میڈیا ہم مضافاتیوں کو باور کراتا ہے کہ اہل شہر خواتین کے حقوق کے سلسلے میں بڑے حساس واقع ہوئے ہیں۔ خوشی کی بات ہے۔ تعلیم یافتہ اور مہذب لوگوں سے یہی توقع کی جا سکتی ہے مگر غلط فہمی انہیں یہ ہے کہ ہم اجڈ دیہاتی حضرات عورتوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتے ہیں۔
ایسا نہیں ہے جناب والا! یقین فرمائیں کہ ہم آپ کے ہاں ایک مہذب خاتون کی طرف سے معصوم طیبہ پر تشدد سے اتنے ہی رنجیدہ ہیں، جتنے آپ ہم ان گھڑوں کے مختاراں مائی کے ساتھ غیر انسانی سلوک پر دل گرفتہ ہوئے تھے اور کئی روز تک کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔ جیسے آپ یہاں کسی بھٹہ خشت پر مزدوری کرتی مظلوم عورتوں کی دستاویزی فلم بناتے خون کے آنسو روتے ہیں، اسی طرح ہم بھی وہاں ’جا بجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم‘ دیکھ کر کلیجہ تھام لیتے ہیں۔ مراد یہ کہ آپ کی طرح ہم بھی حقوق نسواں کے معاملے پر اتنے ہی سنجیدہ ہیں جتنی نیشنل ایکشن پلان پر ہم سب کی وزارتِ داخلہ۔
ہمارے ہاں صنفی مساوات پر اپنے صابرو مصلی ہی کی مثال لے لیجئے۔ اس کے بالوں میں چاندی اُتر آئی تو ہم نے پوچھا کہ تم شادی کیوں نہیں کرتے؟ صابرو نے مختصر مگر جامع جواب دیا ’’شادی کیسے کروں خان جی! جو کچھ میں مزدوری سے کماتا ہوں، کچھ اپنی اور والد بزرگوار کی چرس لے آتا ہوں اور باقی ماں جی کی افیون‘‘ صابرو نے اس سلسلے میں کبھی صنفی امتیاز نہیں برتا بلکہ والدہ محترمہ کی ’’دوائی‘‘ پہلے حاضر کرتا۔ سنا ہے کہ آپ اہل شہر بھی صنفی مساوات پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور بیگمات کی ہر ضرورت پوری کرنے کے لئے دلوں میں صابرو جیسی تڑپ رکھتے ہیں۔ قابل فخر بات ہے مگر ہمارے بارے میں اپنی غلط فہمی دور فرما لیں کہ ہم ان بھاگ بھریوں سے ناروا سلوک روا رکھتے ہیں۔
بلاشبہ آپ تہذیب یافتہ اور شائستہ مزاج واقع ہوئے ہیں۔ خواتین کا کھڑے ہو کر استقبال کرتے ہیں، ان کی فنکارانہ اور ادبی صلاحیتیوں کو کھل کر خراج تحسین پیش کرتے ہیں، ان کو ماڈلنگ، ایکٹنگ اور کمپیئرنگ کے ذریعے اپنا آپ منوانے کے بھرپور مواقع فراہم کرتے ہیں، ان کے خیرہ کن فیشن شوز منعقد کراتے ہیں، ان کے حقوق کے لئے بینرز اور پوسٹرز لگاتے ہیں، معاشرے میں صنفی امتیاز کے خلاف جلوس وغیرہ نکالتے ہیں اور اس نیک مقصد کے لئے نت نئی این جی اوز بھی بناتے رہتے ہیں۔ آپ لوگ خواتین کو برابری کی سطح پر ملازمتیں بھی فراہم کرتے ہیں، جس سے دفتروں کا ماحول خوشگوار ہو جاتا ہے اور آپ دفتری امور خوب دلجمعی سے انجام دیتے ہیں۔ عرض یہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ ماحول ’’آل ریڈی‘‘ خوشگوار ہے۔ یہاں خواتین صدیوں سے کھیتوں، کھلیانوں، مویشیوں کی حویلیوں، کھڈیوں اور کولہوں میں ہم مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔ صبح کاذب سے لے کر رات تک دیہاتی عورت ’’برابری کی سطح پر‘‘ جتنی جانکاہ مشقت کرتی ہے، وہ دخترانِ شہر تو کیا خود آپ مردوں کے لئے بھی ممکن نہیں۔ شہر کی ذہین مصور خواتین خوبصورت دیہی زندگی کے پورٹریٹس بناتی ہیں، جن میں دیہاتی عورتیں سر سبز لہلہاتے کھیتوں کے درمیان بل کھاتی پگڈنڈیوں پر پانی کے دو دو گھڑے سروں پر اور ایک ایک بغل میں اٹھا کر جاتے ہوئے بڑی پر کشش لگتی ہیں۔ تاہم ان فن پاروں کی نرم و نازک تخلیق کاروں اور انہیں آرٹ گیلریوں میں دلچسپی سے دیکھنے والیوں کو ان بل کھاتی پگڈنڈیوں پر تین تین گھڑے اٹھا کر دس قدم چلنا پڑے تو انہیں لگ پتہ جائے۔
