SMS: #KMC (space) message & send to 8001
فکری بیداری نے قوموںکے مزاج کو تشکیل دینے میں ہمیشہ اہم کردار نبھایا ہے۔ انسانیت نے تہذیب و تمدن کی ترقی کی موجودہ منزلیں عقل و فکر کی راہنمائی میں ہی طے کرتے ہوئے اوج ثریا کو چھونے کی کوشش کی ہے۔ انسان ہی وہ مخلوقِ افضل ہے جسے خدائے بزرگ و برتر نے علم و فہم سے سرفراز کرتے ہوئے پیدا کیا اور اسکی طبع میں اختیاروجبر کا ایک ایسا مادہ ودیعت کر دیا جسے روبہ عمل لاتے ہوئے چاہے وہ اسفل السافلین میں شامل ہو جائے یا انبیاء و اولیاء کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے خود کو افضل ترین مخلوق میں شمار کروا لے۔ صرف اپنے ماضی سے چپک کر کوئی قوم بھی آج تک دنیا میں کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دے سکی۔ کٹھن اور نامساعد حالات کا سامنا کرتے ہوئے برصغیر پاک و ہند میں ایک مملکت اسلامیہ پاکستان کا قیام ایک کارنامہ سے کم نہیں تھا۔ پاکستان قومی راہنمائی اور مسلسل عوامی جدوجہد کی ایک درخشاں مثال تھا۔ بیگانے اس تصور کو محض شاعر کا ایک خواب قرار دیتے تھے اور دیوانے ہر صورت اس خواب کی تعبیر کے تمنائی تھے۔ علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے قومی معماروں کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے مسلمانوں میں علمی و فکری لہر کی بیداری میں مرکزی کردار ادا کیا اور اپنی فکری عظمت کے بل بوتے پر ایک سوئی ہوئی قوم کو جھنجوڑتے ہوئے اسے ایسی منزل عظمیٰ کی خبر دی جس تک رسائی حاصل کرکے وہ قومی ترقی کے سفر کانئے سرے سے آغاز کر سکتے تھے۔ اقبال نے مسلمانوں کی نوجوان نسل کو اپنے پیغام فردا کا محور قرار دیتے ہوئے انہیں علمی و فکری تربیت کی جانب راغب کرنے کی عظیم کوشش کی۔ کسی بھی قوم کا نوجوان طبقہ قومی ترقی کے لئے ہر اول دستہ کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ اقبال مشرقی و مغربی فکر کے نمائندہ شخص تھے۔ انہوں نے نبی رحمت ﷺکی اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے کہ’’علم حاصل کرو چاہے تمہیں اس کی خاطر چین بھی جانا پڑے‘‘ مشرق و مغرب کے عظیم فکری و عقلی چشموں سے فیض یابی حاصل کرتے ہوئے دین ِ اسلام کی بلندی کی خاطر مسلمانوں میں اجتہادی فکر و تدبر کو راہ دینے کی کوشش کی۔ انیسویں صدی میں سرسید احمد خاں نے مسلمانوں کی فکری و عقلی راہنمائی کا جو بیڑا اُٹھایا تھا اقبال نے اس کی تکمیل کرتے ہوئے نہ صرف اپنے افکار کے ذریعے مسلمانوں کی عملی و فکری راہنمائی کی بلکہ ان کی سیاسی قیادت کا فریضہ ادا کرتے ہوئے انہیں برصغیر میں مسلمانوں کی ایک علیحدہ مملکت کا خواب بھی دکھایا اور پھر قائد اعظم محمد علی جناح کی مدبرانہ بصیرت اور بے مثال راہنمائی کے ذریعے وہ خواب مسلمانوں کی عظیم مملکت پاکستان کی صورت میں ظہور پذیر ہوا۔دورِ حاضر کے معروف ایرانی فلسفی ڈاکٹر علی شریعتی نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’اسلام کے نقطہ نظر سے مثالی انسان وہ ہے جو فطرت کی طرف بے اعتنائی نہیں برتتا اور نہ ہی بنی نوع انسان سے منہ موڑتا ہے۔ آج پاکستان سیاسی، ثقافتی، تہذیبی، معاشرتی اور دیگر قومی حوالوں سے جس دوراہے پر کھڑا ہے اور جن مسائل کا وطن عزیز کو مختلف میدانوں میں سامنا ہے، فکر اقبال ان مسائل کا حل تلاش کرنے میں انتہائی ممدومعاون ثابت ہو سکتی ہے۔ انسانی ترقی ہمیشہ تازہ افکار و علوم کی مرہون منت رہی ہے۔ دنیا میں جن جن قوموں نے ترقی کی معراج کو چھوا، انہوں نے نئے علوم کی تحصیل اور زندگی کے میدان عمل میں ان علوم سے اخذ کئے گئے نتائج کے نفاذ سے کبھی پہلو تہی نہیں برتی۔ علامہ اقبال نے 1933ء میں پنجاب یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’وقت کا تقاضا ہے کہ اب ہم فقہی جزئیات کی چھان بین کی بجائے ان اہم شعبۂ ہائے علم کی طرف متوجہ ہوں جو ہنوز محتاج تحقیق ہیں۔ ‘‘اقبال نے بھی نوجوان مُسلم کو تدبر کا مشورہ دیتے ہوئے اصلاً اسے اجتہادی فکر اور افکار تازہ ٔسے روشناس کروانے کی کوشش کی تھی۔ آج پاکستان کے نوجوان طبقہ کو اقبال کی اسی اجتہادی فکر سے آشنا کرنے کے لئے ہمیں اپنی جامعات میں سائنسی طرزِ فکر اور تحقیقی کلچر کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔آج جب میں پاکستان کے علمی منظر نامہ پر نگاہ دوڑتا ہوں تو مجھے اپنے نوجوان طلبہ میں اُمید کی ایک نئی کرن نظر آتی ہے۔ ہمارا آج کا نوجوان طالب علم سائنس اور سماجیات کی نئی راہوں پر گامزن ہونے کے لئے بیتاب ہے ایسے میں جامعات کا اوّلین فرض ہے کہ وہ بہترین راہنمائی کا فریضہ سر انجام دیتے ہوئے موجودہ دور کے تہذیبی و علمی تقاضوں کے عین مطابق اس نوجوان طالب علم کا علمی و فکری سہارا بنتے ہوئے علم کی کشادہ منزلوں کی جانب پیش قدمی اور زندگی کے مختلف میدانوں میں علمی قیادت کے قابل بنانے کے لئے اس کا بھرپور ساتھ دیں۔ آج ہمارے مذہبی، سیاسی اور تمدنی حالات ہر درد مند محب وطن کے لئے لمحۂ فکریہ ہیں۔ اس نازک دور میں فکری راہنمائی کے لئے ہمیں ایک با رپھر فکرِ اقبال کی روشنی درکار ہے کیونکہ جنوبی ایشیاء میں مسلمانوں کی بیداری میں سب سے متحرک کردار اقبال ہی کا ہے۔ فکرِ اقبال ہمیں اپنی راہ نکالنے اور اپنے مسائل کو متعین کرنے کی آرزو پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے اور اسی راستے پر چل کر مستقبل میں روشن امکانات کی اُمید کی جا سکتی ہے۔ بقول اقبالؔ
قوم کو جس سے شفا ہو، وہ دوا کون سی ہے
یہ چمن جس سے ہرا ہو، وہ صبا کون سی ہے
قافلہ جس سے رواں ہو، سوئے منزل اپنا
ناقہ وہ کیا ہے، وہ آواز درا کون سی ہے
.