پاکستان میں جمہوریت ہمیشہ مشکلات میں گھری نظر آتی ہے۔ اس کے خاتمے کے خطرات بدستور منڈلاتے رہتے ہیں۔ یہی صورتحال سردست موجود ہے۔ ایک جانب ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے تیز و تند بیانات جس میں بعض اوقات وہ جرنیلوں سے بھی گلہ کرتے نظر آتے ہیں جس کے بعد ان کی براہِ راست تقریر پر پابندی عائد کردی جاتی ہے۔ ان کی جماعت کو ایک طاقتور آپریشن کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا مقتدر حلقوں کے خلاف بات صرف الطاف حسین نے کی ہے یا کوئی اور بھی کرتا ہے؟ گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر پر یہ الزام لگا کہ انہوں نے تحریک انصاف کے لئے سابق جنرلوں کی مدد حاصل کی۔ اس میں دو نام بھی منظر عام پر آئے کہ انہوں نے دھرنوں کے انعقاد کےلئے پلاننگ کی تھی اور وہ حکومت کا تختہ اُلٹنا چاہتے تھے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک مبینہ ویڈیو بھی سامنے لائی گئی لیکن ان بیانات پر کوئی خاطرخواہ گفتگو نہ ہوئی جبکہ ایم کیو ایم اور اس کے قائدا لطاف حسین تمام ٹیلی ویژن چینلز کے ٹاک شوز اور اخباری حاشیوں کی زینت بنے رہے کہ وہ فوج کے خلاف باتیں کر رہے ہیں اور را سے مدد لینے کا عندیہ دے رہے ہیں۔
ابھی یہ باتیں چل ہی رہی تھیں کہ گزشتہ دنوں مسلم لیگ (ن) کے رہنما مشاہد اللہ خان نے بین الاقوامی نشریاتی ادارے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا کہ 28اگست2014ء کو میاں نواز شریف نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو طلب کرکے وہ مبینہ ٹیپ سنوائی جس میں ظہیر الاسلام جو اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ تھے حکومت کا تختہ اُلٹنے کی بات کر رہے تھے۔ بری فوج کے سربراہ کو اس ٹیپ پر بڑی حیرانی ہوئی تھی۔ اب یہ بیان کس حد تک صداقت پر مبنی ہے، اس کا فیصلہ تو شاید کبھی نہ ہوسکے لیکن مشاہد اللہ خان نے اپنی گفتگو میں مزید ایک حیرت انگیز بات کی ، وہ یہ تھی کہ یہ ظہیر الاسلام کا انفرادی عمل تھا۔ اور فوج بحیثیت ادارہ اس میں شامل نہ تھی جبکہ مشاہد اللہ خان کی زبان یہ کہتے نہ تھکتی تھی کہ 1999ء کی فوجی کارروائی پرویز مشرف کی انفرادی حیثیت میں کی جانے والی کارروائی تھی اور فوج اس میں شامل نہ تھی اور اگر فوج شامل نہ تھی تو وہ کس طرح منصب اقتدار پر قابض ہوگئے؟ اس کا جواب تو مشاہد اللہ خان کو دینا ہوگا۔ بحیثیت ادارہ اتنا نقصان شاید الطاف حسین کی گفتگو سے نہ پہنچا ہو جتنا نقصان عمران خان ، مشاہد اللہ خان اور تحریک انصاف کے دھرنوں کے پیچھے کھڑی قوتوں کے حوالے سے مقتدر ادارے کو پہنچا ہے۔ یہ بات پاکستان کے عوام کے مشاہدے میں ہے کہ دھرنوں کے دوران آرمی چیف راحیل شریف نے عمران خان سے بھی ملاقات کی تھی اور طاہر القادری سے بھی۔ آج ایسے وقت میں جب فوج بڑی خطرناک جنگ میں گھری ہوئی ہے۔ ایک جانب کنٹرول لائن، ورکنگ بائونڈری پر صورتحال کشیدہ ہے تو دوسری جانب شمال مغربی سرحدوں سے بھی اچھے پیغامات نہیں آرہے۔ ایسے میں داخلی خانہ جنگی اور سیاسی عدم استحکام ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اگر الطاف حسین کا فوجی جنرلوں سے گلہ ناجائز ہے تو کیا مشاہد اللہ خان اور عمران خان کے بیانات حب الوطنی کا مظہر ہیں؟ لہٰذا ایسے معاملے میں جب اداروں کی بالادستی اور جمہوریت کے استحکام کی بات ہوتو ہماری نظریں صرف پارلیمنٹ اور عدلیہ کی جانب ہونی چاہئیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ تمام معاملات عدالت عظمیٰ کے روبرو رکھے جائیں اور وہ اس بات کا فیصلہ کرے کہ الزام لگانے والے درست ہیں یا جن پر الزام لگا ہے، وہ درست ہیں۔ اگر وہ غلط ہیں تو ان کے خلاف انضباطی کارروائی آئین اور قانون کے مطابق ہونی چاہئے۔ کل تک پاکستان کے ذرائع ابلاغ پر سنگین غداری کیس کا واویلا تھا جو پرویز مشرف کے خلاف چل رہا ہے لیکن آج انتہائی غیر محسوس طریقے سے اس کا ذکر بھی ختم کردیا گیا ہے۔
