• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اکنامک کوآپریشن آرگنائزیشن (اقتصادی تعاون تنظیم) کے 13ویں اجلاس کو اس لحاظ سے کامیاب ترین کہا جاسکتا ہے کہ اس کا انعقاد ایک ایسے موقع پر ہوا جب ایک طرف وطن عزیز کو اندرونی طور پر دہشت گردی کی تازہ لہر کا سامنا ہے جس کے تانے بانے مغربی ہمسائے افغانستان سے جا ملتے ہیں اور دوسری طرف عالمی سطح پر مشرقی ہمسائے بھارت کی طرف سے پاکستان کو سفارتی طور پر تنہائی کا شکار کرنے کے امن دشمن اقدامات جاری ہیں، ان حالات میں ایکو سمٹ اجلاس میں تمام رکن ممالک کی اسلام آباد میں موجودگی علاقائی امن و استحکام اور روابط کے فروغ کیلئے ایک خوش آئند امر ہے، میں سمجھتا ہوں کہ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کو اقتصادی تعاون تنظیم کا چیئرمین منتخب کیے جانے سے علاقائی منظرنامے میں پاکستان کے قائدانہ کردار کو مزید تقویت ملی ہے جبکہ اس اہم اجلاس میں چین کے ایگزیکٹو وائس فارن منسٹر سمیت اقوام متحدہ وفود کی شمولیت نے خطے سے اپنی وابستگی کا ثبوت دیا۔ ملکی و عالمی تجزیہ کاروں کی طرف سے بھارتی ہٹ دھرمی سارک کانفرنس کی بلاجواز ملتوی کا باعث بننے کے بعد حالیہ اقتصادی تعاون تنظیم کے اجلاس میں تمام رکن ممالک کی اعلیٰ سطحی شرکت کو بجا طور پر ملکی خارجہ پالیسی کی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔ تنظیم کا قیام پاکستان، ایران اور ترکی نے باہمی طور پر 1985 میں کیا تھا، روسی افواج کی افغانستان میں شکست نے وسط ایشیائی ریاستوں کو آزادی سے ہمکنار کیا اور1992میں مزیدسات ممالک بشمول افغانستان، آذر بائیجان، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان اقتصادی تعاون تنظیم کے رکن بنے، پاکستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کے مابین ثقافتی تعلقات صدیوں پر محیط ہیں، یہاں برصغیر میں برطانوی حکومت اور وہاں روسی قبضے نے وقتی دوریاں تو پیدا کیں لیکن روسی قبضے سے آزاد ہونے کے بعد تمام وسط ایشیائی ممالک حقیقی طور پر پاکستان ہی کو اپنی آزادی کا باعث سمجھتے ہیں، ترکی میں پاکستانیوں کے حوالے سے پائی جانے والی گرمجوشی کا یہ عالم ہے کہ ترکی میں پاکستانی باشندوں کو برادر کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے، ایرانی صدر حسن روحانی کی شرکت نے دوطرفہ تعلقات کے حوالے سے مختلف غلط فہمیوں کو دور کردیا ۔ایکو سمٹ سے وزیر اعظم نواز شریف کا افتتاحی خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ دنیا کی 52 فیصد تجارت تنظیم کے رکن ممالک پر مشتمل خطے سے ہو رہی ہے جبکہ پاکستان ہمسایوں سے پر امن تعلقات کا خواہاں ہے، وزیراعظم صاحب نے عظیم منصوبے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی افادیت سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ سی پیک کے مثبت اثرات سے پورا خطہ مستفید ہو گا لیکن اس مقصد کے حصول کیلئے علاقائی روابط کو فروغ دینا ضروری ہے۔ پاکستان جغرافیائی طور پر ایک ایسی اہم لوکیشن پر واقع ہے جس کی جغرافیائی اہمیت جنوبی ایشیا، مغربی ایشیا اور وسط ایشیاکی وجہ سے منفرد ترین ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ایسے اہم موقع پر جب افغانستان کے تمام ہمسائے ممالک کے سربراہانِ مملکت اسلام آباد میں سرجوڑے علاقائی امن و استحکام کو یقینی بنانے اور عوام کی ترقی و خوشحالی کیلئے مختلف تجاویز پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں افغان صدر خود شرکت نہ کرسکے اور ان کی نمائندگی افغان سفیر نے کی، پاکستان کو افغانستان سے روزِ اول سے شکایات ہیں اور ایسی شکایات افغانستان کو بھی پاکستان یا کسی بھی دوسرے ملک سے ہوسکتی ہیں لیکن ان تمام کا ازالہ رابطے رکھنے سے ہی کیا جاسکتا ہے، بھارت