• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارا دعویٰ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ پیار ہم اپنے بچوں سے کرتے ہیں، ہمارے اِس دعوی ٰ کو کبھی کوئی چیلنج بھی نہیں کرتا اور یہ بات ایک آفاقی سچائی کے طور پر مانی جاتی ہے، دلیل اس ضمن میں دی نہیں جا سکتی کیونکہ دنیا کے کروڑوں والدین بظاہر اپنی اولاد کی خاطر ہی دن رات محنت کرتے نظر آتے ہیں، بچوں کے آرام و سکون کی خاطر بسا اوقات ہم ایسے کام بھی کر جاتے ہیں جو جائز یا قابل قبول نہیں ہوتے اور ہر بات کے جواب میں ہماری تان اسی بات پر ٹوٹتی ہے کہ ’’یہ سب کچھ میں بچوں کی خاطر کرتا ہوں‘‘۔ بچوں سے پیار کا اظہار ہم مختلف طریقوں سے کرتےہیں، مثلاً اپنی بساط کے مطابق ہم اُن کی خواہشات پوری کرنے کی کوشش کرتےہیں، آئی فون سے لے کر ایکس باکس (ویڈیو گیم) تک اور برینڈڈ کپڑوں سے لے کر فاسٹ فوڈ کی ہوم ڈیلوری تک، حسب توفیق ہم اُ ن کے لئے ہر وہ چیز خریدنا چاہتے ہیں جس کی وہ خواہش کریں۔ یہی نہیں بلکہ ہم انہیں دنیا میں بھی کامران دیکھنا چاہتے ہیں، ہماری خواہش ہے کہ وہ ساری دنیا کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جائیں اور یہ صرف اُسی صورت میں ممکن ہے اگر وہ کوئی اچھی سی ڈگری لے کر شاندار نمبروں کے ساتھ کالج سے فارغ التحصیل ہوں تاکہ کوئی ملٹی نیشنل انہیں ہاتھوں ہاتھ لے اور پھر وہ کبھی رک کر پیچھے نہ دیکھیں۔ یہ سب جائز امنگیں ہیں اور والدین کی محبت کابیّن ثبوت بھی..... مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ کہانی یہاں دو سوالات کو جنم دیتی ہے۔ پہلا، کیا یہ سب کرنے سے اولاد سے ہماری محبت کے تقاضے پورے ہو جاتےہیں؟ دوسرا، اگر پہلے سوال کا جواب نفی میں ہے تو پھر کیا ہم اپنی اولاد سے ملاوٹ شدہ محبت کرتے ہیں؟
جو کچھ ہم اپنے بچوں کے لئے کرتے ہیں وہ یقیناً پیار سے اظہار کا ایک طریقہ ہے مگر خالص پیار نہیں ہے، بے شک اُ ن کی خواہشات حتی الوسع پوری کرنی چاہئیں مگر کہیں کہیں بریک پر پیر بھی رکھنا چاہیے، برینڈڈ کپڑے اور فاسٹ فوڈ ہی پیار کے اظہار کا ذریعہ نہیں ہوتے اور امتحان میں فقط نوّے فیصد نمبر لینا ہی کافی نہیں ہوتا، اخلاقی تربیت اِن دونوں سے بڑھ کر ضروری ہے۔ لیکن آج کا موضوع اخلاقی تربیت ہے اور نہ یہ گھسی پٹی بات دہرانا کہ فاسٹ فوڈ مضر صحت ہوتا ہے اور آئی فون کا حد سے بڑھا ہوا استعمال بچوں کے لئے نقصان دہ ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم بچوں کو اپنی زندگی کے تجربات میں شریک نہیں کرتے، ہمارے دن رات زندگی کی دوڑ میں تمام ہو جاتے ہیں اور ہمیں احساس ہی نہیں ہو پاتا کہ وقت کب شروع ہوا تھا اور کب گزر گیا، ہم اس بات کو for granted لیتے ہیں کہ بچوں کو اپنے آپ سب باتوں کا علم ہو جائے گا کیونکہ آخر ہم نے انہیں مہنگے اسکول کالجوں میں داخل کروا رکھا ہے، یہ بڑے ہو گئے ہیں سو سمجھدار بھی ہوگئے ہوں گے..... اس سے بڑی غلط فہمی غالباً کوئی نہیں ہو سکتی۔ ہمیں اپنی زندگی میں جو بھی تجربہ ہوتا ہے اسے اپنی اولاد کے ساتھ ایمانداری سے شئیر کرنا خالص محبت کی نشانی ہے۔ کسی اسکول یا کالج کی لیبارٹری میں زندگی کے تجربات نہیں کروائے جاتے اور نہ ہی ایف ایس سی کے امتحان میں اس کے متعلق سوالات پوچھے جاتے ہیں، لیکن زندگی کے امتحان میں نوّے فیصد سوالات انہی تجربات سے متعلق ہوتےہیں۔ سو اگر آپ بھی اپنی اولاد سے غیر ملاوٹ شدہ محبت کے دعوی دار ہیں تو ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ اُن کے پاس بیٹھ کر ضرور اپنی زندگی کے تجربات شئیر کریں۔
