یہ ملک جہاں ہردور میں غداریوں کےسرٹیفکیٹ بانٹنے کی فیکٹریاں لگائی گئی ہیں وہاں سب سے بڑے غدار اعظم کا ٹھپہ جعلی لوگوں اور قوم کےدو نمبر غم خواروں نے اس شخص پر لگایا جس کا اس ملک کے قائم کرنے میں بہت بڑا کردار رہا تھا۔ وہ شخص جس نے جب جناح صاحب پرقاتلانہ حملے کی خبر سنی تھی تو سندھ اسمبلی میں بچوں کی طرح دھاڑیں مار کر رونے لگا تھا اور (پرانی) سندھ اسمبلی کی عمارت کی چھت سے خود کشی کرنے کی ناکام کوشش بھی کی تھی۔ جناح صاحب کے ساتھ اس کی خط و کتابت کی فائلیں اس کے کتب خانے میں آج بھی موجود ہیں۔ جی ہاں غلام مرتضی سید نے برصغیر میںسب سے پہلے مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن کی قرارداد سندھ اسمبلی میں اکثریت سے منظور کروائی تھی۔آل انڈیا مسلم لیگ سندھ کے صدر غلام مرتضیٰ شاہ المعروف جی ۔ ایم سید جنہوں نے بنگال میں قحط اور بہارمیں فسادات کے وقت ایک پوسٹر شائع کروایا تھا جس میں ایک سندھی لباس والا شخص ایک اچکن اور ہندوستانی لباس والے شخص سے گلے ملنے کو بانہیں کھولے ہوئے کہہ رہا ہے’’آ میرے مسلمان بھائی خوش آمدید‘‘ جس کے تحت مسلمانان ہندکو سندھ میں ہجرت کر کے آباد ہونے کی دعوت دی گئ تھی۔ جب مقامی سندھیوں سے کہا گیا تھا کہ پیغمبر اسلام کی ہجرت والی سنت ادا کرنے والے لوگوں کیلئے اہل سندھ اپنے دلوں اور گھروں کے دروازے کھول دیں۔
یہی جی ایم سید جب چودہ سال کی عمر کا تھا تو اپنے گائوںسن کے اسٹیشن پر اس وقت سندھ کےدورے پر آئے ہوئے گاندھی کے استقبال پر گیا تھا اور گاندھی کے کہنے پرکھدر پہننا شروع کیا تھی بلکہ اپنے گائوں میں لوگوں کے ساتھ مل کر مقامی آشرم و چرخے قائم کر کے کھدر بنوانے بھی لگے تھے ۔ وہ کچھ وقت کانگریسیوں کی صحبت میں بھی رہے۔ ان کے ہی گائوں کے شریف زمیندار اور دبنگ کانگریسی لیڈر ڈاکٹر چوئتھ رام انکے دوست تھے۔ لیکن وہ کٹر سندھی مسلم قوم پرست تھے۔ غلام محمد بھرگڑی آل انڈیا کانگریس کے جنرل سیکرٹری تھے جو برطانیہ سے بار ایٹ لا پاس کر کے آئے تھے اور اپنی تمام زمین اپنے گائوں میں اسکول کے لئے وقف کی تھی۔ یہ لیڈر کوئی شوگرمل مافیا نہیں تھے قوم کا درد رکھنے والے لوگ تھے۔ جی ایم سید نے 14سال کی عمر میں لاڑکانہ میں خلافت کانفرنس میں شرکت کی تھی جس میں مولانا آزاد اور مولانا عبدالباری فرنگی محلی جیسے رہنماء بھی شریک تھے۔ بعد میں خلافت کانفرنس جی ایم سید نے اپنے گائوں میں بھی منعقد کروائی تھی۔وہ سر عبداللہ ہارون جیسے رہنمائوں کی معیت میں مسلم لیگ ميں شامل ہوئے اور آل انڈیا مسلم لیگ سندھ کے صدر منتخب ہوئے۔وہ انیس سو چھتیس کے انتخابات میں سندھ اسمبلی کے منتخب رکن بنے اور سندھ میں اللہ بخش وزارت کے خلاف جوڑ توڑ کے بادشاہ تھے کئی حکوتیں ان کے اوطاق پر بنی اور ٹوٹیں۔ وہ ایک انتہائی منجھے ہوئے پارلیمینٹرین بھی تھے۔ عبداللہ ہارون اور جی ایم سید ہی تھے جو جناح صاحب کو کراچی سمیت سندھ میں متعارف کرانے والے تھے جب انہوں نے جناح صاحب کا پہلا جلسہ نیپئر روڈ کےعلاقے میں کرایا تھا۔ کئی برس ہوئے کہ مجھے بلوچ تاریخ دان اور پاکستان تحریک کے کارکن یوسف نسقندی نے بتایا تھا کہ جی ایم سید اس وقت اتنے مقبول لیڈر تھے کہ اگر ان کے نام پر کھمبا کھڑا ہوتا تو انتخابات میں لوگ اس کو بھی ووٹ دےکر کامیاب کرتے۔
