جب یہ سطور قلم بند کی جارہی ہیں ، اسپیکر قومی اسمبلی کے انتخاب کا عمل جاری ہے۔ کچھ دِ ن ہوئے ، بڑے چوہدری صاحب نے اسپیکر کا انتخاب اتفاقِ رائے کے ساتھ کرنے کی تجویز دی تھی کہ وہ عوام کے براہِ راست ووٹوں سے منتخب ہونے والے سب سے بڑے قومی ایوان اور اس کے ارکان کے حقوق و اختیارات کا کسٹوڈین ہوتا ہے لیکن چوہدری صاحب کی یہ آرزو ناتمام رہی۔ اب مسلم لیگ(ن) کے ایازصادق اور پاکستان تحریک ِ انصاف کے جناب شفقت محمود کے مابین یہ مقابلہ، ظاہر ہے، محض ایک رسمی کارروائی ہے۔ شفقت محمود کے بقول، پی ٹی آئی کو اس ’’معرکے‘‘ کا انجام معلوم ہے لیکن وہ اس جذبے کے ساتھ میدان میں اُتری ہے کہ ہر جگہ مسلم لیگ(ن) کا مقابلہ کرے گی۔ جی ہاں! مقابلہ، چاہے رسمی ہو، جمہوری عمل ہے اور اس عمل کا حصہ بننے کا پی ٹی آئی کا فیصلہ قابلِ قدر ہے۔ اس صورت میں یہ بات اور بھی اہم ہوجاتی ہے کہ حلقہ 122سے جناب ایازصادق کے دوبارہ انتخاب کو پی ٹی آئی پھر دھاندلی زدہ قرار دے رہی ہے(حالانکہ اس کے لئے فوج اور رینجرز کی نگرانی اور کیمروں کی تنصیب سمیت پی ٹی آئی کے تمام مطالبات تسلیم کرلئے گئے تھے)۔
ایوان میں موجود دوسری جماعتوں کی طرف سے ایازصادق کی حمایت کا فیصلہ ان کا آئینی و جمہوری حق ہے۔ اِن میں خیبر پختونخوا میںپی ٹی آئی کی اتحادی جماعت ِ اسلامی اور جناب شیرپاؤ کی قومی وطن پارٹی بھی ہیں جنہوں نے جون 2013میں بھی اسپیکر کے انتخاب میں ایازصادق کو ووٹ دیا تھا۔ جماعت ِ اسلامی کا معاملہ اس لحاظ سے دلچسپ ہے کہ 11اکتوبر کے ضمنی انتخاب میں اس نے ایازصادق کے مقابل علیم خاں کو سپورٹ کیا ۔ جناب شفقت محمود محض ایک سیاسی رہنما نہیں بلکہ اصحابِ علم و دانش میں بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ اُن کی طرف سے ایاز صادق کے لیے دیگر جماعتوں کی حمایت کومفادات پر مبنی ’’مک مکا‘‘ قرار دینا، سچ بات یہ ہے کہ ہمیں تو اچھا نہیں لگا۔ (انہوں نے حال ہی میںحلقہ 122کے ضمنی انتخاب میں علیم خاں کی شکست کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے، لاہور کی آرگنائزرشپ سے استعفے کا قابلِ تحسین فیصلہ کیا تھا)لیکن شاید وہ بھی اپنی پارٹی کی اس پالیسی کے پابند ہیں کہ سچائی صرف ہمارے پاس ہے اور حق پر وہی ہے جو ہمارے ساتھ ہے۔ گزشتہ سال شیرپاؤ صاحب کی قومی وطن پارٹی کو دھاندلی کے الزام کے ساتھ خیبر پختونخوا کابینہ سے الگ کردیا ۔ اب ضرورت پڑی تو پہلے سے زیادہ اہم اور زیادہ بااختیار وزارتوں کے ساتھ دوبارہ شامل کرلیا۔ تب وہ کرپٹ تھی، اب کابینہ میں واپس آئی ہے تو پاک صاف اور ایماندار و دیانتدار ہے۔
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
ریحام خان کا مسئلہ ، ابھی کچھ عرصہ مزید ہاٹ کیک بنا رہے گا۔شعیب بن عزیز کی ایک غزل کا مقطع ہے
لکھا رکھا ہے، عہدِ ترکِ الفت
مگر دل دستخط کرتا نہیں ہے
29اکتوبر کو نعیم الحق نے ریحام خان کو طلاق کی تصدیق کی تھی۔ 9دِن بعد ریحام خان نے طلاق نامے پر دستخط کے ساتھ باقاعدہ بیان بھی جاری کردیا،’’رشتہ ٹوٹنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ تعلق ٹوٹ گیا تھا‘‘۔ اس دوران کیا کیا کہانیاں منظرعام پر آئیں۔مثلاً، انٹرنیشنل میڈیا کانفرنس میں شرکت کے لئے ریحام کی لندن روانگی اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوئی۔ ریحام نے جہاز سے اُتر کر موبائل فون چیک کیا تو خان کی طرف سے طلاق، طلاق، طلاق کا ایس ایم ایس آیا ہوا تھا۔ادھر ریحام کا کہنا ہے کہ بنی گالہ سے لندن روانگی سے پہلے ہی دونوں نے باعزت علیحدگی کا فیصلہ کر لیاتھا۔ وہ بنی گالہ سے ہی اسلام آباد ایئرپورٹ گئی تھیں اور خان کا ڈرائیور انہیں چھوڑ آیا تھا۔ تعلق بوجھ بن گیاتھا توساحرلدھیانوی کے الفاظ میں دونوں نے اجنبی بن جانے کا فیصلہ کرلیا۔
وہ افسانہ جسے تکمیل تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