اپنے اسکول کے زمانے میں یہ خاکسار ہاکی بہت اچھی کھیلا کرتا تھا، اور اگر تھوڑی دیر کے لئے میں خاکساری سے کام نہ لوں تو یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ کم از کم اسکول میں مجھ سے بہتر ہاکی کا کوئی کھلاڑی نہیں تھا، لیکن جب اسکول کی ہاکی ٹیم کی سلیکشن ہوئی تو میں نے یہ بات ایسے چھپائی جیسے یہ کوئی معیوب بات ہو۔ مجھے سمجھ ہی نہ آئی کہ کیسے اپنے اسپورٹس ٹیچر کو بتاؤں کہ اگر وہ میرا ٹرائل لے تو میں اُس لڑکے سے بہتر کھیل دکھا سکتا ہوں جسے بطور کپتان منتخب کیا گیا تھا، وہ تو قسمت اچھی تھی کہ مجھے ٹیم میں شامل کر لیا گیا مگر اُس کے بعد بھی میری جھجک ختم نہیں ہوئی، مسئلہ یہ تھا کہ میرے ذہن میں یہ بات راسخ تھی کہ استاد یا کوئی بھی شخص جو کسی کی مہارت یا قابلیت کا فیصلہ کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے اسے ازخود علم ہونا چاہئے کہ کون کتنا قابل اور ماہر ہے، بھلا میں اپنے منہ سے کیوں بتاؤں کہ میں اچھی ہاکی کھیلتا ہوں؟ مگر اصل زندگی میں ایسا نہیں ہوتا اور یہ بات مجھے بہت دیر میں سمجھ آئی۔ یہی جھجک اگلے برسوں میں بھی قائم رہی، میں کہیں بھی کسی شخص کو کسی سیمینار میں تقریر کرتا دیکھتا یا کسی بین الاقوامی مباحثے یا ورکشاپ میں ماہرانہ رائے دیتا ہوا دیکھتا تو یہ فرض کر لیتا کہ وہ اس شعبے کا ماہر ہے اور میری رائے اس سے معتبر نہیں ہو سکتی، اُس شخص کو میں اسپیشلسٹ تصور کر لیتا، وہ تو بعد میں پتہ چلتا کہ جسے میں ایکسپرٹ سمجھ رہا تھا وہ مجھ سے بھی گیا گزرا تھا۔ مجھے کسی اسکول یا کالج میں یہ بات نہیں سکھائی گئی کہ جن لوگوں کو آپ اپنے ارد گرد اسٹیج پر براجمان دیکھتے ہیں یا بڑی بڑی محفلوں میں جن کی تقاریر سنتے ہیں، آپ بھی اُن جیسے ہو سکتے ہیں بشرطیکہ تھوڑی بہت قابلیت آپ میں ہو اور کچھ محنت کرنے کی آپ ٹھان لیں، کم از کم یہ تجربہ میں اپنے بچوں کے ساتھ ضرور شیئر کرنا چاہوں گا۔ اسی طرح ہمیں اپنے بچوں کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ زندگی میں calculated risk لینے میں کوئی حرج نہیں، اپنی اولاد کے بارے میں چونکہ ہم ضرورت سے زیادہ نگہبانی کے قائل ہوتے ہیں اس لئے ہماری کوشش ہوتی ہے کہ وہ زندگی میں اسٹیٹس کو سے کام لیں تاکہ الجھنیں کم ہوں، یہ بات کسی حد تک تو ٹھیک ہے مگر رسک لئے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں، ہم سب اپنی زندگیوں میں ایسے رسک لیتے ہیں، سو کیا ہی اچھا ہو اگر ہم خود اپنی اولاد کو وہ تجربات بتائیں نا کہ انہیں رسک لینے سے باز رکھیں جو کہ بہرحال انہوں نے باز نہیں آنا۔ اور ایک تجربہ یہ بھی اپنی اولاد سے شیئر کریں کہ زندگی کا کوئی مرحلہ حتمی نہیں ہوتا، ہر موڑ پر نئے امکانات موجود رہتے ہیں، سو جس بات کے لئے وہ آج پریشان ہیں کل وہ اُن کے ذہن سے ایسے محو ہوگی کہ یاد دلانے پر بھی یاد نہیں آئے گی۔ یہ تمام تجربات مثالیں دے کر واضح کریں، امید ہے کہ آپ کا بچہ زندگی کے امتحان میں پاس ہو جائے گا، یہی آپ کی غیرملاوٹ شدہ محبت کا ثبوت ہوگا!



.
تازہ ترین