ہم ہمیشہ سے امریکہ کی تقلید کرتے چلے آئے ہیں مگر اب معاملہ اس کے برعکس دکھائی دیتا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے امریکہ ہماری پیروی کرنے پر ادھار کھائے بیٹھا ہے۔نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی میڈیا اور عدلیہ سے جس قدر نالاں اور برہم دکھائی دیتے ہیں اس سے تو یوں لگتا ہے جیسے جنرل (ر)پرویز مشرف کی روح ان میں حلول کر گئی ہے اور وہ کسی بھی وقت ’’ایمرجنسی‘‘ نامی کیلے کے چھلکے سے پھسل سکتے ہیںلیکن چونکہ وہ منتخب صدر ہیں اس لئے عین ممکن ہے جمہوریت کا خودکار نظام انہیںڈی ٹریک ہونے اور اس بلنڈر کا ارتکاب نہ کرنے دے۔انسان نے آج تک جتنے نظام تشکیل دیئے ان میں سے کوئی ایک بھی اغلاط سے پاک اور خطائوں سے مبرا نہیں۔اس لئے نریندر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے افراد بھی منتخب ہو کر آ جاتے ہیںمگر جن معاشروں میں زندگی کی رمق باقی ہوتی ہے وہاںایسے مواقع پر ان اجتماعی غلطیوں کے خلاف سماج کے اندر سے ہی ردعمل آتا ہے ،کسی بیرونی مداخلت کے بغیر اس معاشرے کی اپنی ہی صفوں سے اصلاح کی تحریک اٹھتی ہے اور یوں گمراہی کی طرف جاتا معاشرہ اچانک راستہ بدل کر معقولیت کی شاہراہ پر چل پڑتا ہے۔اگر امریکی معاشرہ مجموعی اعتبار سے انسانیت کے کھونٹے سے نہ بندھا ہوتا تو ڈونلڈ ٹرمپ کا ظہور نائن الیون کے بعدہی ہو چکا ہوتا ۔امریکہ میں بسے ہوئے مسلمانوں کی زندگیاں اجیرن کر دی جاتیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔نوے کی دہائی میں ہندوستان میں بابری مسجد شہید ہوئی تھی اورہمارے ہاں اس کا کیسا ردعمل دیکھنے میں آیا سب کو یا د ہو گا۔عراق پر حملہ ہوا تو دنیا بھر میں ہونے والے چھوٹے موٹے مظاہروں کے برعکس نیویارک اور واشنگٹن میں ملین مارچ ہوئے ۔گوانتا نامو بے کے عقوبت خانے میں قیدیوں پر انسانیت سوز مظالم ہوئے تو سب سے پہلے امریکی معاشرے سے ہی صدائے احتجاج بلند ہوئی۔
آج بھی امریکہ میں معقولیت پسند ی کی تحریک عروج پر دکھائی دیتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ امریکیوں نے ہی دیئے لیکن وہ بھی تو امریکی ہی ہیں جنہوں نے اس کے حلف اٹھاتے ہی قصر سفید کے سامنے ملین مارچ کیا۔جب ڈونلڈ ٹرمپ نے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے سات مسلم ممالک کے پناہ گزینوں کی آمد پر پابندی لگا دی تو گوری چمڑی والے انگریز ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھائے ایئر پورٹس پر جمع ہو گئے ’’ہم سب مسلمان ہیں۔ہم سب پناہ گزین ہیں‘‘ہوائی مستقر عبادت گاہوں میں بدل گئے ،مسلمانوں نے نمازیں ادا کرنا شروع کر دیں۔بغیر کسی منظم تحریک کے انسانی حقوق کے علمبردار وکلا آگئے ،ایگزیکٹو آرڈرز سے متاثر ہونے والے افرادکی پٹیشنز تیار ہونے لگیں ،بغیر کسی فیس اور معاوضے کے مقدمہ لڑنے والے وکلا نے دن رات ایک کر دیا اور عدالت سے حکم امتناعی لینے میں کامیاب ہو گئے۔