سر جمشید نسروانجی اور ہاشم گزدر اور حاتم علوی جیسے منجھے ہوئے سیاستدانوں کے ساتھ وہ جدید کراچی کے فائونڈنگ فادرس میں سے تھے، جب وہ سندھ کے وزیر تعلیم تھے تو سندھ یونیورسٹی جو کہ شروعاتی طورکراچی میں قائم ہوئی اور ریڈیو پاکستان کی موجودہ عمارت اورسندھی ادبی بورڈ جی ایم سیدکی کاوشیں تھیں۔
لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ وہ سندھ میں بڑی حد تک اس زمانے میں ہندو۔ مسلم فرقہ واریت کے بانیوں میں سے تھے اگر چہ وہ باقی زندگی میںاپنی اس غلطی کوگناہ کبیرہ مانتے رہے ۔ اسی فرقہ واریت کے نتیجے میں سندھ میں سکھر میں مسجد منزل گاہ فسادات ہوئے تھے جس میں بڑی تعداد میں دونوں طرف کے لوگ مارے گئے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سندھ سے ہند نقل وطنی کرنے والوں کی پہلی پود نے اکثر جی ایم سید کو کبھی معاف نہیں کیا نہ ان کا یہ کردار فراموش کیا ۔ لیکن جی ایم سید اس کے بعد اپنی تمام نظربندیوں جیلوں اور پاکستان میں عتاب کو اپنے ایسے تاریخی گناہوں اور غلطیوں کا کفارہ کہتے رہے تھےجن کا انہوں نے ہمیشہ برملا عتراف کیا جو اخلاقی جرأت پاکستان میں آج یا ماضی قریب و بعید میں کسی بھی سیاستدان میں نہیں پائی جاتی ، سوائے غفار خان باچا خان کے۔ جی ایم سید جب پیر پگارا پیر صبغت اللہ شاہ سینئر (یعنی موجودہ پیر پگاڑو کے دادا) کے پاس ان کو تحریک پاکستان کے دوران مسلم لیگ میں شمولیت کی دعوت دینے گئے تھے تو پیر صبغت اللہ نے اپنی یہ مشہور پیشگوئی کی تھی کہ یاد رکھو کہ یہی جاگیردار اور انگریزوں کے ٹوڈی راج کریں گے اور تم اس تحریک سے ایسے نکال دیئے جائو گے جیسے مکھن سے بال نکال لیا جاتا ہے اور عین ممکن ہے کہ باقی مدت تمہیں جیلوں میں گزارنی پڑے۔جی ایم سید کے ساتھ پاکستان سے قبل ہی وہ سلوک شروع ہوچکا تھا جو پاکستان بننے کے بعد پنجاب میں مسلم لیگیوں نے میاں افتخار الدین جیسے قومی رہنماء سے کیا تھا۔ دو نمبر لوگ جن کا پاکستان بنانے میں کوئی کردار نہ تھا وہ پاکستان کے مامے بن بیٹھے۔ سید اپنی زندگی کے اٹھائیس سال قید و نظربندیوں میں رہے اور ان کی وفات بھی حالت قید وبیماری میں ہوئی۔ وہ شاکر و صابر رہنما تھے۔ بالکل اس نوحے کی طرح :
پتھر جو ماریں لوگ تو سید دعا کرے۔