مشاہد اللہ خان اور عمران خان ایسے بیانات دے کر مارشل لاء کا راستہ روک نہیں سکتے۔ مارشل لاء کا راستہ قانون کے نفاذ سے ہی رک سکتا ہے۔ پرویز مشرف اور ان ساتھیوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ سابق جنرل پاشا اور سابق جنرل ظہیر الاسلام پر لگنے والے الزامات کا بھی احاطہ کیا جانا چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ الطاف حسین کی گفتگو کا بھی جائزہ لیا جانا چاہئے کہ وہ کس حد تک ملک کے آئین اور قانون کے خلاف ہیں۔ کس کے خلاف کیا کارروائی ہونی چاہئے ، اس کا فیصلہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو کرنا چاہئے، نہ کہ اس کا فیصلہ ذرائع ابلاغ میں کیا جائے۔ یہ مسئلہ ملک کی سالمیت ، وقار اور بقاء کا ہے۔ یا تو پاکستان کے ماضی کی تاریخ کو ایک تلخ باب سمجھ کر بند کیا جائے اور آگے کی جانب دیکھا جائے۔ تمام حلقوں کے تحفظات دور کئے جائیں۔ یہاں یہ بات بھی ہمارے اذہان میں رہنی چاہئے کہ ایم کیو ایم اور الطاف حسین نے کراچی آپریشن کے خاتمے کی بات نہیں کی بلکہ وہ اس میں موجود مبینہ زیادتیوں اور جانبداری کا گلہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر ہم ایک غیر جانبدارانہ نظر سے دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بعض قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک فریق کی حیثیت سے اپنے ردِ عمل کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔
اگر کسی کے پاس ایم کیو ایم کے ملک دشمنی کے ثبوت ہیں، اس کے کسی جرم کا ثبوت ہے تو وہ صحافیوں اور اینکر پرسنز سے اس کا تبادلہ نہ کرے بلکہ اس کی بنیاد پر مقدمات تیار کرکے یہ فیصلے عدالتوں میں ہونے چاہئیں۔ یہ وہ رویہ ہے جسے ایم کیو ایم جانبداری سے تعبیر کرتی ہے ۔ جسے وہ تعصب اور دیوار سے لگا دینے جیسے الزامات سے تعبیر کرتی ہے۔ اگر ادارے اپنے آئینی و قانونی حدود میں رہ کر کام کریں اور سب کو چاہے وہ ملزم ہوں یا مجرم یا بے گناہ، ان کو بلا امتیاز رنگ و نسل و مذہب اِس ملک کا شہری سمجھیں۔ اس پورے پر آشوب دور میں جو سب سے مثبت بات سامنے آئی ہے وہ قوم کا انہترواں یوم آزادی ہے جسے پوری قوم نے انتہائی جوش و جذبے سے منایا ہے جس کی نظیر پاکستان کی تاریخ میں کم کم دستیاب ہے لیکن یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ بلوچستان میں یہ تقریبات سرکاری عمارتوں اور ایک اسٹیڈیم تک محدود رہی ہیں۔ اب بھی وہاں بہت سا سفر طے کرنا ہے۔ بالکل اسی طرح شمال مغربی علاقوں میں ہونے والے آپریشن کے بعد آنے والی تبدیلی کو سیاسی عمل کے ذریعے مستحکم کرنا ہوگا۔ جب تک انصاف کی نظر سے تمام شہریوں کو نہیں دیکھاجائے گا، اس وقت تک صورتحال تبدیل نہیں ہوگی۔ بہرحال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات ہیں جو بہت سے مؤرخین نے لکھے ہیں جنہیں ہم کڑوے سچ سے تعبیر کرسکتے ہیں جس میں بریگیڈئیر صدیق سالک، کرنل محمد خان اور وہ سیاسی اکابرین جو جیلوں میں رہے، انہوں نے اپنی کتابوں میں لکھے ہیں۔ وہ تاریخ کا ایک سچ ہیں۔ جب یہ سچ ٹیلی ویژن یا ذرائع ابلاغ میں آتا ہے تو پھر غداری اور وفاداری کا عنصر پیدا کرکے اس سچ کو دبایا جاتا ہے۔ اگر ہم اس کا ذکر نہیں چاہتے تو آزادی کی نعمت کو حقیقی طور پر آزادی بنا کر عوام کے سامنے رکھیں۔ ان کے حقوق انہیں میسر ہوں اور عوام کو اپنے فرائض کا پتہ ہو، تب جا کر ہم زندہ قوم بن سکتے ہیں۔