کراچی(جنگ نیوز)سپریم کورٹ بار کے سابق صدر علی احمد کرد نے کہا ہے کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار کی پریس کانفرنس لہجہ بھی درست نہیں تھا کوئی بھی شخص جج کی تضحیک کرے گا تو وہ توہین عدالت کرے گا یہ بیان بہت سخت ہے اس بیان کو لوگوں نے پسند نہیں کیا ۔اسد عمر نے کہا کہ وزیر داخلہ چوہدری نثاراپنی ذمہ داریاں صحیح طرح نہیں نبھا سکے انھوں نے مضحکہ خیز اعتراضات کیے ہیں۔ شازیہ مری نے کہا کہ کمیشن نے اہم نقاط اٹھائے ہیں ، بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا کہ رپورٹ پبلک ہوئی یہ انہو نی بات تھی ، ہم نے ایسا ہوتے نہیں دیکھا ۔ وہ جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں گفتگو کر رہے تھے ۔ علی احمد کرد نے کہا کہ اس وقت کمیشن کی بات ہو رہی ہے وہ سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں تھا اور یہ سپریم کورٹ کے جج کی رپورٹ ہے ۔ وزیر داخلہ اگر بات کرتا ہے تو وہ ذاتی حیثیت میں بات نہیں کرتا ۔ اس حوالے سے اتنی شدت کے ساتھ ردعمل ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ اس حوالے سے 3 ججوں پر مشتمل بینچ سماعت کرے گا ، تمام فریقین جائیں گے اور وہاں اپنا اعتراض داخل کر سکتے ہیں ۔ عدلیہ مقدس گائے نہیں ہے تاہم ایک طریقہ کار ہوتا ہے ۔ انھوں نے واضح کیا کہ آپ ایسا کام نہیں کر سکتے جس سے سپریم کورٹ کے کام میں مداخلت ہو ۔ یہ توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے ۔ کوئٹہ میں اتنا بڑا سانحہ ہوا لیکن چوہدری نثار نے آںے کی زحمت گوارا نہیں کی ، اخلاقی لحاظ سے بھی یہ درست نہیں ہے ۔ انھوں نے کہا کہ وہ کوشش کرتے ہیں کہ دل کی اور سچی بات کریں ۔ یہ اچھی بات ہے کہ کمیشن بنا تاہم اس میں ابھی بھی کچھ کمی ہیں ۔علی احمد کرد نے کہا کہ دھماکے کے کئی گھنٹوں بعد تک ایف سی اسپتال نہیں آتی ۔ یاد رہے اس بات کی تائید رپورٹ میں بھی کی گئی ہے ۔ پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم کے معاون خصوصی بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا کہ یہ رپورٹ حتمی نہیں ہے ۔ عدالت کے سامنے آئی ہے اور عدالت دیکھے گی کہ اس میں کیا کیا چیزیں ہیں ، انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی چوہدری نثار سے پریس کانفرنس کے حوالے سے رضا مندی کے حوالے سے میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ انھوں نے کہا کہ رپورٹ پبلک ہوئی یہ انہونی بات تھی ، ہم نے ایسا ہوتے نہیں دیکھا ۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ جب میڈیا پر چھپا تو ہم نے چھاپا ۔ انھوں نے کہا کہ اس حوالے سے ٹھنڈے دل سے چلنا چاہیے ۔ انھوں نے کہا کہ چوہدری نثار کو سوالنامہ پرائیویٹ سیکریٹری کی طرف سے آیا جو پانچ سوال تھے ان میں سے ایک بھی کوئٹہ سے متعلق نہیں تھا۔ انھوں نے شازیہ مری کے بیان کے حوالے سے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ میں پیپلز پارٹی کے تین ادوار میں سے 10 مثالیں دے سکتا ہوں کہ انھوں نے کہا کہ فلاں جج کیس نہ سنیں ۔