ہمیں اپنے ملک کی پر عزم اور باصلاحیت خواتین پر فخر ہے، جنہوں نے وطن کا نام روشن کیا۔ جیسے بے نظیر بھٹو جو ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں، شرمین عبید چنائے جس نے اپنی فلم پر آسکر ایوارڈ جیتا، ملالہ یوسفزئی جو کم عمر ترین نوبیل انعام یافتہ ہے، ڈاکٹر مہرین فاروقی جو آسٹریلیا کی پہلی مسلمان خاتون رکن پارلیمنٹ بنیں، ڈاکٹر ثانیہ نشتر جس نے عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کے لئے ووٹنگ کے پہلے مرحلے میں یورپین امیدواروں کو شکست دی، زینب بی بی جسے ردی کاغذ سے بائیو ایتھانول اور بائیو فیول تیار کرنے پر ملکہ برطانیہ نے ینگ لیڈیز ایوارڈ سے نوازا، فوزیہ مرزا جسے وائٹ ہائوس میں چیمپئن آف چینج کا ایوارڈ ملا، ڈاکٹر سارہ سعید جس نے اعلیٰ کارکردگی کی بدولت یونیورسٹی آف کیمبرج سے انعام حاصل کیا، شاندانہ وحید جسے غیر معمولی تعلیمی قابلیت پر نیویارک میں فلک صوفی اسکالر شپ ایوارڈ ملا، آرکیٹک یاسمین لاری جس نے جاپانی فوکو اوکا ایوارڈ جیتا، شازیہ رضوی جسے پرائیڈ آف امریکہ پرومینینٹ ایوارڈ سے نوازا گیا، سعیدہ امارہ جس نے ٹیلنٹڈ ینگ انٹرنیشنل ڈیزائنر ایوارڈ حاصل کیا، ماہرہ خان جسے بھارت میں ووگ بیوٹی ایوارڈ ملا، فائزہ نقوی جسے عالمی ہیومنٹیرین ایوارڈ سے نوازا گیا اور مونا پرکاش جسے لندن میں کامن ویلتھ ایوارڈ ملا۔
ہمیں ملک کی ستر فیصد دیہی آبادی کی ان کروڑوں بے نظیروں، شرمین عبید چنائوں، ملالہ یوسفزیوں، مہرین فاروقیوں، ثانیہ نشتروں، سارہ سعیدوں، یاسمین لاریوں، شازیہ رضویوں، زینت بیبیوں، سعیدہ اماروں، ماہرہ خانوں اور مونا پرکاشوں پر بھی فخر ہے جو نسل در نسل کھیتوں اور کھلیانوں میں اپنی گرانقدر خدمات سر انجام دے رہی ہیں مگر کوئی ایوارڈ تو کجا، انہیں آج تک پینے کے لئے صاف پانی سے بھی نہیں نوازا گیا۔ یقیناً عالمی ایوارڈز حاصل کرنے والی پر عزم خواتین کو آپ اہل تہذیب کی سپورٹ حاصل ہے جس کی بدولت انہوں نے ملک کا نام روشن کیا۔ ثانی الذکر دیہاتی خواتین کو بھی اپنے مردوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے اورانہیں مشقت کے میدان میں مردوں کے ساتھ ’’برابری کے حقوق‘‘ حاصل ہیں۔ ملک کا نام تو وہ بھی خاموشی سے روشن کر رہی ہیں مگر ان کے مقدر میں بجلی سے لے کر تعلیم تک کوئی روشنی نہیں۔ ان کے تو فرشتوں کو بھی خبر نہیں کہ گزشتہ چار سال میں یہاں انسانی ترقی پر 30کھرب روپے خرچ ہو چکے ہیں یا پاکستان میں کرپشن کم ہوئی ہے اور یہ سرمایہ کاری کے لئے بہتر ملک بن گیا ہے۔
اگرچہ آپ کے ہاں خواتین کے خلاف تیزاب گردی، زیادتی، تشدد اور ہراساں کرنے کے اِکا دُکا واقعات ہو جاتے ہیں اور اسی طرح اِدھر بھی کبھی کبھار غیرت کے نام پر قتل، ونی اور جبری شادیوں کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ تاہم مجموعی طور پر حالات و واقعات کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں شہری اور دیہی خواتین صنفی مساوات کے سنہرے اصول کے تحت اپنے اپنے شعبوں میں بلا خوف کام کر رہی ہیں۔ البتہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر صنفی امتیاز ہمارا طرئہ امتیاز نہیں تو ورلڈ اکنامک فورم کے گلوبل سروے کے مطابق صنفی امتیاز برتنے والے 144 ممالک کی فہرست میں وطن عزیز کا نمبر 143واں کیوں ہے؟ کہیں یہ یہود وہنود کی کوئی گھنائونی سازش تو نہیں؟
.