
لاہور کی مال روڈ پر احتجاجی جلوس کی قیادت کروں گا بعد میں ثابت ہوا کہ خبر میں کوئی صداقت نہ تھی۔جاوید ہاشمی نے اسی زمانے میں لاہور میں ینگ پاکستانیز کا ایک اجلاس بلایا جہاں وہ سیاست کے بحربےکراں میں اپنا سفینہ اتارنے کا اعلان کرنے والے تھے ہاشمی کے لئے مولانا مودودیؒ کے جذبات ایک عظیم سرمایہ حیات سے کم نہ تھے۔ اسی لئے عام تاثر یہ تھا کہ وہ سیدمودودی کے ساتھ اپنی روحانی و فکری وابستگی کا ثبوت دیتے ہوئے جماعت اسلامی میں شمولیت کا اعلان کریں گے مگر یہاں جاوید ہاشمی نے نظریاتی کمٹمنٹ کی سیاست کو خیر باد کہتے ہوئے کنونشن میں ایئرمارشل (ر) اصغر خان کی تحریک استقلال میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا اوریہیں سے جاوید ہاشمی کی سیاسی بے وفائی کا آغاز ہوتا ہے ۔فوجی آمروں کے خلاف بلند بانگ دعوے کرنے والے جاوید ہاشمی کی پہلی بڑی سیاسی رونمائی جنرل ضیاء الحق کی کابینہ میں شمولیت سے ہوئی۔ اس کے بعد اپنی اوائل عمری کی نظریاتی کمٹمنٹ کی پوٹلی کو باندھ کر کسی اندھے کنویں میں پھینک کر جاوید ہاشمی نے سیاست کے وہی پیمانے اپنا لئے جو سکہ رائج الوقت تھے۔جاوید ہاشمی کے ینگ پاکستانیز کنونشن کے بعد پنجاب یونیورسٹی کی سٹوڈنٹس یونین کے ان کے بعد منتخب ہونے والے صدر فرید پراچہ نے طلبہ سیاست کو خیرباد کہنے کے بعد ینگ پالیٹیشنزکا کنونشن لاہور میں بلایا اس وقت کے آسمان سیاست پر چمکنے دمکنے والے نوجوانوں کی کہکشاں نے اس کنونشن میں شرکت کی اور فرید پراچہ کی قیادت میں احمد محبوب بلال، عبدالشکور، مسعود کھوکھر، حافظ وصی محمد اور حافظ عتیق الرحمن وغیرہ نے جماعت اسلامی میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔لاہور کی جماعت اسلامی نے نوجوان سیاست دانوں کا بھرپور خیرمقدم کرتے ہوئے انہیں استقبالیہ دیا جس کے مہمان خصوصی مولانا سید ابواعلیٰ مودودی ؒ تھے ۔ مولانا نے بڑے پرجوش انداز میں نوجوان قیادت کو جماعت میں شمولیت پر خوش آمدید کہا۔تحریک استقلا ل کے بعد ایک بار پھر جاوید ہاشمی نے اپنا راستہ بدلا اور وہ تحریک کو چھوڑ کر جمود کی علمبردار مسلم لیگ ن میں شامل ہو گئے ۔جاوید ہاشمی کی شخصیت ہمیشہ سے ایک تضاد کا شکار رہی ہے وہ اپنے آپ کو باغی کہلانے پر فخر محسوس کرتا ہے ۔مگر جس پارٹی کا انہوں نے انتخاب کیا تھا وہ بھی اس زمانے کے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کی فخریہ پیشکش تھی ۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف ان کی بغاوت کو پارٹی کے اندر بھی پذیرائی نہ ملی کیونکہ وہ ’’بغاوت‘‘ کی باتیں کر رہے تھے جبکہ ان کی پارٹی مصالحت کی پالیسی اپنا چکی تھی جب جاوید ہاشمی نے مسلم لیگ ن کو چھوڑنے اور تحریک انصاف کو جوائن کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کے پیچھے کوئی اصولی اختلاف نہ تھا یہ صرف شخصی انائوں کا ٹکرائو تھا۔خاندانی اور موروثی پارٹیوں میں جسےپیا چاہتے ہوں وہی سہاگن کہلاتی ہے۔ ہاشمی کے بہت سنجیدہ اور مخلص دوستوں نے بھی انہیں سمجھایا کہ ’’سیاسی مسافروں ‘‘ کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ اس لئے آپ اپنی شخصیت کی کشش سے پارٹی کے اندر رہ کر اصلاح احوال کریں مگر اس وقت ایک نئے سنہری مستقبل کی چکاچوند سے ہاشمی صاحب کی آنکھیں چندھیا چکی تھیں ۔انہوں نے ابھرتے ہوئے سورج کی طرف لپکنے کا فیصلہ کر لیا۔ان دنوں ہاشمی صاحب نے ٹی وی ٹاک شوز پر مسلم لیگ ن کی قیادت کے خلاف توتکار اور الزام تراشی کا وہی رویہ اختیار کرلیا جو وہ آج کل تحریک انصاف کے خلاف اپنا چکے ہیں۔شرفاء جب کسی کوچے کو خیرباد کہہ دیتے تو پھر مڑ کر پیچھے نہیں دیکھتے ، پاکستانی سیاست میں مارشل لا، سول مارشل لا’’جوڈیشل مارشل لا‘‘ اور اس طرح کے کئی ادوار آتے جاتے اور الزامات لگتے رہے ہیں۔ تاہم ٹھوس ثبوت کے بغیر اہم اداروں پر الزام لگانا ہاشمی صاحب کے شایان شان نہیں۔ ان کے اسی رویے کی بنیاد پر اب سوشل میڈیا پر کہا جا رہا ہے کہ ہاشمی صاحب بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں دوسروں سے پیچھے نہیں رہے ۔ تحریک انصاف نے ہاشمی صاحب کو سر آنکھوں پر بٹھایا تھا ہاشمی صاحب کے ایک دو جذباتی دوست انہیں مسلم لیگ ن سے اٹھا کر تحریک انصاف میں لے گئے پھر ان کے وہی جذباتی دوست اپنے شخصی اختلافات کی بنا ء پر انہیں تحریک انصاف سے بھی واپس لے آئے ہیں اس وقت جاوید ہاشمی کا حال یہ ہے کہ ؎
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
نظریات کو تو انہوں نے سیاست کے شوق میں خیرباد کہہ دیا تھا اب ان کے پاس نظریات ہیں نہ سیاست ہے اور نہ ہی ملتان کی سیٹ ہے اور یہی ان کی فرسٹریشن ہے۔(جاوید ہاشمی نے مشرف آمریت کیخلاف عظیم جدوجہد اور کئی طلبہ تحریکوں کی قیادت کی) جاوید ہاشمی اب نوجوان نہیں بزرگ سیاست دان بن چکے ہیں ان سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ زیادہ میچورٹی، زیادہ دانشمندی اور زیادہ بردباری اور زیادہ تحمل مزاجی سے کام لیں گے مگر ہاشمی صاحب تو نوجوانوں کی طرح توتکار اوراوئے توئےسے سیاست چمکانے کی کوشش کرتے ہوئے بالکل نہیں جچتے ہم اس وقت انہیں نوابزادہ نصراللہ خان کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں مگر وہ طلا ل چودھری اور دانیال عزیز بننے پر مصر ہیں ۔شام زندگی کی منڈیر سے (اللہ ان کی عمر دراز کرے ) نیچے دیکھتے ہوئے اگر وہ غور فرمائیں گے تو انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ یونیورسٹی میں ان کے لیاقت بلوچ اور فرید پراچہ جیسے جن ہم عصروں نے وفاداری بشرط استواری کے ساتھ نظریاتی و سیاسی کمٹمنٹ نبھائی ہے اور وہ کہاں کھڑے ہیں اور بدلتی وفاداریوں کے سیاسی مسافر جاوید ہاشمی کہاں کھڑے ہیں ان کےبعض مہربان تو جناب احسان دانش کے الفاظ میں دکھ کا اظہار یوں کرتے ہیں
نہ اعتبار وفا کر کہ وہ نگاہ شریر
کبھی کسی کے لئے ہے کبھی کسی کے لئے
.