دادا نے ان کا نام قمرالاسلام رکھا لیکن والد کو یہ نام پسند نہ آیا۔ انہوں نے بیٹے کا نام جاوید رکھا۔ یہ جاوید ابھی کچھ سال ہی کا تھا جب والد نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا؎
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
یہ علامہ اقبال کا جاوید تھا جس نے اپنا ایک الگ مقام پیدا کرکے اپنے عظیم والد کی خواہش کو پورا کیا۔ علامہ اقبال نے اپنی ایک کتاب’’جاوید نامہ‘‘ کو اسی پیارے بیٹے کے نام سے موسوم کیا جو ڈاکٹر جاوید اقبال اور پھر جسٹس جاوید اقبال بنا۔3اکتوبر2015ءکی صبح مجھے جناب جاوید اقبال کے انتقال کی خبر ملی تو میں صدمے کے ساتھ ساتھ ملال کی کیفیت سے دو چار ہوگیا۔ ملال اس بات کا تھا کہ کچھ ہی دن پہلے ان سے فون پر بات ہوئی اور کچھ معاملات پر رہنمائی کیلئے لاہور میں تفصیلی ملاقات طے ہوئی تھی لیکن اس ملاقات سے پہلے ہی وہ اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔ جسٹس(ریٹائرڈ) ڈاکٹر جاوید اقبال کے ساتھ میرا پہلا باقاعدہ تعارف ان کی کتاب’’زندہ رود‘‘ کے ذریعہ ہوا تھا۔ انہوں نے بڑی تحقیق اور دیانت داری کے ساتھ علامہ اقبال کے حالات زندگی پر سب سے زیادہ مستند کتاب تحریر کرکے اپنے والد کے متعلق کئی غلط فہمیوں اور خوش فہمیوں کو دور کردیا۔ اسی کتاب کے مطالعے سے مجھے1933میں علامہ اقبال کے سفر افغانستان کی تفصیلات سے آگاہی حاصل ہوئی۔ مجھے پتہ چلا کہ کس طرح علامہ اقبال کابل سے غزنی پہنچے اور انہوں نے وہاں حکیم سنائی کے علاوہ حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ کے والد کی قبر بھی ڈھونڈ نکالی اور فاتحہ خوانی کی۔2003ءمیں مجھے غزنی جانے کا موقع ملا تو میں نے بھی وہاں کے ایک قدیم قبرستان میں فارسی کے شاعر حکیم سنائی کی قبر ڈھونڈ لی۔ سلطان محمود غزنوی کے مقبرے پر فاتحہ خوانی کے بعد مجھے حضرت علی ہجویریؒ کے والد کی قبر کی تلاش تھی لیکن بڑی مشکل پیش آرہی تھی۔’’زندہ رود‘‘ میں حضرت علی ہجویریؒ کے والد کا نام تحریر نہیں تھا لیکن میں نے اور میرے کیمرہ مین حمران الیگزنڈر نے شہر کے مضافات میں حضرت عثمان علی ہجویریؒ کا مقبرہ تلاش کرلیا اور پھر یہ مقبرہ جیو ٹی وی پر دکھایا گیا تو مجھے جاوید اقبال صاحب سے شاباش ملی۔ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال میرے ساتھ ہمیشہ بہت شفقت اور محبت کے ساتھ پیش آتے۔ کئی بار میرے کچھ ایسے تقاضے بھی پورے کردیتےجو ان کے مقام و مرتبے کے مطابق نہ ہوتے لیکن ان میں بڑی عاجزی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایک دن ہم نے23مارچ کو مینار پاکستان کے سائے تلے کیپٹل ٹاک کی محفل جمانے کا فیصلہ کیا اور موضوع یہ رکھا کہ کیا آج کا پاکستان علامہ اقبال اور قائد اعظم کا پاکستان ہے یا نہیں؟ ہم نے جاوید اقبال صاحب کو اس پروگرام میں شرکت کی دعوت دی تو انہوں نے پوچھا کہ کیا ان کی موٹر کو اقبال پارک کے اندر جانے کی اجازت ملے گی؟ معلوم ہوا کہ اقبال پارک کی کارپارکنگ سے مینار پاکستان تک کافی فاصلہ تھا اور ان دنوں جاوید اقبال صاحب کمر کی تکلیف میں مبتلا تھے زیادہ چل نہ سکتے تھے۔ بہرحال میرے اصرار پر تشریف لے آئے اور انہوں نے مینار پاکستان کے سائے میں بیٹھ کر پرویز مشرف کی روشن خیال اعتدال پسندی کو ایک دھوکہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ فوجی آمریت پاکستان کیلئے زہر ہے۔ اسی پروگرام میں انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ اگر جنرل ایوب خان کے دور میں دھونس اور دھاندلی کے ذریعہ محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی الیکشن میں شکست نہ دی جاتی تو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش نہ بنتا۔
ایک مرتبہ میں نے 4اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر انہیں اپنے پروگرام کیپٹل ٹاک میں مدعو کرلیا جس میں احمد رضا قصوری بھی موجود تھے۔ جاوید اقبال صاحب اسی لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے تھے جس نے بھٹو کو پھانسی کی سزا دی۔ یاد رہے کہ1970میں جاوید اقبال صاحب نے لاہور سے کونسل مسلم لیگ کی ٹکٹ پر ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف الیکشن بھی لڑا اور ہار گئے تھے لیکن جب میں نے بھٹو کی پھانسی کے متعلق سوال پوچھا تو جاوید اقبال صاحب نے کہا کہ ان کی دانست میں بھٹو کی پھانسی کی سزا درست نہ تھی۔ پھر انہوں نے ایک واقعہ سنایا اور بتایا کہ جس رات ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی وہ اپنے گھر میں سورہے تھے۔ رات تین بجے کے قریب انہیں محسوس ہوا کہ کسی نے ان کی چادر کھینچ کر پرے پھینکی،وہ ہڑ بڑا کر بستر پر بیٹھ گئے انہوں نے دیکھا کہ کھلے کالر اور کھلے کفوں کی قمیض اور شلوار پہنے بھٹو انہیں انگریزی میں کہہ رہے ہیں.....دیکھو انہوں نے میرے ساتھ کیا کردیا‘‘۔ جاوید اقبال صاحب نے یہ واقعہ اپنی خود نوشت’’اپنا گریباں چاک‘‘ میں بھی بیان کیا۔ یہ کتاب بھی جنرل پرویز مشرف کے دور میں شائع ہوئی جو بھٹو کو فاشسٹ قرار دیا کرتے تھے لیکن فرزند اقبال نے فوجی آمر کی ناراضی کی کوئی پروا نہ کی بلکہ اس کتاب میں مشرف پر بھی تنقید کرڈالی۔’’اپنا گریباں چاک‘‘ میں جاوید اقبال صاحب نے اپنے متعلق کوئی غلط بیانی نہیں کی۔ اپنی خود نوشت میں اپنے پرانے دوست جناب مجید نظامی کے یہ خیالات بھی تحریر کردئیے کہ جاوید اقبال کو علامہ اقبال کے گھر پیدا ہونے پر بڑا غصہ ہے نیز وہ علامہ اقبال سے آگے نکل جانے کی خاطر ہاتھ پائوں مارتے رہتے ہیں۔ آگے چل کر مجید نظامی کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ شاید مجید نظامی کو اس بات کا گلہ ہے کہ میں مخصوص قومی تقاریب کے سلسلہ میں مزار اقبال پر جانے سے گریز کرتا ہوں کیونکہ میں مزار اقبال سے اپنی وابستگی ظاہر کرکے یہ تاثر نہیں دینا چاہتا کہ میں’’سجادہ نشین‘‘ ہوں۔ اب رہ گئی بات علامہ اقبال سے آگے نکل جانے کی تو ایسی کوئی کوشش قابل اعتراض نہیں کیونکہ یہی ترغیب تو علامہ ا قبال ہمیں دیتے تھے کہ کسی صاحب فکر سے آگے بڑھ جانے سے مراد اس کی تحقیر کرنا نہیں بلکہ اس کی توقیر برقرار رکھتے ہوئے اس کے بتائے ہوئے راستے سے نئی راہیں تلاش کرنا دراصل فکری تسلسل کو آگے بڑھانا ہے۔جاوید اقبال صاحب نے زندگی بھر اپنے والد کے فکر و فلسفے کو فروغ دینے کی کوشش کی لیکن کبھی اپنے والد کے نام کو فروخت کیا نہ ان کے نام پر کوئی دکان بنانے کی کوشش کی۔ اپنی خود نوشت میں صاف صاف لکھا کہ میں اپنے والد کی بڑھاپے کی اولاد تھا۔میرے والد نے شیخ احمد مجدد الف ثانیؒ کے مزار پر دعا کی تھی کہ اگر انہیں بیٹا ملا تو اسے ساتھ لے کر دوبارہ حاضر ہوں گے۔ جاوید اقبال کی عمر دس برس ہوئی تو1934ءمیں علامہ اقبال انہیں لے کر سرہند گئے اور وہاں قرآن پاک کی تلاوت کی۔ اتنے بڑے بزرگ کے ساتھ اپنی نسبت بیان کرنے کے بعد جاوید اقبال’’اپنا گریباں چاک‘‘ میں لکھتے ہیں کہ......’’بنیادی طور پر میں مذہبی سے زیادہ ثقافتی مسلمان ہوں‘‘۔بڑی سادگی سے اعتراف کرلیا کہ ایک طویل عرصہ تک چار نمازیں باقاعدگی سے پڑھتے تھے۔ حج و عمرہ کے بعد پانچ نمازیں شروع کیں۔ خود نوشت میں والد کے ہمراہ پتنگ بازی اور بسنت منانے کے قصے بیان کرکے ان مولویوں کو ناراض کردیا جو بسنت کو غیر اسلامی قرار دیتے ہیں۔ سوشلسٹ دانشور انہیں اسلام پسند اور مولوی حضرات انہیں ملحد قرار دیا کرتے تھے۔ علامہ اقبال نے جو شعر اپنے بارے میں کہا تھا اس کا اطلاق ان کے بیٹے پر بھی ہوتا ہے؎
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں
اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان نے جاوید اقبال صاحب کو وزیر بنانے کی پیشکش کی لیکن انہوں نے معذرت کرلی تھی۔1970ءمیں بھٹو سے الیکشن ہارنے کے بعد لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انوارالحق نے انہیں جج بننے کی پیشکش کی تو انہوں نے قبول کرلی۔ صدر یحییٰ خان کو پتہ چلا تو پیغام بھجوایا کہ آپ جج نہ بنیں میں 1970ءکے الیکشن کو کالعدم قرار دے کر نیا الیکشن کرانے کے بارے میں سوچ رہا ہوں آپ میرا ساتھ دیں لیکن فرزند اقبال نے انکار کردیا۔ بعد ازاں وہ ایڈہاک جج بن گئے۔ بھٹو انہیں سیاست میں لانا چاہتے تھے لیکن انہوں نے بھٹو کو بھی انکار کردیا۔1993ءمیں نواز شریف نے صدر غلام اسحاق خان کو تجویز دی کہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو نگران وزیر اعظم بنادیا جائے لیکن صدر اسحاق نے انکار کردیا۔ جاوید اقبال کہا کرتے تھے کہ پاکستان ناکام ریاست نہیں ہے بلکہ اس کی موجودہ قیادت ایک ناکام نسل کے ہاتھوں میں ہے۔ وہ ایک ناکام نسل کے کامیاب دانشور تھے۔