نوبل امن کمیٹی کی سربراہ KACI FIVE KULLMANکے اس اعلان نے عالمی رائے عامہ کو حیرت زدہ کر دیا کہ 2015کا نوبل امن انعام تیونس کی مشترکہ تنظیم الرباعی التیونیسی للحوار الوطنی NATIONAL DIALOGUE QUARTET کو دیا گیا ہے کیونکہ اس برس نوبل انعام کے 273حق داروں میں پوپ اعظم فرانس اور جرمن چانسلر انجیلا مرکل بھی شامل تھے۔ انعام کا اعلان کرتے ہوئے نوبل کمیٹی کی سربراہ نے کہا کہ اس تنظیم نے 2011کے انقلاب کے بعد ملک میں جمہوریت کی تعمیر کیلئے فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔تیونس کوارٹیٹ چار نمائندہ تنظیموں تیونس جنرل لیبر یونین، کنفیڈریشن آف انڈسٹری اینڈ ہینڈی کرافٹ، ہیومن رائٹس لیگ اور آرڈر آف لائرز پر مشتمل ہے۔ تیونس میں جمہوریت کا عمل سیاسی قتل و غارت گری اور سماجی انتشار کی وجہ سے خطرے میں تھا لیکن کوارٹیٹ نے ملک کو خانہ جنگی کے دہانے سے نکال کر پرامن سیاسی عمل کی جانب گامزن کر دیا۔ مشرق وسطیٰ کے سیاسی کلچر میں ایک بڑا مسئلہ اقتدار کے ذریعے تمام قوّتوں کو ایک جگہ مرکوز کرنا ہے۔ لہٰذامذاکرات کی ضرورت، اجماع، ہم آہنگی اور برداشت نے جمہوریت میں اپنی جڑیں نہیں پکڑی ہیں۔انقلاب کا آغاز دسمبر 2010میں ایک سبزی فروش بوعزیزی کا بدعنوان پولیس کے ناجائز اختیارات کے خلاف آگ لگا کر خودکشی کرنا تھا۔ اس چنگاری نے تمام تیونس میں گویا آگ سی لگا دی۔ عرب اسپرنگ کی پہلی کامیابی ڈکٹیٹر زین العابدین کا 2011میں سعودی عرب فرار ہونا تھا۔ اس سے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں امید اور خوش فہمی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ قلیل عرصے کیلئے یہ محسوس کر لیا گیا کہ یہ تمام علاقہ ڈکٹیٹرشپ سے آزاد ہو جائے گا اور یہ خطّہ معاشی، سیاسی استحکام اور ترقی کی جانب گامزن ہو جائے گا لیکن چار سال بعد یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ یہ سب ایک سراب تھا۔ مصر میں ملٹری ڈکٹیٹرشپ قائم ہو گئی۔ لیبیا میں ایک بہتر معاشرے کے حصول کی جنگ نے لیبیا کو ایک سیاسی، قبائلی معاشرے میں تبدیل کر دیا۔ شام میں متحارب قوّتوں کی کشمکش کی وجہ سے ڈھائی لاکھ باشندے ہلاک ہو چکے ہیں۔ چالیس لاکھ پناہ گزین یورپ فرار ہونے پر مجبور کر دیئے گئے ہیں اور 74؍لاکھ ملک کے اندر در بدر ہیں۔ عراق میں بش ایڈمنسٹریشن نے جمہوری انتقال اقتدار کیلئے جنگ کا سہارا لیا لیکن نتیجے میں مجرمانہ غفلت کی وجہ سے عراق تین جنگی زون میں تقسیم ہو گیا ہے۔ بحرین اور یمن کے حالات بھی دگرگوں ہیں۔ ٹونی بلیئر سابق برطانوی وزیراعظم نے جنگ سے قبل غلط جاسوسی کی اطلاعات اور جنگ کے بعد ناقص حکمت عملی پر معافی مانگی ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ شدّت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کی اٹھان کا تعلق اسی جنگ سے ہے۔
ہائے اس زود پشیماں کا پشیمان ہونا
