اس بار ہم سول سروسز ریفارم پر لکھنا چاہتے تھے کہ اچانک سی پی این ای کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر جبار خٹک نے اطلاع دی کہ ترک وزیراعظم احمد دائود اوغلو سی پی این ای کے عہدیداروں سے ملنا چاہتے ہیں۔ ہم اسلام آباد پہنچے تو ان سے منگل کی رات ساڑھے نو بجے ہماری ملاقات طے تھی لیکن ترک وزیراعظم نے سارے دن کی بے پناہ جاں گسل مصروفیات کے باوجود رات کو تاخیر سے مدیروں کیساتھ ملاقات کیلئے وقت نکالا۔ وہ جب ہال میں داخل ہوئے تو انتہائی خوشگوار موڈ میں تھے‘ تب رات کے 12بج رہے تھے۔ انتہائی مصروف دن گزارنے کے باوجود انکے چہرے پر تھکن کے آثار تک نہیں تھے‘ وہ بالکل ہشاش بشاش دکھائی دے رہے تھے۔ انہوں نے مسکراہٹ کیساتھ انتہائی پرتپاک انداز میں تمام ایڈیٹروں کو خوش آمدید کہا اور فرداً فرداً سب سے مصافحہ کیا اور حال احوال بھی دریافت کیا۔ بطور ترک وزیراعظم احمد دائوداوغلو کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ تھا البتہ وزیر خارجہ کی حیثیت سے وہ متعدد مرتبہ پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔ ترکی میں انہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز سفیر کے طور پر کیا اور بعد میںاپنے قریبی دوست طیب اردگان کی سیاسی پارٹی ’’ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ‘‘ میں شمولیت اختیار کر لی جس کی بنیاد استنبول کے سابق میئر طیب اردگان نے 2001 میں رکھی تھی جنہوں نے ترکی کے عام انتخابات میں تین بار بھاری اکثریت سے فتح حاصل کی۔ اس پارٹی کے سربراہ کے طور پر طیب اردگان ترکی کے 36ویں وزیراعظم بھی رہے۔ جب طیب اردگان نے وزارتِ عظمیٰ سے دستبردار ہو کر ترک صدر کا عہدہ سنبھال لیا تو احمد دائود اوغلو پارٹی کی طرف سے ترکی کے وزیراعظم نامزد ہو گئے اور انہوں نے وزارتِ خارجہ کا عہدہ چھوڑ کر 28 اگست2014 کو وزیراعظم کا عہدہ سنبھال لیا۔ احمد دائود اوغلو اپنے پیشرو طیب اردگان کی طرح روشن خیال اور لبرل پالیسیوں کے حامی ہیں۔ وہ ترکی میں سلطنت ِ عثمانیہ کے احیاء کے قائل ہیں اور پین اسلامسٹ فارن پالیسی کے بے لاگ حمایتی بھی۔ سماج اور سرکار میں نئی راہیں متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ وہ ترکی کے آئین میں بھی اصلاحات لانا چاہتے ہیں۔ بدعنوانی کا خاتمہ اور مزدوروں کے حقوق ان کی سیاسی بصیرت کی اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔ وہ شام اور عراق میں امریکہ کی جنگی اجارہ داریوں کے قطعی قائل نہیں۔ احمد دائود اوغلو ایک جدت پسند مسلمان ہیں اور اسلامک بلاک کے زبردست حامی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اسلامو فوبیا سے نجات حاصل کرنے کیلئے اسلامی دنیا کی ایک اپنی تنظیم ہونی چاہئے جو ایک متبادل اقوام متحدہ کا کردار ادا کر سکے۔ احمد دائود اوغلو چونکہ مصنف اور کالمسٹ بھی ہیں اسلئے ان میں مفکرانہ سوچ اور ایک طے شدہ پولٹیکل وژن موجود ہے۔ ترکی میں ان کاسابقہ کیریئر اس فلسفے کی غمازی کرتا ہے کہ وہ ترکی کے یورپین یونین کا حصہ تسلیم نہ کئے جانے اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رُکنیت نہ ملنے پر مغرب اور مغربِ بعید کی مسلم دشمنی اور عالمی مالیاتی وسیاسی اجارہ داریوں کیخلاف علم ِ بغاوت بلند کرنے کی مستقبل قریب میں منصوبہ بندی کرنے جارہے ہیں۔ احمد دائود اوغلو اغلباً اقوام متحدہ کے ساتھ ساتھ یورپین یونین کا متبادل مسلم یونین میں دیکھ رہے ہیں۔ اس مسلم یونین کے ستانوے فیصد ممالک مشرقِ وسطیٰ میں واقع ہیں اور جغرافیائی لحاظ سے بھی وہ ترکی کے اطراف میں ہیں۔ مڈل ایسٹ سے ہٹ کر بھی پاکستان، افغانستان اور روس سے آزاد ہونے والی وسطی ایشیائی مسلم ریاستیں سرحدی طور پر یکے بعد دیگرے کسی نہ کسی مسلم ریاست سے مربوط ہیں، اس طرح ان سب ریاستوں کو ایک گرینڈ موٹروے یا ریلوے لنک کے ذریعے استنبول سے جوڑنا مشکل نہیں۔ ترکی اور پاکستان کے درمیان دوستی کے لازوال رشتے میں وقت کے ساتھ ساتھ بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ہمارے ساتھ ملاقات میں احمد دائود نے مختلف نوعیت کے اُمور پر تفصیلی گفتگو کی۔ ترکی اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے وہ بہت گرم جوش اور جذباتی دکھائی دئیے۔ ان کی آنکھوں کی چمک اور باڈی لینگوئج بھی اسی گرم جوشی کا اظہار کر رہی تھی۔ ان کی دل میں اُتر جانیوالی سحرانگیز گفتگو نے ہمارے دل بھی موہ لئے‘ وہ غیرمعمولی صلاحیتوں کے مالک ہیں اور اپنے مدمقابل کے دل میں اُتر جانے کا فن بھی بخوبی جانتے ہیں۔ اُن کی خوداعتمادی سے بھرپور گفتگو مستقبل کے اندیشوں اور مسائل کے حل کیلئے مکمل پیش بندی اور بھرپور عزم کا اظہار کر رہی تھی۔ دن بھر کی مصروفیات میں پاکستان کیساتھ کئی شعبوں میں ایم او یوز بھی سائن کئے اور کئی شعبوں میں بھرپور پیشرفت پر بھی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ترکش ائیرلائن یورپ کی سب سے بڑی ائیرلائن بن چکی ہے‘ پاکستان میں بھی اسکی پروازوں میں غیرمعمولی اضافہ کیا جا رہا ہے۔ احمد دائود کیساتھ سی پی این ای کے منتخب ایڈیٹرز کے وفد کی ملاقات میں مجھ سمیت صدر سی پی این ای مجیب الرحمن شامی‘ ڈاکٹر جبار خٹک‘ ایاز خان‘ الیاس شاکر‘ جمیل اطہر‘ راشد رحمن‘ شاہین قریشی‘ عامر محمود‘ مہتاب خان‘ ممتاز طاہر‘ طاہر فاروق‘ وسیم احمد‘ زاہد ملک‘ حامد حسین عابدی‘ غلام نبی چانڈیو اور عمرمجیب شامی شامل تھے جبکہ ترکش سفارتخانے کے سیکنڈ سیکرٹری اتیلا گوزل‘ ان کی اہلیہ محترمہ اسرا گوزل اور سفارتخانے کے ڈائریکٹر غضنفر محمود نے ہمارے وفد کیساتھ غیرمعمولی تعاون کیا۔ وزیراعظم نے انتہائی فری ماحول میں بغیر کسی مصلحت کے اپنے ملک کے مسائل اور پاکستان کے مسائل پر بھی بات کی۔ انکا کہنا تھا کہ پاکستان مسلم سیاست کی تجربہ گاہ ہے اور وہ پاکستان کی کامیابی مسلم دنیا کی کامیابی تصور کرتے ہیں۔(جاری ہے)