کے تمام تر پاکستان دشمن بیانات اور اقدامات کے باوجود وزیراعظم نواز شریف کا مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے دیرینہ موقف پر کاربند رہتے ہوئے بھارتی قیادت کو تجارتی تعلقات کے فروغ پر ہی زور دینے کا مقصد یہی ہے کہ جب آپس میں اقتصادی تعلقات میں بہتری آتی ہے تو دیگر تنازعات کے حل کیلئے بھی راستہ ہموار ہوتا چلا جاتا ہے، اس حوالے سے ہمیں اپنے عظیم دوست ملک چین سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے جو تائیوان کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے، جس کی خارجہ پالیسی کا اہم ستون ون چائنہ پالیسی ہے لیکن وہ عوامی مفاد کو اولین ترجیح سمجھتے ہوئے تائیوان میں بسنے والوں کوآمد و رفت اور رابطے بحال رکھنے کیلئے خصوصی اجازت نامے بھی جاری کرتا ہے، حالیہ ایکو سمٹ کا تو موضوع ہی ’’علاقائی خوشحالی کے لیے رابطے‘‘ ہے جسے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تناظر میں خصوصی اہمیت حاصل ہوگئی ہے، عالمی سطح پر مختلف ممالک کی جانب سے سی پیک منصوبے میں شمولیت کے حوالے سے خواہشات کا اظہار گاہے بگاہے ہوتا رہتا ہے لیکن اگر اس موقع پرتاریخی سلِک روٹ پر واقع رکن ممالک کی جانب سے سی پیک منصوبے پر باضابطہ حمایت کا اعلان ہوجائے تو میں سمجھتا ہوں کہ خطے کی ترقی و خوشحالی کا سفر مزید تیز تر ہوسکتاہے۔ افغانستان بھارت کے ایماپر ایکو سمٹ کو اہمیت نہ دیکر اپنے تئیں یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ سی پیک کے تحت گرم پانیوں کی بندرگاہ گوادر تک رسائی کیلئے وسط ایشیائی ریاستوں کو افغانستان کا مرہونِ منت ہونا پڑے گا لیکن اگر تاجکستان باضابطہ طور پرسی پیک کا حصہ بن جاتا ہے توعین ممکن ہے کہ روس اور دیگر وسط ایشیائی ریاستیں افغانستان کے رویہ سے نالاں ہوکرکو مکمل طور پر بائی پاس کرکے گوادر تک رسائی حاصل کرنے کی خواہاں ہوجائیں، پاکستان اور تاجکستان کو شمال مشرقی افغانستان کے کونے میں واقع لمبی و پتلی واخان پٹی جدا کرتی ہے۔ تاجکستان کے صدر امام علی رحمان نے گزشتہ دورہ پاکستان کے دوران وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات میں دونوں ممالک کے مابین مستقبل قریب میں زمینی رابطہ قائم کرنے کیلئے مختلف انفراسٹرکچر منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا،میری اطلاعات کے مطابق اس موقع پر چیئرمین این ایچ اے کی جانب سے معزز مہمان صدر کو دونوں ممالک کو باہمی طور پر منسلک کرنے کیلئے مختلف روٹس پر تفصیلی بریفنگ دی گئی تھی جس میں ایک تو گوادرسے شروع ہو کر پشاور کے راستے افغانستان میں داخل ہو کر کابل اور قندوز سے گزرتے ہوئے تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے تک تھا، دوسرا روٹ چترال سے واخان کی پٹی سے گزرتے ہوئے دوشنبے تک سڑک کی تعمیر کا تھا جبکہ سب سے زیادہ پرامن اور اہمیت کا حامل روٹ پاک چین سرحدی علاقے خنجراب سے چینی صوبے سنکیانگ کے علاقے کلاسو سے گزرتے ہوئے تاجکستان کے پہاڑی علاقے مرغاب تک سڑک کی تعمیر کا تھا۔ اگر ایسی کوئی سڑک مستقبل قریب میں تعمیر ہونے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ قدیم سِلک روٹ کے احیا کیلئے کلیدی نوعیت کی حامل ثابت ہوگی جس سے خطے میں بسنے والے لاکھوں کروڑوں باشندوں کے مابین رابطوں میں تیزی لائی جا سکے گی۔ آج کا ایکو سمٹ اجلاس اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے نے پاکستان کی اہمیت دوچند کردی ہے اور پاکستان کو بجا طور پر خطے کی ترقی کا مرکز قرار دیا جا رہا ہے، ایسی صورتحال میں افغانستان اور بھارت سمیت کسی ملک کو علاقائی ترقی کے سفر میں روڑے نہیں اٹکانے چاہئیں بلکہ رابطوں کے فروغ میں پاکستان کے ساتھ تعاون کا ہاتھ تھامنا چاہئے۔

.
تازہ ترین