محمد العرابی طائف سعودی عرب کے ایک کالج میں میرے رفیق کار تھے۔ انہوں نے انگریزی زبان و ادب میں ایم اے کی ڈگری برطانیہ کی ایک ممتاز یونیورسٹی سے حاصل کی تھی۔ وہ اکثر برطانیہ کی سیر و سیاحت کے لئے جاتے رہتے تھے۔ ایک بار مجھے بتانے لگے کہ میں لندن سے کسی برطانوی ٹائون کے لئے شام ڈھلے روانہ ہوا۔ جلد ہی موٹر وے پر گاڑی ہوا سے باتیں کرنے لگی اور حد رفتار سے بہت آگے نکل گئی۔ تھوڑی دیر میں ایک ٹریفک سارجنٹ نے مجھے روکا اور ریسٹ ایریا میں مجھے سستانے اور تازہ دم ہونے کے لئے کہا۔ سارجنٹ بھی کچھ ریلیکس کرنے اور گپ شپ کے موڈ میں تھا۔ اس نے کافی منگوالی۔ دوران گفتگو اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں کہاں جارہا ہوں۔ میں نے اسے ٹائون کا نام بتایا تو اس نے کہا کہ رات گئے کہاں ہوٹل ڈھونڈتے پھرو گے اور اپنے والد کا فون نمبر اور پتہ دیا کہ ان کے پاس ٹھہر جانا۔ جب میں چلنے لگا تواس نے مجھے 70پونڈ کا ٹکٹ دیا۔ میں نے قدرے حیرت سے اس کی طرف دیکھا تو اس نے کہا بحیثیت انسان اور دوستی کے ناتے تمہاری عزت افزائی میرا فرض ہے اور یہ جرمانہ ریاست کا حق ہے۔ ڈی آئی جی احمد مبین بھی ایک ایسے ہی ہنس مکھ، ملنسارمگر انتہائی فرض شناس آفیسر تھے۔ فرید بھائی مجھے بتا رہے تھے کہ ایک بار ان کے ڈرائیور نے نیو کیمپس کے قریب ایک ’’غلط العام‘‘ قسم کی ون وے خلاف ورزی کی۔ سامنے سے ٹریفک پولیس کی گاڑی آگئی۔ گاڑی میں ڈی آئی جی احمد مبین بنفس نفیس موجود تھے۔ وہ اتر کر آئے مسکراتے ہوئے مجھ سے ہاتھ ملایا اور کہا کہ ’’پراچہ صاحب! چالان تو ہوگا‘‘ فرید صاحب کے ساتھ ان کے خوشگوار مراسم تھے۔ انہوں نے ڈی آئی جی کی فرض شناسی کو بہت سراہا اور کہا کہ ڈرائیور جب اس طرح کی کوئی خلاف ورزی کرتا ہے تو میں خود چالان کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں۔ ڈی آئی جی احمد مبین خود ٹریفک کی چیکنگ پر نکل جایا کرتے تھے۔ ہمارا مستعد، متحرک اور متبسم پولیس ہیرو 13فروری کے دھماکے میں شہید ہوگیا اور سارے شہر کو اداس کر گیا۔ اسی طرح دوسرے شہید آفیسر قائمقام ڈی آئی جی زاہد گوندل بھی بہت ہی جرات مند اور ذمہ دار آفیسر کی شہرت رکھتے تھے۔
لاہور خودکش حملے میں 13 افراد شہید ہوئے جن میں سے اکثریت پولیس اہلکاروں کی تھی۔ ہم اکثر پولیس کو نشانہ تنقید بناتے رہتے ہیں مگر وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر شہریوں کی حفاظت کے لئے شب و روز بھاگتے دوڑتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے حکمران اور سیاست دان ہر ایسے سانحے اور دہشت گردی کے واقعہ کے بعد اظہار مذمت کے طور پر دو چار رسمی بیانات دیتے ہیں اور دہشت گردوں کا نام و نشان مٹانے کے دعوے کرتے ہیں مگر اس انسانی ٹریجڈی کو کبھی گہرائی میں اتر کر محسوس نہیں کرتے کہ کسی ایک فرد کے اس دنیا سے یوں اچانک چلے جانے اور لب گور پہنچنے کے بعد اس کے پیارے تو زندہ درگور ہو جاتے ہیں۔ زندگی کی سرشت میں عجب بے وفائی ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی نے ایسے ہی مواقع کے لئے کہا ہے؎
غم حبیب شکایت ہے زندگی سے مجھے
تیرے بغیر بھی کٹتی رہی ذرا نہ رکی
حکمرانوں نے خود ڈسپلن کی دھجیاں اڑائی ہیں۔ جس شہر میں تھانیداروں کو حکم ہو کہ انہوں نے کسی سنگین سے سنگین جرم کی ایف آئی آر بھی درج نہیں کرنی وہاں ابتدائی رپورٹ درج کرانے کے لئے لواحقین سڑکیں بلاک کر کے احتجاج کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور لٹنے والے سر عام اپنا نوحہ بیان کرتے ہیں۔ جعلی دوائوں یا ملاوٹ سے بڑا تو کوئی جرم ہو نہیں سکتا مگر حکم شاہی جاری کرنے سے پہلے دوا سازوں کی کسی تنظیم کو اعتماد میں لیا جاتا اور ان کا موقف سنا جاتا تو کیا اچھا ہوتا۔ جب تک ڈسپلن، قانون کی عملداری اور دیانتداری کا آغاز حکمرانوں سے نہیں ہوگا اس وقت تک قانون کی حقیقی حکمرانی کا کلچر قائم نہیں ہوسکتا۔
