• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملاوٹ پر برا وقت ہے۔ اشیائے خوردونوش میں ملاوٹ کے خلاف بولنے کا فیشن یوں فروغ پا رہا ہے جیسے آصف علی زرداری کے دور میں ملک کو کرپٹ ٹولے سے نجات دلانے کا رواج تھا۔ جو کاہل اپنے کمرے کی چھت سے مکڑی کا جالا اتارنے سے قاصر تھا، وہ بھی ملک کو اس ٹولے سے نجات دلانے پر کمر بستہ تھا اور ہمارے ایسا بے نوا،جسے گھر والی باعزت طریقے سے کھانا نہیں دیتی، اس نے بھی یہی شوق پال رکھا تھا۔ کرپٹ ٹولے سے نجات تو خیر پانچ سال بعد ووٹ کی پرچی سے ملی، تاہم تبدیلی کی زلف گرہ گیر کے اسیر اپنے ’’شوق نجات‘‘ سے نجات نہ پا سکے اور آج بھی کرپٹ ٹولے سے نجات دلانے کے مشن سے وابستہ ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جب تک ان کا اپنا ٹولہ برسرِ اقتدار نہیں آتا، وہ ہر منتخب حکومتی ٹولے کو کرپٹ ٹولہ قرار دے کر اس سے نجات حاصل کرنے کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
ملاوٹ کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ہم بطور ایک معاشرہ اجتماعی طور پر کرپٹ ہو چکے ہیں۔ گویا ہم سب بھی ایک کرپٹ ٹولہ ہیں۔ ایسی صورت میں یا تو ہمیں ملاوٹ سے نجات حاصل کرنا ہو گی یا پھر اس بیس کروڑ کے ٹولے سے۔ پہلا حل تو ممکن نہیں کہ ملاوٹ ہماری ہڈیوں میں رَچ بس گئی ہے۔تاہم اگر کوئی عمران خان جیسا مردِ جری دوسر احل ممکن کر دکھائے، یعنی اس سارے ملاوٹی کرپٹ ٹولے سے نجات حاصل کر لے تو اس کا بھی ایک نقصان ہے کہ پاک سر زمین تو خالی ہو جائے گی۔ایسے میں تو خان صاحب کے ساتھ شیخ رشید ہی وطن کی سنجی گلیاں ماپنے کو رہ جائیں گے۔
آج جب کوئی ملاوٹی چیزکھانے سے ہلاکت یا بیماری کی خبر میڈیا میں آتی ہے تو ہمیں شک گزرتا ہے کہ مفعول نے کوئی خالص چیز کھا لی ہو گی جو ملاوٹ کے عادی معدے نے قبول نہ کی ہو گی۔ جس بچے کا معدہ پہلے دن سے بقول فوڈ اتھارٹی بال صفا پائوڈر، ڈی ٹرجنٹ پائوڈر، کاسٹک سوڈا، یوریا،شیمپو اور زہریلے کیمیکلز ملے دودھ کا عادی ہو، اس میں اگر خالص دودھ انڈیلا جائے گا تو گڑ بڑ تو ضرور ہو گی۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کرسمس کے موقع پر زہریلی شراب پینے سے چوالیس ہلاکتوں کے بارے میں تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ شراب میں آفٹر شیو لوشن ملایا گیا تھا۔ ہمارے خیال میں یہ بھی توہو سکتا ہے کہ ہلاک ہونے والے پہلے آفٹر شیو لوشن ملی شراب پیتے ہوں اور کرسمس کی خوشی میں انہیں کسی نے خالص مہیا کردی ہو، جسے وہ برداشت نہ کر سکے ہوں۔ اس خیال کو اس امر سے بھی تقویت ملتی ہے کہ یہ شراب پولیس نے دو ماہ قبل پکڑ کر تھانے میں رکھی ہوئی تھی اور کرسمس کے موقع پر فروخت کردی۔ اب یہ تو سب جانتے ہیں کہ پولیس ملاوٹ نہیں کرتی بلکہ وہ تو الٹا ملاوٹ اور بے ایمانی کرنے والوں کو پکڑتی ہے،جیسے اس نے یہ شراب پکڑی تھی۔