امریکہ کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان دیا ہے کہ عراق میں صدام حسین اور لیبیا میں معمر قزافی کی حکومت ہوتی تو دنیا ایک بہتر جگہ ہوتی۔ تیونس میں سیاسی مخالفین کے قتل، بے تحاشا تشدد اور ٹورسٹ انڈسٹری پر حملوں سے حالات نے لاقانونیت کی شکل اختیار کر لی تھی۔ بیروزگاری اور غیر یقینی مستقبل کی وجہ سے نوجوانوں کا اعتماد بیلٹ کے ذریعے تبدیلی سے اٹھ گیا تھا۔ تیونس میں اوسطاً غیرملکی جنگجو اور داعش کے ہمدردوں کی تعداد تمام پڑوسی ممالک سے زیادہ ہے۔ غیرجمہوری قوّتوں نے جمہوری پروسس کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لہٰذا جمہوری اقدام بہت نازک اور بے تحاشا دبائو میں تھے۔ ان حالات کے باوجود تیونس میں عرب بہار پر خزاں کے پر نہیں پھیلانے دیئے گئے۔ یہ ایک معجزہ تھا کہ کوارٹیٹ نے تمام فریقین کو ایک نئے دستور اور تمام معاملات کو حل کرنے کیلئے مذاکرات پر متفق کر لیا۔ یہ تمام مراحل مسائل سے آزاد نہیں تھے لیکن امریکہ، یورپین یونین، الجیریا اور فرانس کے تعاون سے بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے فریقین کو درمیانی راہ کیلئے راضی کر لیا گیا۔انتہائی مخالف انتہاپسندانہ خیالات اور دلچسپیوں کے باوجود ایک عظیم مقصد کہ تیونس کو خانہ جنگی سے بچانا ہے، کوارٹیٹ نے تمام سیکولر اور مذہبی قوّتوں کو ایک نکاتی ایجنڈے پر متحد کر لیا۔ اس کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہاں کی اسلامی قوّتوں کا مفاہمانہ رویّہ جس میں اسلامی جماعت النحفہ نے کامیابی کے باوجود اپنے اقتدار کی قربانی دی۔ کوارٹیٹ نے تمام جماعتوں اور سیاسی عناصر کو دلیل کے ذریعے راضی کر لیا کہ اقتدار سے زیادہ جمہوریت قیمتی ہے جس میں ہر فرد کے حقوق کی حفاظت کی جائے گی۔ اسی طرح فوج کا رویّہ بھی حیرت انگیز طور پر مصالحانہ رہا جس نے حالات کی نزاکت کا اندازہ لگا لیا تھا اس کے علاوہ تین اہم عناصر تیونس کا جغرافیائی طور پر اہم تزویراتی اہمیت کا حامل نہ ہونا، مخدوش علاقوں سے فاصلہ اور تعلیم کی شرح کا معیاری اور بلند ہونا تھا۔
مجموعی طور پر تیونس میں انتہائی متحرک قوّتوں نے ایک مضبوط سول سوسائٹی قائم کر دی ہے۔ تیونس نچلی سطح سے تبدیلی کی ایک مثال ہے جس میں ایک فرد کی حرکت نے تمام قوم کو ایک مثبت تحریک کا حصّہ بنا دیا ہے۔ یہی افراد تھے جنہوں نے کوارٹیٹ کو قوّت بخشی ہے۔
2015کا امن نوبل انعام ناروے اور یورپ کی جانب سے علامتی طور پر ایک چھوٹا اقدام ہے مگر اس کے نتائج دیرپا اور مستقل ہوں گے۔ یہ انعام ان قوّتوں کیلئے امید کی روشن کرن ہے جو اس علاقے میں بہتر معاشرے اور تابناک مستقبل کیلئے سرگرم ہیں جنہوں نے انتہائی مشکل حالات میں مختلف الخیال ہوتے ہوئے بھی صحیح وقت پر آسان کے مقابلے میں راست قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ بس ان اقدامات کی حفاظت پیش نظر ہونی چاہئے۔
حلقہ کئے بیٹھے رہو اک شمع کو یارو
کچھ روشنی باقی تو ہے ہرچند کہ کم ہے
(فیض)
نوبل امن انعام کی رقم ایک ملین ڈالر اور دستاویز 10؍دسمبر کو ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں کوارٹیٹ کے نمائندوں خاتون ودید بوشماوی، حسین عباسی، عبدالستار بن موسیٰ اور محمد فضل محمود کو ایک عظیم الشان تقریب میں دی جائے گی۔