(گزشتہ سے پیوستہ)
80ء کی دہائی میں پاکستان اور روس افغانستان کے محاذ پر باہم برسرِ پیکار تھے۔ افغانستان پر قابض سوویت افواج کے خلاف امریکہ، یورپی ممالک ، سعودی عرب اور چین کی عسکری ومالی امداد کے ساتھ افغان مزاحمت کی حقیقی قیادت پاکستانی افواج کے ہاتھ میں تھی۔ انہی حالات میں 15 جنوری 1985ء کو سوویت نمائندوں کی موجودگی میں جنرل محمدضیاالحق نے سوویت سرمائے سے مکمل ہونے والی پاکستان اسٹیل ملز کا باقاعدہ افتتاح کیا ۔ پاک روس تعلقات کی علامت اسٹیل ملز کا سنگِ بنیاد 1973ء میں وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے رکھا تھا۔ 1988 ء میں جنرل ضیاالحق کی وفات کے بعد بینظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ محترمہ بینظیر بھٹو خلوصِ نیت سے سوویت یونین کے ساتھ تعلقات کے تنائو کو کم کرنا چاہتی تھیں ۔ یکم مارچ 1990ء کو سوویت سفیر وی۔ پی۔ یکونن نے سرکاری بیان جاری کیا کہ پاکستان کو برقی توانائی کی قلت دور کرنے کیلئے جوہری توانائی کی ضرورت ہے جس کے لئے مطلوبہ گارنٹی کی صورت میں روس کی طرف سے جوہری ری ایکٹر فراہم کیا جا سکتا تھا۔پیشکش کے جواب میں بینظیر بھٹو نے وفاقی وزیر پیدوار راجہ شاہد ظفر اور سیکرٹری خارجہ تنویر احمد خان کو ماسکو روانہ کیا۔ تاہم ماہرین نے روسی ٹیکنالوجی کو فرسودہ سمجھتے ہوئے بینظیر بھٹو کو فرانس کے ساتھ ایٹمی پلانٹ کے حصول کا معاہدہ کرنے کا مشورہ دیا۔ فرانس کے ساتھ معاہدہ تو طے پاگیا مگر امریکی دبائو پر سردخانے کی نذرہو گیا۔
1996ء میں روس نے پاکستان کی دوسری سیٹلائٹ بدربی کو اپنے خلائی بیس سے لانچ کرنے کی پیشکش کی۔ اسی سال بینظیر بھٹونے افغانستان میں امن کی بحالی اور افغان طالبان کی حکومت کے قیام کیلئے سوویت یونین کے ساتھ مذاکرات کا مشن سیکرٹری خارجہ تنویر احمد خان کو سونپا مگر وزیرِ خارجہ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) صاحبزادہ یعقوب خان نے بینظیر مشن کی سخت مخالفت کی۔ سوویت حکومت نے بینظیر بھٹو مشن کو خوش آمدید کہا اور مذاکرات کیلئے اپنے مشہور ڈپلومیٹ یُولی وارنٹسوف کو نامزد کر دیا۔ تقریباََ دس گھنٹے کے تیزوتند اور گرما گرم مباحثوں کے بعد مذاکرات کار کسی کارآمد نتیجے پر پہنچنے اور بات چیت جاری رکھنے پر آمادہ تھے۔ تنویر احمد خان نے تفصیلی رپورٹ وزیراعظم بینظیر بھٹو کو پیش کی مگر وزیرِ خارجہ یعقوب خان نے وزیرِ اعظم کے احکامات نظر انداز کرتے ہوئے مذکورہ رپورٹ کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے روبرو پیش نہ ہونے دی۔ بینظیر بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد تنویر احمد خان کو اچانک روس سے واپس بلوا لیا گیا۔ بعد ازاں حالت یہ تھی کہ 6ماہ تک دنیا کی دوسری بڑی طاقت روس کیلئے پاکستان کا کوئی سفیر سرے سے موجود ہی نہ تھا۔ روس نے پاکستانی حکومت کی اس غیر پیشہ ورانہ سردمہری کو انتہائی منفی انداز میں لیا۔