انہوں نے نے درجنوںکتابیں دوران قید تصنیف کیں اور شاہ لطیف کی شاعری لطیف اور سندھی وطن پرستی کو نئے معانی دئیے۔ انہوں نے کہا تھا سندھ دائم و قائم ہے جس میں پاکستان گزرتا ہواایک جلوس ہے۔سندھ پانچ ہزار سال سے ہے۔آگے چل کر سندھ میں انتخابات میں مسلم لیگ کے امیداوروں کے ٹکٹوں سمیت سندھ میں مسلم لیگ کے معاملات پر جناح صاحب سے سید کے اختلافات ہوئے اور جی ایم سید مسلم لیگ سے علیحدہ ہو گئے۔ جی ایم سید کے مقابلے میں چھیالیس کے انتخابات میں جناح صاحب نے مسلم لیگ کا ٹکٹ قاضی محمد اکبر کو جاری کیا جو ان انتخابات میں کامیاب قرار دئیے گئے۔جی ایم سید ایسے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف الیکشن ٹربیونل میں گئے جس نے پاکستان بننے کے بعد ان انتخابات کے نتیجے کو دھاندلی قرار دیا اور اس کے نتیجے میں پیر الٰہی بخش کو اپنی وزارت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ کئی سالوں بعد اپنی زندگي کے آخری انٹرویو میں قاضی محمد اکبر نے اعتراف کیا کہ جی ایم سید کے خلاف واقعی ان انتخابات میں دھاندلی کی گئ تھی(شاید ایسا انٹرویو انسٹیٹوٹ آف سندھیالوجی جامشور کے آرکائیوز میں آج بھی کہیں محفوظ ہو) ۔
کراچی کی سندھ سے علیحدگی اور اسے وفاقی کنٹرول میں میں دینے کی مخالفت میں انہیںکراچی جیل میں قید کردیا گیا تھا جہاں وہ شاید تریپن تک نظربند رہے۔ وہاں معروف مزدرو رہنما بیچر بھی نظر بند تھے جو بمبئی کونسل کے رکن تھے جو سندھ کی بمبئی سے آزادی کی جدوجہد کرتے رہے تھے لیکن محض ہندو ہونے کی بنیاد پر قیام پاکستان کے بعد نظربند کردئیے گئے تھے۔ واہ رے پیارے پاکستان تیرا تیرے محسنوں سے حسن سلوک ۔
انیس سو چھپن میں وہ مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن بنے اور دولتانہ کے ساتھ مل کر ون یونٹ کے خلاف متفقہ قراداد اسمبلی میں کامیابی سے لانے کو تھے کہ اکتوبر اٹھاون کو ملک میں پہلا مارشل لا لگادیا گيا ۔جی ایم سید نے انیس سو پچاس کی دہائی میں ہی ملک میں مذہبی شدت پسندی سے متنبہ کیا تھا۔انہوں نے اپنی سیاست کا تمام محور و قبلہ سندھ کو بنایا اور سندھ متحدہ محاذ کے نام سے جماعت بنائی اورانیس سو ستر کے انتخابات میں ہار جانے اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعد تیئس مارچ انیس سو تہتر کو انہوں نے’’سندھو دیش‘‘ کا نعرہ لگایا۔ جس نے سندھ کے کئی نوجوانوں اور طلبہ اور سیاسی کارکنوں کو انکے گرد عشاق کی طرح جمع کیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جی ایم سید اتنی قدآور شخصیت اور اس ملک کی بنیادیں ڈالنے والے تھے اور ان پر غداری کے الزام اور طوق ڈالنے والے بالکل بونے جن کا تاریخ کے پہیے پر وزن ایک مکھی کے برابر بھی نہ تھا۔ جناح صاحب اگر آج ہوتے تو ان کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا کہ یہ کوتاہ قد نام نہاد قوم کے مامے یہ سلوک ان کی بہن کے ساتھ کر چکے تھے۔ یہی مشرقی بنگال کے ساتھ ہوا جو جی ایم سید کی طرح پاکستان کی قرارداد لانے میں آگےآگے تھے۔ دودن بعد اس سید اور ملک کے غدار اعظم یا عظیم محب وطن کی سالگرہ ہے۔