ہم نے کئی چرسی بھائیوں سے سنا ہے کہ چرس میں گاڑیوں کے پرانے ٹائر جلا کر ملائے جاتے ہیں۔اگر آپ کبھی اپنی گوناگوں مصروفیات سے وقت نکال کر کسی چرسی کے ساتھ چند منٹ گزاریں تو محسوس کریں گے کہ اس کی سگریٹ سے اٹھنے والی چرس کی بھینی بھینی خوشبومیں ٹائروں کی سحر انگیز خوشبو بھی شامل ہے، جو یقینا نشے کو دوآتشہ کرتی ہو گی۔ نشے سے پھر عمران خان یاد آئے۔جاوید ہاشمی نے الزام لگایا ہے کہ 2014ء کا دھرنا اسکرپٹ لکھا ہوا تھا۔ مراد ان کی یہ تھی کہ اسکرپٹ تو ڈرامے کا لکھا جاتا ہے، اگر کسی ٹوپی ڈرامے یا دھرنے کا اسکرپٹ لکھا جائے گا تو یہ ملاوٹ شمار ہو گی۔ جواب میں خان صاحب کہتے ہیں کہ جاوید ہاشمی کا دماغی توازن درست نہیں۔ جواب الجواب میں ہاشمی صاحب نے مطالبہ کیا ہے کہ میرا اور عمران خان کا مینٹل اور نشے کا ٹیسٹ کرایا جائے۔ فریقین کے مینٹل ٹیسٹ کے بارے میں ہم کوئی تبصرہ نہیں کریں گے، البتہ جاوید ہاشمی نے خان صاحب پر نشے کا جو مبہم ساالزام لگایا ہے، اس میں کوئی صداقت نہیں۔ در حقیقت یہ نشہ وہ نہیں جو ہاشمی صاحب نے سمجھا ہے۔ گھسا پٹا سا لطیفہ ہے کہ سردار گورنام سنگھ ایک یخ بستہ رات گلی میں ننگے پائوں فقط ایک نیکر پہنے ناچ رہا تھا۔ کسی نے پوچھا ’’ سردار صاحب ! لائی ہوئی نیں ؟‘‘ انہوں نے کہا ’’ نئیں او بھلیا لوکا ! لین گئے ہوئے نیں‘‘یہ اقتدار کا نشہ بھی ایسا ہی ہے کہ چکھنے سے قبل ہی گورنام سنگھ کی طرح بندہ سرور میں ہو جاتا ہے۔تاہم خدا معلوم یہ نشہ لانے والے کب لوٹیں گے ؟ لگتا ہے کہ اس دفعہ بھی یہ نشہ بیلٹ باکس ہی سے برآمد ہوگا۔
ملاوٹ کا ذکر خیر ہو رہا ہے تو یہ ہمارے رگ و پے میں یوں سما گئی ہے کہ اپنے گھر کا فرد معلوم ہوتی ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء او ردوائوں میں ملاوٹ،محبت میں ملاوٹ، تیل میں ملاوٹ، تعلیم میں ملاوٹ، انصاف میں ملاوٹ، دین میں ملاوٹ، عبادت میں ملاوٹ، جمہوریت میں ملاوٹ، نیشنل ایکشن پلان میں ملاوٹ، طالبان میں ملاوٹ، غرض بندہ کون کون سی ملاوٹ گنوائے کہ یہاں سارے ہی کرپٹ ٹولے ہیں۔تاریخ کہتی ہے کہ دنیا کی سب سے خطرناک ملاوٹ ریاستی امور میں کسی خاص مذہب کی ملاوٹ ہے۔مہذب قومیں تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے یہ ملاوٹ ختم کر کے ترقی کی معراج پر جا پہنچیں۔ ادھر مولانا فضل الرحمن فرماتے ہیں کہ ملا سے چھٹکارا ممکن نہیں،نکاح اور جنازہ مولوی پڑھاتا ہے، اب سیاست بھی وہی کرے گا…بہت خوب !اس قصے کو یہیں چھوڑ کر ملاوٹ پر سوشل میڈیا سے ہتھیائی گئی ایک تحریر پر اپنی بات ختم کرتے ہیں۔ ’’حضرت نے پسی ہوئی اینٹیں ملی مرچوں، کپڑے رنگنے والے رنگ ملی ہلدی،کیمیکلز ملے ادرک اور کتوں کی انتڑیوں سے بنے کوکنگ آئل میں گدھے کا گوشت مٹن سمجھ کر ہمراہ لکڑی کا برادہ ملی کیڑے زدہ گندم کی روٹی تناول فرمایا۔ پھر گٹر اور چھپڑوں کے غلیظ پانی ملے دودھ اور چنوں کے برادہ ملی پتی سے تیار شدہ چائے نوش فرمائی اور پھر ناجائز قبضہ شدہ پلاٹ پر تعمیر مسجد کے ممبر پر کھڑے ہوکر کنڈے سے چلنے والی بجلی کے اسپیکر پر خطاب فرمایا کہ مومنو! مغربی قومیں اخلاق باختہ اور اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہیں، تم لوگ یہودونصاریٰ کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کرو‘‘۔ یہاں کس کس کرپٹ ٹولے سے نجات حاصل کی جائے صاحب کہ سارے گڈیا ں پٹولے ہی کرپٹ ٹولے ہیں اور بحیثیت پاکستانی قوم ہم سب بھی توبہت بڑا کرپٹ ٹولہ ہیں۔ جانے عمران خان اس ٹولے کے خلاف دھرنا کیوں نہیں دیتے؟

.
تازہ ترین