آباد) اِس کے سربراہ مقرر کئے گئے مگر حکومت کی طرف سے کمیشن کے کام کی تکمیل کے لئے کسی گرمجوشی کے فقدان کے باعث یہ کمیشن عملاََ معطل رہا۔ مقصود یہ ہے کہ دینی مدارس کے روایتی نظام تعلیم اور جدید تعلیم کے اداروں کو مربوط کرتے ہوئے پورے نظام تعلیم کی اسلامی تشکیل کا تصور برابر موجود رہااگرچہ بدقسمتی سے اِس کی طرف بوجوہ ٹھوس پیش رفت نہ ہوسکی‘‘اِس عمومی پس منظر کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ حکومتی خواہش پروقت کے ساتھ ساتھ بتدریج بننے والے کمیشن ، تعلیمی بورڈ اور کمیٹیاں اِس بات کی غمازی کرتی نظر آتی ہیںکہ مملکت پاکستان میں تعلیمی نظام میں ہر جانب سے بہتری لائی جائے۔
حکومت پاکستان کے آرڈیننس کے تحت ستمبر 2001 میں ’’پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ‘‘کاقیام عمل میں لایا گیا۔یہ بات واضح ہے کہ حکومتی مدرسہ بورڈ کے قیام کے پیچھے اِس کی کڑیاں ماضی میںآنے والی حکومتوں سے جا ملتی ہیںاور پھر یہ کہ ماضی میںمختلف حکومتوں کی جانب سے بنائی جانے والی مجوزہ تعلیمی کمیٹیاں ، کمیشن، ادارے (جن میں مقتدر علمائے کرام، محققین، اسکالرز کی موجودگی) ہی ’’پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ‘‘کے قیام کا ایک تسلسل ہے۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان میں بڑھتی مذہبی انتہا ء پسندی اور دہشت گردی کے تناظر میں حکومت کی جانب سے مدارس میں نصاب سازی کے حوالے سے وزارت مذہبی امور میں ایک اہم اجلاس منعقد کیا گیا تھا جس میں اتحاد تنظیمات مدارس کے سربراہان سمیت چاروں صوبوں کے ماہرین تعلیم بھی شریک تھے، اجلاس میں وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف ، وفاقی وزیر تعلیم بلیغ الرحمن اور وزیر مملکت برائے مذہبی امور پیرسید امین الحسنات شاہ بھی موجود تھے۔نصاب کی اصلاحات اور تجاویز مرتب کرنے کے حوالے سے بلائے گئے اس اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ دینی مدارس اور عصری تعلیمی اداروں میں نصاب سازی میں بہتری کے حوالے سے کو ششیں تیز کی جائیں تاکہ ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے عفریت سے نمٹا جا سکے۔اتحاد تنظیمات مدارس کے مفتی منیب الرحمن، مولانا حنیف جالندھری مولانا عبد المالک ،ڈاکٹر یاسین ظفراور ڈاکٹر نیاز حسین نقوی جیسے سنجیدہ اور متین شخصیات نے حکومت کو مدارس میں اصلاحات کے حوالے سے اپنے قیمتی مشوروں سے نوازا۔علمائے کرام نے مدارس میں بہتر تعلیمی نصاب ،رجسٹریشن کا مسئلہ یا ملک میں دہشت گردی ، انتہاء پسندی جیسے مسائل کو حل کرنے میں حکومت کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ میں سمجھتا ہوںکہ ان علمائے کرام کی ایسی مثبت فکر کو سراہناچاہیئے اور حکومت پاکستان کی نصاب میں بہتری کے حوالے سے حکومتی مدرسہ بورڈ کو فعال کیا جائے۔تاکہ وہ معاشرے میںانتشار کے خاتمہ کے لئے اپنا کردار ادا کر سکے۔
(صاحب تحریر:پاکستان مدرسہ بورڈ کے چیئرمین ہیں)