ہمارے پڑوسی ملک کو ہماری سلامتی اور ہماری اقتصادی خوشحالی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں قتل و غارتگری کا بازار گرم کر رکھا ہے اور وہ آئے روز لائن آف کنٹرول کی سنگین خلاف ورزیاں کرتا ہے اورمعصوم کشمیریوں کو موت کے گھاٹ اتارتا ہے ۔ پاک۔ چین اقتصادی راہداری کے بعد اب پاکستان سپر لیگ کی کامیابی بھی اس کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ بھارت اب مقبوضہ کشمیر اور کنٹرول لائن سے آگے بڑھ کر ریاستی دہشت گردی کے ایجنڈے سمیت پاکستان کے شہروں تک آپہنچا ہے۔ بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو انڈیا کا حاضر سروس کرنل رینک کا آدمی ہے۔ ایسے اہم ایجنٹ کے بارے میں ہمارے حکمرانوں نے عالمی اداروں کو کچھ نہیں بتایا جبکہ بھارت آج بھی ساری دنیا میں پروپیگنڈہ کررہا ہے کہ پاکستان سے دہشت گردی بھارت روانہ کی جاتی ہے۔ ہم دہشت گردی کی ہر کارروائی کے بارے میں وقتی طور پر تو شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہیں مگر پھر رات گئی بات گئی۔ 16دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک اسکول میں خودکش حملہ ہوا تو ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل سوگوار تھا۔ اس کے بعد نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا۔ اس پلان میں آرمی کے تحت اسپیشل عدالتیں اگرچہ آئین اور انسانی حقوق کے مروجہ اصولوں کے خلاف تھیں مگر دہشت گردی کے عذاب سے نجات پانے کے لئے تمام پارٹیوں اور تمام سیاست دانوں نے انہیں تسلیم کر لیا۔20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان کی اکثر شقوں پر عملدرآمد نہیں ہورہا جبکہ پولیس جیسے بنیادی اہمیت کے حامل محکمے کی وسیع تر خدمات اور اس کے لئےضروری اصلاحات کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ فاٹا میں ابھی تک سیاسی و انتظامی اصلاحات نافذ نہیں کی گئیں اور نہ ہی وعدوں کے باوجود فاٹا کی خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی کارروائی مکمل کی گئی ہے۔ اس طرح نیکٹا کو مطلوبہ فنڈز فراہم نہیں کئے جارہے۔
حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ بھارت اور دہشت گردی کے خلاف اپنا نقطہ نظر اور لائحہ عمل واضح کریں اور نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل کریں۔
بقول شاعر
شہر سارا ہی پریشان ہوا پھرتا ہے
شہر کیا شہر شہر پریشاں ہیں سوائے حکمرانوں کی بستیوں کے جہاں قدآدم فصیلوں کے اندر کڑیل پہریداروں کی حفاظت میں وہ چین کی بنسی بجاتے اور شاید پرسکون نیند سوتے ہوں گے۔
پس تحریر:
دنیا میں اچھا تحفہ خوشبو اور کتاب ہے۔ دوستوں کی نوازشات سے آجکل میرے مطالعے کی میز پر بہت سی کتابیں یکجا ہوگئی ہیں مگر اس شہر آشوب میں کتابوں کی رفاقت سے کماحقہ، مستفید ہونے کا یارا نہیں۔ تاہم اہل ذوق سے صرف تین کتابوں کا تعارف کروائے دیتا ہوں۔ ڈاکٹر زاہرہ نثار نے نہایت خوش ذوقی کے ساتھ نصف صدی پر پھیلے ہوئے لالہ صحرائی مرحوم کے افسانوں، شخصی خاکوں، انشائیوں اور سیاسی و تنقیدی مضامین کو ’’نگارشات لالہ صحرائی‘‘ کے عنوان سے یکجا کر دیا ہے۔ یہ سب تحریریں ایک پختہ و شگفتہ ادبی اسلوب کی عکاس ہیں۔ دوسری کتاب ’’گردش ایام‘‘ ہے جو فاروق چوہان کے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے کالموں کا مجموعہ ہے۔ فاروق چوہان کی تحریروں سے اسلام اورپاکستان کی سچی محبت چھلکتی ہے۔ مجھے امید واثق ہے کہ فاروق چوہان کے کالموں کا یہ مجموعہ کتاب دوست حلقوں میں پذیرائی حاصل کرے گا۔ تیسری کتاب ’’ہم سب کا اعجاز (اعجاز احمد بھٹی) کے نام سے منظر عام پر آئی ہے جسے یونیورسٹی آف سرگودھا کے جواں سال اسکالر محمد عثمان نے مرتب کیا ہے۔ آج کے افراتفری کے دور میں اپنے جواں مرگ استاد کی یادوں کو یکجا کر کے مرتب نے نوجوانوں کے لئے روشن مثال قائم کی ہے۔ شعبہ ابلاغیات یونیورسٹی آف سرگودھا کے استاد اعجاز احمد بھٹی سے اس کے دوستوں اور شاگردوں نے بہت سا فیض حاصل کیا۔ یقیناً قارئین بھی اس کتاب سے کسب فیض کریں گے۔
.