قومی سیاسی جماعتیں کسی بھی قوم کے لئےاتحاد کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ جن میں عوام صوبوں ، زبانوں اور مذہبی اعتقادات سے بالا تر ہوکر شرکت کرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں اتحاد اور حب الوطنی کی ایک اور زنجیر وجود میں آجاتی ہے۔ اسی طرح کسی بھی قومی پارٹی کا تباہ کر دیا جانا یا تباہ ہو جانا ملک و قوم کا ایک بڑا نقصان ہے جس کا ازالہ ممکن نہیں۔ تقسیم ِ ملک کے وقت کانگریس اور مسلم لیگ کا آزادی کے لئےاداکئےجانے والا کردار سیاسی پارٹیوں کی اہمیت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ پاکستان میں ایک نئے عوامی سیاسی کلچر کو متعارف کروانے ، جمہوریت کی بحالی کے لئےطویل جدوجہدکرنے اور جانوں کی قربانیاں پیش کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی بھی ایسی ہی پارٹیوں میں شامل ہے جس کے کریڈٹ پر پاکستان کی آئین سازی اور ایٹمی پروگرام کی بنیادیں رکھنے کا کارنامہ بھی شامل ہے۔ کئی دہائیوں تک پیپلز پارٹی ملک کی سب سے مقبول پارٹی رہی ہے جس کا وجود چاروں صوبوں میں خاصی اہمیت کا حامل تھا۔ صرف یہی وہ واحد قومی سیاسی پارٹی تھی جسے اینٹی اسٹیبلشمنٹ پارٹی ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا اور جس کے خلاف غیر سیاسی طاقتیں ہمیشہ سازشیں کرتی رہی ہیں۔ لیکن عوام میں اسکی مقبولیت کا یہ عالم رہا کہ آمریت کا کوئی جبر بھی انہیں پیپلز پارٹی سے دور نہ لے جا سکا۔ آج اس پارٹی کا جو حشر ہو چکا ہے وہ صرف پیپلز پارٹی کے جانثار اور کمیٹڈ(Committed)جیالوں کا ہی دُکھ نہیں بلکہ ہر جمہوریت پسند اور پاکستان کے اتحاد پر یقین رکھنے والے شخص کا دکھ ہے۔ اور وہ حیران ہے کہ جس پارٹی کو آمریت اور اس کے حواری مل جل کر ختم نہ کرسکے وہ کیسے خود ہی خاتمے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی دو خصوصیات نمایاں تھیں جو کسی اور پارٹی میں موجود نہیں تھیں۔ اوّل اس کے جانثار جیالے جو ہر قربانی کے لئےہر وقت تیار رہتے تھے اور ’’دوم‘‘اس کا نشانِ امتیاز ، اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونا۔ لیکن دُکھ کی بات یہ ہے کہ اب وہ ان دونوں ٹائٹلز سے محروم ہوتی جارہی ہے۔ پیپلزپارٹی کے جیالوں کی اکثریت پاکستان تحریک ِ انصاف نے چھین لی ہے اور اسکی اینٹی اسٹیبلشمنٹ پارٹی ہونے کا اعزاز نواز مسلم لیگ کی طرف کھسکتا جا رہا ہے جو غیر سیاسی طاقتوں کے نرغے میں اپنی بقاء کے لئےجدوجہد کر رہی ہے۔ حالانکہ مذکورہ بالا دونوں پارٹیاں اپنے اپنے وقت میں غیر سیاسی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیلتی رہی ہیں۔
پاکستان اور برصغیر میں سب سے زیادہ مشکلات برداشت کرکے بھی زندہ اور توانا رہنے والی اس پارٹی کی موجودہ حالتِ زار کی مختلف توجیہات پیش کی جاتی ہیں۔ لیکن تنزّلی کا عمل چونکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی المناک شہادت کے بعد شروع ہوا ہے۔ لہٰذا دوسری وجوہات کی نسبت جو پہلے بھی موجود تھیں ۔ لیڈر شپ کی تبدیلی کے بعد ’’لیڈر شپ کرائسس ‘‘ ہی پارٹی کی موجودہ زبوں حالی کی سب سے بڑی وجہ نظر آتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی اپنی پہلی ٹرم مکمل کرنے کے بعد اتنی مضبوط ہو چکی تھی کہ اس کے انقلابی رول کو محدود کرنے کے لئےبڑی طاقتوں کو غیر سیاسی مقتدر حلقوں کی مدد سے ذوالفقار علی بھٹو کو راستے سے ہٹانا پڑا لیکن بھٹو کی شہادت سے پارٹی کا امیج اور مضبوط ہوگیا۔ اسی طرح محترمہ بے نظیر بھٹو کو اقتدار میں آنے کا دو مرتبہ موقع ملا اور دونوں مرتبہ انہیں وقت سے پہلے معزول کردیا گیا۔ لیکن انکی اور پیپلز پارٹی کی مقبولیت میں کوئی فرق نہ آیا بلکہ 18اکتوبر 2007کو انکی دوسری جلا وطنی کے بعد وطن آنے پر استقبالی ہجوم کسی طرح بھی اُس ہجوم سے کم نہ تھا جو اکیس سا ل پہلے 10اپریل 1986کو انکی پہلی جلا وطنی سے واپسی پر اکٹھا ہوا تھا۔ لیکن آصف علی زرداری کی قیادت میں اقتدار میں پانچ سال پورے کرنے والی پیپلز پارٹی جس میں زرداری صاحب خود بھی کرسی صدارت پر فائز تھے۔ جس بُری طرح ناکامی کا شکار ہوئی ہے ۔ وہ تمام جمہوریت پرست حلقوں کے لئےلمحہ ء فکریہ ہے۔
