یہ خالقِ کائنات کا قانون ہے کہ اس کائنات میں صرف اسی کو بقا ہے۔ باقی سب مخلوقات کو ایک معین مدت تک اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہے اور پھر اپنے خالق کی جانب لوٹ جانا ہے۔
آغا جان (ہم گھر میں قاضی حسین احمد صاحبؒ کو اس نام سے پکارتے تھے) کی رحلت ہم سب کیلئے بہت اچانک تھی۔ وہ اللہ سے دُعا کیا کرتے تھے کہ مجھے اس حال میں نہ لے جا جہاں مجھے دوسروں کا سہارا لینا پڑے۔ شاید دوسروں کا محتاج بن جانا ان کے خوددار مزاج پر بوجھ بن جاتا۔
زمین میں پائے جانے والے تمام جذبوں اور رشتوں میں ماں باپ اور اولاد کے مابین پائے جانے والے جذبے اور تعلق کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ ان کا بیٹا ہونے کے ناتے مجھے اپنے جذبات کا اظہار کرنے کیلئے شاید الفاظ کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے دل کی ہر دھڑکن میں والد گرامی کا پیار اور شفقت موجود ہے اور جب تک سانس کی آمدورفت ہے یہ تعلق بھی زندہ رہے گا۔
آغا جان نے ہمیں دُکھ اور غم کو وقار اور صبر کے ساتھ برداشت کرنے کی تربیت دی تھی۔ ان کی وفات کے دکھ میں ہم اکیلے نہیں تھے۔قاضی صاحب کی وفات کے چند گھنٹوں بعد ہی ایک صومالی نوجوان کی تعزیتی ٹیلی فون کال موصول ہوئی تھی۔ حرمِ پاک سمیت شاید ہی دنیا کا کوئی ایسا ملک ہو جہاں آغا جان کی غائبانہ نمازِ جنازہ یا تعزیت کی کوئی تقریب منعقد نہ ہوئی ہو۔ اخوان المسلمون مصر کے سابق مرشد عام نے انہیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ قاضی صاحبؒ زندہ تھے تو تب بھی ہم سب کو اکٹھا کرتے تھے اور آج وہ وفات پاگئے ہیں تو اب بھی ہمیں اکٹھا کررہے ہیں۔
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِؐ ہاشمی
آغا جان ایک منفرد شخصیت کے مالک تھے۔ ان کا پاکیزہ مزاج، ان کی وجاہت، ان کا جلال اور ذوقِ جمال، قرآن سے تعلق، عشقِ رسولؐ، ادب اور مطالعہ کا شوق، جرات اور ثابت قدمی، تحمل اور صبر، نرم خوئی اور ہمدردی، شفقت اور محبت، تحرک، جہد مسلسل اور داعیانہ تڑپ، بے ساختہ حس مزاح اور بے تکلفی، ہر انسان کے ساتھ دوستی کا انداز، وسیع المشربی اور ہر گھڑی اللہ کی بندگی کا احساس اور اس طرح کی اَن گنت خوبیوں کا ان کی شخصیت کے اندر جمع ہوجانا اللہ تعالیٰ کا ایک خاص احسان تھا۔ جناب سراج الحق نے ان کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر علامہ اقبالؒ ان کو دیکھ لیتے تو وہ کہہ اُٹھتے کہ جس مردِ مومن کا تصور میں پیش کیا کرتا تھا یقینا یہ وہی شخص ہے۔
میں اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرتا ہوں کہ اللہ نے مجھے قاضی حسین احمدؒ جیسا والد عطا کیا۔ ایک ایسا والد جو آپ کو دین سے روشناس کرائے۔ جو آپ کی تربیت پر ہمیشہ نظر رکھے۔ جو ہر ضرورت کے وقت آپ کیلئے موجود ہو۔ علامہ اقبالؒ؎
یہ مکتب کی کرامت تھی یا کہ فیضانِ نظر تھا
سکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی
ہمارے لئے آغا جان ایک مکتب بھی تھے اور فیضانِ نظر کی ایک خانقاہ بھی۔