نسوانی جذبات کی اثر انگیز ترجمانی کرنے والی خوبصورت شاعرہ ، پروین شاکر یاد آئی
ممکنہ فیصلوں میںایک، ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی اُس نے کمال کردیا
علیحدگی کی وجوہات میں ایک اہم وجہ عمران کے چہیتے کتے بھی بتائے گئے، جو منہ اُٹھائے سارے گھر میں گھومتے پھرتے ، یہاں تک کہ خان کے بیڈروم میں بھی چلے آتے۔ ریحام کی طرف سے اُن پر پابندی، خان کے لئے سخت ناگواری کا باعث بنی۔ ریحام کے قریبی ذرائع اس کی تردید کرتے ہیں۔ اُن کے بقول، خان کے پانچ کتوں میں سے ایک ، ’’شیپرڈ‘‘ تو اُن کے بیڈروم ہی میں سوتا تھا۔ خان کی کتوں سے محبت اس کے بچپن ہی سے ہے۔ اس کی بائیوگرافی Imran versus Imran - The untold story کا ہندوستانی مصنف فرینک حضور لکھتا ہے: اِسے کتوں سے اتنا انس تھا کہ انہیں گلے لگائے رکھتا۔ اس نے کتوں کو اچھے اطوار والا پایا۔ وہ کتوں سے محبت کرتا اور اُن کا بہت زیادہ خیال رکھتا تھا۔ اس کی والدہ اِسے ہر قسم ، ہر نسل، ہر شکل اور ہر جسامت کے کیویلئر کنگ اور چارلس سپینئیل کتوں کے ساتھ کھیلنے کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں۔ آج بھی کتوں کی مختلف اقسام کے ساتھ اس کی محبت برقرار ہے۔ عمران کے بنی گالہ پہاڑی کی چوٹی پر تعمیر کئے گئے گھر میں پہرے داری کرتے یہی اس کے واحد ساتھی ہوتے ہیں(یہ جمائما سے علیحدگی کے بعد کا ذکر ہے)۔ جب وہ لندن میں ہوتا ہے تو کتوں کی ہر ریس اور ویٹ منسٹر کینل کلب ڈاگ شو لازماً دیکھتا ہے۔ لارڈ بائرن نے اپنی نظم میں جانوروں کی عادات کے متعلق جو بات کہی عمران نے اِسے یاد کیا ہوا ہے: سب سے پکا دوست، گھر آنے پر سب سے پہلے اِسے خوش آمدید کہنے والا، اور سب سے آگے بڑھ کر اس کا دفاع اور تحفظ کرنے والا‘‘۔
کتوں سے خان کی چاہت پر ہی مشرف نے اُسے ’’شیرو‘‘ بھجوایا تھا۔ سلیم صافی سے دبئی میں انٹرویو میں، مشرف نے کہا تھا، نجانے’’شیرو‘‘ اب کیسا ہوگا؟ (گزشتہ سال ستمبر میںشیرومر گیا)اپنے کتوں سے بے پناہ چاہت کا اظہار، خان انہیں ’’ٹائیگر‘‘ کہہ کر کرتا ہے۔ اپنے کارکنوں کے لئے ’’ٹائیگرز‘‘ کا لفظ بھی اسی چاہت کا اظہار ہے۔
ریحام خان، علیم خان اور فیصل واڈا سے کروڑوں روپے وصول کرنے کی تردید کے ساتھ طلاق کے عوض 8کروڑ روپے کے معاہدے سے بھی انکار کرتی ہیں لیکن اُدھر دُور کی کوڑی لانے اور بال کی کھال اُتارنے والوں کاکہنا ہے، طلاق کا معاملہ اتنا ہی سادہ ہے تو دونوں کے قابلِ اعتماد دوست، زلفی بخاری کی لندن میں ریحام کے ساتھ گھنٹوں طویل ملاقات ، پھر بنی گالہ آمد اور خان سے مشاورت کے بعدلندن واپس جاکر ریحام سے ایک اور ملاقات اور ریحام کی طرف سے کاغذات پر دستخط ، یہ سب کیا تھا ؟
9نومبر، یومِ اقبال پر قومی تعطیل کا خاتمہ، اتوار کو یو ایم ٹی میں عمرانہ مشتاق اور مرزا الیاس کی طرف سے شہر کے دانشوروں ، شاعروں اور ادیبوں کے لئے ’’لاہوری ناشتہ اور ادبی بیٹھک‘‘ میں بھی مختلف میزوں پر گفتگو کا موضوع رہا۔شاید ہی کوئی ہو جس نے اقتصادی فوائد کے حوالے سے چھٹی کے خاتمے کی تائید کی ہو۔ اس فیصلے پر سبھی دُکھی تھے۔ ادھر خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف کی حکومت نے اس روز چھٹی کا اعلان کردیا تھا۔ خان سے قربت کے دعویدار کالم نگار/تجزیہ کار کے بقول ، اس نے جمعرات کی شب عمران خان کو اس کے لئے پیغام بھیجا تھا۔ جمعہ کے دِن انتظار کیا اور ہفتے کی صبح دوسرا پیغام بھیجا ، ’’براہِ کرم وزیراعلیٰ سے فوراً کہیے، کہ وہ چھٹی کا اعلان کریں، یہ ایک اخلاقی اور سیاسی فتح ہوگی‘‘۔
آہ! حکیم الامت اقبال!! کہ اس کے یومِ ولادت کی چھٹی کے خاتمے کے لئے کچھ لوگوں نے اقتصادی فوائد کو جواز بنا یا اور جن لوگوں نے چھٹی کو برقرار رکھنے کا اعلان کیا، اُن کے پیش نظر اپنے سیاسی مخالفین پر اخلاقی وسیاسی فتح تھی۔