کوئی مانے یا نہ مانے یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ برصغیر کی سیاست میں شخصیات کا کردار ابھی بھی بہت اہم ہے۔بد قسمتی سے پاکستانی سیاست میں زرداری صاحب کی ذات ہمیشہ سے متنازع رہی ہے جس کے سائے محترمہ بے نظیر بھٹو کی دو حکومتوں پر بھی منڈلاتے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے حوالے سے کرپشن اور اقربا پروری کے الزامات کا آغاز سب سے پہلے زرداری صاحب کی ذات سے ہی سامنے آیا ۔ اگرچہ ان پر کرپشن کے کئی مقدمات بنے اور انہوں نے گیارہ سال قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں نیز ان کے خلاف کرپشن کے مقدموں میں کسی مقدمے کا نتیجہ بھی ان کے خلاف نہ آیا۔پھر بھی عوام میں انکی ساکھ اس طرح کبھی بحال نہ ہو سکی جیسی کہ بھٹو ز کی تھی۔ پیپلز پارٹی ہمیشہ آئینی ، جمہوری اور انسانی حقوق کے لئےکوشاں رہی ہے اور عدلیہ کی بحالی کے لئےبھی اس کے ورکروں نے بے پناہ قربانیاں دیں۔ خود محترمہ بے نظیر بھٹو نے اعلان کیا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلے چیف جسٹس چوہدری افتخار کو بحال کریں گی۔ گویا اس وقت یہ ایک قومی مطالبہ تھا جس نے پرویز مشرف کی آمریت کو پاش پاش کردیالیکن اقتدار میں آنے کے بعد زرداری صاحب نے چوہدری ی افتخار کی بحالی میں جس لیت و لیل اور پس وپیش کا مظاہرہ کیا اس نے نہ صرف پیپلز پارٹی کے جمہوری رُخ اور زرداری صاحب کی جمہوریت پسندی کو مشکوک بنا دیا بلکہ نواز شریف کو ایک زیادہ جمہوری سیاستدان کے طور پر متعارف کروادیا۔ جنہوں نے چیف جسٹس کی بحالی کے لئےلانگ مارچ کا آغاز کردیا تھا۔ اگرچہ بعد میں چیف جسٹس کو بحال کردیا گیالیکن اس اثنا میں انکی حکومت کے ساتھ مستقل کشیدگی کا آغاز ہوگیا۔ جس نے زرداری حکومت کو عوامی فلاح و بہبود کے کام کرنے کی بجائے اپنی حکومت کو بچانے میں مصروف رکھاسیاست میں ٹائمنگ بہت اہم ہوتی ہے۔
زرداری صاحب نے سترھویں ترمیم کو ختم کرنے کے لئےجتنا غیر ضروری وقت لیا۔ اس نے بھی ان کے جمہوری ہونے کے تصّور کو خاصا نقصان پہنچایا۔ اگر یہی دوکام اقتدار ملتے ہی کر لئےجاتے تو جہاں زرداری صاحب کا امیج ایک جمہوری سیاستدان کی حیثیت سے بہتر ہوتا وہیں پیپلز پارٹی عدلیہ کے ساتھ غیر ضروری محاذ آرائی سے بھی بچ جاتی انہوں نے اپنے گر د جن لوگوں کو اکٹھا کئے رکھا۔ انکی شہرت بھی کچھ اچھی نہ تھی جن کی کرپشن کی داستانیں خود پارٹی ورکروں کے لئےبھی شرمندگی کا باعث بنیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ان پانچ سالوں میں انہوں نے پارٹی کی تنظیم اور اس کے معاملات میں کوئی دلچسپی نہ دکھائی اور پارٹی کو ایسے لوگوں کے حوالے کردیا جو پارٹی کلچر سے متضاد نظریات کے حامل تھے۔ زرداری صاحب والی پیپلز پارٹی کا پانچ سالہ دورِ حکومت کسی بھی لحاظ سے کوئی اچھا تاثر چھوڑنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ عوام ابھی تک اس بات پر حیران ہیں کہ اتنے خوفناک زوال کے باوجود پارٹی کی اعلیٰ قیادت، پارٹی میں تبدیلیاں کرنے، اسے زیادہ جمہوری بنانے اور اپنی غلطیوں سے کچھ سبق سیکھنے کے لئےتیار نہیں۔ سندھ حکومت میں وہی پرانے عمر رسیدہ چہرے ، وہی بیڈ گورننس اور پارٹی میں وہی مایوسی پائی جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی آخری امید نوجوان بلاول بھٹو ہیں ۔ امید ہے کہ وہ اس پر پور ا اتریں گے۔