آغا جان کے ساتھ وابستہ یادوں میں ایک مستقل اور دل ودماغ پر گہرے نقوش چھوڑ دینے والی یاد نمازِ فجر اور اس کے متصل وہ ساعتیں ہیں جو ان کی قربت میں گزریں۔ بچپن ہی سے نمازِ فجر کیلئے جگانے کا ان کا ایک دلنشین انداز تھا۔ جب ہم سب بہن بھائی اپنے اپنے گھروں میں رہنے لگے تو منصورہ کے فلیٹ میں قاضی صاحبؒ او رہماری والدہ اکیلے رہ گئے۔ فجر کی نماز کے بعد ہم ان دونوں کو اکٹھے بیٹھے قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہوئے پاتے۔ یہ ان کا روز کا معمول تھا۔ والدہ ان کے ساتھ بیٹھ کر قرآن پاک کا ترجمہ اور تشریح سنتیں اور پھر اکیلے میں اس سبق کو دُہراتیں۔ قرآن کے مطالعے سے فارغ ہونے کے بعد آغا جان روزانہ ایک گھنٹہ تیز رفتار میں چہل قدمی کرتے۔ دل کے آپریشن کے بعد یہ ان کی ضرورت بھی بن چکی تھی۔ اپنے پوتوں اور نواسوں کو کو بھی بڑی شفقت کے ساتھ دین کی طرف متوجہ کرتے۔ وہ ایک پیار کرنے والے مدرّس اور معلم تھے۔ قرآن کی تلاوت کرنے کا ان کا ایک مسحور کن انداز تھا جو اب بھی کانوں میں رس گھولتا ہے۔ایک مغربی خاتون صحافی نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ کے خیال میں قاضی صاحبؒ کی شخصیت کا سب سے امتیازی پہلو کیا تھا؟ میرے خیال میں قاضی صاحبؒ کی سب سے بڑی امتیازی خصوصیت محبت تھی۔ وہ ایک سچے عاشقِ رسولؐ تھے۔ عشقِ رسولؐ ان کی تربیتی تقاریر کا ایک لازمی جزو تھا۔ اقبالؒ کے وہ اشعار جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق تھے، قاضی صاحبؒ کو ازبر تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو شخص سچا عاشقِ رسولؐ ہوتا ہے، اس کی شخصیت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کی کوئی خوبی ضرور جھلکتی ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ٹوٹ کر محبت کرتا ہو اور وہ رحمت، مؤدت اور محبت کی صفت سے محروم ہو۔ آغا جان کی شخصیت پر یہ اللہ کا خاص انعام تھا کہ وہ انتہائی محبت کرنے والے فرد تھے او ریہ محبت تمام انسانوں کے ساتھ بلاامتیاز تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آغا جان کے جنازے میں جہاں ہزاروں مسلمانوں کی آنکھیں اشکبار تھیں، وہاں مسیحی، سکھ اور ہندو برادری کے افراد بھی محبت اور احترام کے ساتھ موجود تھے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانیت کیلئے اللہ کے رسولؐ بناکر بھیجے گئے تھے اور حضورؐ کے بعد ان کی اُمت نے بھی یہ فریضہ سرانجام دینا ہے۔
وہ ایک مطمئن نفس کے مالک تھے اور ساری زندگی کوئی ترغیب، لالچ یا خوف انہیں اپنے نصب العین سے ہٹانہ سکی۔
میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں، میں اسی لئے نمازی
وہ خود اپنے مضمون ’’اقبالؒ کا پیغام، اُمت مسلمہ کے نام‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’اگر ایک انسان اپنے آپ کو، اپنے رب کو اور اپنے مقام کو پہچان لے تو اس کے بعد اللہ کی طاقت، نصرت اسکے شامل حال ہوجاتی ہے۔ خودی اور موت کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں:
خودی ہے زندہ تو ہے موت اِک مقامِ حیات
کہ عشق موت سے کرتا ہے امتحانِ ثبات
موت بھی زندگی کا ایک مقام ہے۔ دنیا کی موت آخری منزل نہیں ہے۔ حیات اس کے بعد بھی جاری ہے۔ دنیا کا اُفق اس کو ختم نہیں کرتا۔ حیات کا تسلسل موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ ہر مؤمن اس پر یقین رکھتا ہے۔‘‘
تمام احباب سے ان کے حق میں دُعا کی درخواست ہے۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
.