ٹرمپ انتظامیہ نے محکمہ انصاف کے ذریعے وفاقی عدالت میں اپیل دائر کی تو ایک مرتبہ پھر رضاکاروں نے بھرپور دلائل کا انبار لگا دیا اور یہاں بھی حکومت کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔میڈلین البرائٹ جیسی خاتون نے برملا کہا کہ میں عقیدے کے اعتبار سے یہودی ہوں لیکن اگر مسلمانوںسے امتیازی سلوک روا رکھتے ہوئے ان کی الگ رجسٹریشن کی گئی تو میں مذہب کے خانے میں خود کو مسلمان ظاہر کروں گی۔ایک لمحے کا توقف کریں اور تعصب کے دائرے سے نکل کر سوچیں ،اگر پاکستان میں کسی اقلیتی برادری سے امتیازی سلوک پر حقوق انسانی کے کسی علمبردار کی طرف سے یہ کہا گیا ہوتا کہ اگر ان کا شمار الگ سے کیا گیا تو میں بھی ان سے اظہار یکجہتی کے لئے مذہب کے خانے میں ان کے عقیدے کا نام لکھوائوں گا ،تو کیا ردعمل ہوتا؟اور اس شخص کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا؟ہم نے امریکہ کی نقالی میں بہت سی اقدار و روایات اپنائیں ،روشن خیالی کے نام پر بہت کچھ بر آمد کیا ،فوجی و اقتصادی امداد اورقرضے حاصل کئے مگر کیا ہی اچھا ہو تا اگر ان سب اشیاء کے بجائے ہم امریکیوں سے ایک وصف مستعار لیتے ،معاشرے کی اجتماعی غلطیوں کے خلاف کھڑے ہونے کی روش ،اصلاح کے لئےداخلی سماجی بغاوت کا طرز عمل۔اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کی طاقت اور خوشحالی کا راز پناہ گزینوں کی آمد میں ہی مضمر ہے۔یقین نہیں آتا تو نوبیل انعام لینے والوں کی فہرستیں اٹھا کر دیکھ لیں ۔سلیکان ویلی پر ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کی اجارہ داری ہے۔ معیشت ان امریکیوں کے ہاتھ میں ہے جن کے والدین پناہ گزین کی حیثیت سے امریکہ داخل ہوئے۔ان پناہ گزینوں کا راستہ روک کر امریکہ خود اپنے پائوں پر کلہاڑا مار رہا ہے ۔شاید یہی وجہ ہے امریکی سماج کا داخلی ردعمل بہت شدید اور خوفناک ہے۔مگر میرے مخاطب وہ اہل ا فرادہیں جنہیں مسلمانوں سے امتیازی سلوک پر بہت دکھ ہو رہا ہے اور جو ملی جذبات کے پیش نظر امریکہ کو گالیاں دے رہے ہیں۔
حضور ! آپ اپنی حق گوئی پر ضرور اِترائیں، امریکہ کو بہر طورکھری کھری سنائیں ،ڈونلڈ ٹرمپ کو جی بھر کر برا بھلا کہیںمگرغیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں کی بے رُخی کے بھی تو گیت گائیں۔تکلف برطرف ،چند روز قبل ہی خبر آئی کہ ایک دوست مسلم ملک سے گزشتہ چند ماہ کے دوران دو چار سو نہیں چالیس ہزار پاکستانیوں کو ملک بدر کیا گیا۔کتنے ہی مسلمان ملک ہیں جہاں مسلمان ملک کے شہریوں کی آمد پر پابندی ہے۔کتنے ہی برادر مسلم ممالک میں یہ انداز معاشرت ہے کہ پوری زندگی وقف کر دیں تو بھی آپ غیر ملکی ہی رہیں گے اس ملک کی شہریت آپ کو نہیں مل سکتی۔جب شامی بچے کی دل دہلا دینے والی داستان سامنے آنے پر جرمن چانسلر اینجلا مرکل نے اپنے ملک کے دروازے پناہ گزینوں کے لئے کھول دیئے تو اس نے بھی یہی کہا تھا کئی مسلم ممالک ہیں جو جرمنی کی نسبت زیادہ قریب پڑتے ہیں، امریکہ کو گالیاں ضرور دیں لیکن مرزا سودا سے معذرت کے ساتھ
گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر انداز چمن ،کچھ تو ادھر بھی
.