وزیر اعظم نواز شریف نے روس کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کیلئے اپریل 1999ء میں کریملن کا دورہ کیا۔روس نے جنرل پرویز مشرف کی طرف سے نواز شریف کی حکومت گرانے اور مارشل لا کے نفاذ کی مذمت کی تاہم اپریل 2007ء میں روسی وزیر اعظم میخائل فرد کوف نے پاکستان کا دورہ کیا۔ مئی 2011ء میں صدر آصف علی زرداری اور فروری 2012ء میں وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے روس کا دورہ کیا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر دو طرفہ تعلقات کا نیا دور شروع کیا جاسکے۔ پاکستان اور روس کے وزرائے خارجہ نے دہشتگردی سے نمٹنے، منشیات کی اسمگلنگ پر قابو پانے ، باہمی تجارت ، توانائی کے شعبوں میں تعاون، تھر کول توانائی منصوبے میں روسی سرمایہ کاری، ترکمانستان پاکستان وبھارت گیس پائپ لائن ، وسطی وجنوبی ایشیا کے توانائی منصوبے اور شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کی شمولیت کے متعلق تبادلہ خیال کیا۔تاہم ایک مخصوص لابی کے زیر اثر پاکستانی میڈیاکا بڑا حصہ جمہوری حکومت کی سفارتی کوششوں کی پذیرائی کی بجائے خاتون وزیر خارجہ کے قیمتی کپڑوں اور مہنگے ہینڈ بیگ کا ڈھنڈورا پیٹنے میں مصروف رہا۔
26نومبر 2011ء کو روس نے سلالہ چوکی پر نیٹو افواج کے حملے کی مذمت کی جس میں 24پاکستانی فوجی شہید ہوگئے تھے ۔ 2012ء میں پاکستان میں مقیم روسی اسکالر ڈاکٹر تشمرزا خالمرزوف نے اردو اور روسی زبان کی ڈکشنری مرتب کی تاکہ دونوں زبانیں بولنے والے ایک دوسرے کے قریب آسکیں۔ 2012ء میں جنرل اشفاق پرویز کیانی نے روس اور 2013ء میں روسی بری افواج کے کمانڈر انچیف جنرل ولادی میر وی چرکن نے پاکستان کا دورہ کیا۔جولائی 2015ء میں جنرل راحیل شریف کے روس کے دورے کے دوران پاکستان کو ایم آئی۔35 لڑاکا ہیلی کاپٹروں کی فراہمی کا معاہدہ طے پایا۔ پاکستانی فوجی دستے نے مشرقی روس کے علاقے میں جنگی مشقوں میں حصہ لیا۔ بھارتی دبائو کے باوجود 2016 ء میں دونوںممالک نے پاکستان میں مشترکہ دفاعی مشقیں کیںاورلاہور سے کراچی تک گیس پائپ لائن بچھانے کے معاہدے پر دستخط کئے گئے۔
روس اور پاکستان کی باہمی تجارت کا موجودہ حجم تقریباََ 460ملین امریکی ڈالر سالانہ کے برابر ہے۔رپورٹس کے مطابق چین اور پاکستان مشترکہ طور پر گوادر کی بندر گاہ کے ذریعے روس کو بحیرۂ عرب کے گرم پانیوں تک رسائی دینے پر آمادہ ہیں ۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری میں روس کی شمولیت سے اس منصوبے کی بھارت کی طرف سے مخالفت میں بھی کمی آسکتی ہے۔امریکی تھنک ٹینک اسٹرٹیجک اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق 2012ء سے پاکستان اور روس عالمی سیاست کے پیش منظر سے ہٹ کرخفیہ طور پر اسٹرٹیجک تعلقات بنانے میں مصروف ہیں۔ بھارت کی مودی حکومت کے امریکہ کے ساتھ بڑھتے ہوئے گٹھ جوڑ اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے فوری بعد کے بیانات کے تناظر میں خارجہ امور کے ماہرین جنوبی ایشیا کے خطے میں روس کا بڑھتا ہوا کردار اور پاکستان، چین اور روس کے مابین آنے والے برسوں میں عسکری ،اقتصادی اور سیاسی تعاون مستحکم ہونے کے اشارے دے رہے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی حکومت روس جیسے طاقتور ہمسائے کے سا تھ تعلقات استوار کرنے میں وقت کے یہ اشارے سمجھنے میں کس قدر سنجیدہ ہے ۔
.